• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اصلی اور نقلی میں فرق کرنا بہت مشکل کام ہے چنانچہ اصلی جمہوریت اور نقلی جمہوریت میں جو نازک سا فرق ہے وہ بھی وہی ہے جو اصلی عورت اور نقلی عورت میں ہوتا ہے۔ آپ نے کبھی کوئی ہیجڑا دیکھا ہے جو بیوٹی پارلر سے بن سنور کر نکلتا ہے اور کاروں کی چیختی چنگاڑتی بریکیں سنائی دینے لگتی ہیں۔ ہونٹوں پر لپ اسٹک، آنکھوں میں کاجل، ہاتھوں میں چوڑیاں ، لچکتی بل کھاتی کمریا اور جسمانی نشیب و فراز کا معقول بندوبست!۔ اصلی اور نقلی کا یہ نازک سا فرق اُس وقت سامنے آتا ہے جب وہ بولنے کی غلطی کرتا ہے یا جب اُس کی حرکات و سکنات بولنے لگتی ہیں۔ اِسی طرح نقلی جمہوریت کو پہچاننا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ اُس کے سارے لوازم بظاہر اصلی جمہوریت والے ہی ہوتے ہیں صدر، وزیراعظم، سپریم کورٹ، انتخابات، اسمبلیاں حتیٰ کہ اُس میں وزیرِ قانون بھی ہوتا ہے مگر یہ جمہوریت بھی جب بولتی ہے تو پہچانی جاتی ہے۔ جنرل ضیاءالحق کے زمانے میں سڑک پر ایک بنی سنوری نقلی عورت کو دیکھ کر ایک غیر ملکی نے اُس کی طرف اشارہ کر کے اپنے پاکستانی دوست سے پوچھا تھا Prostitute(طوائف)؟ دوست نے جواب دیا No Substitute(نہیں طوائف کا متبادل) جب کہ نقلی جمہوریت کسی کا متبادل نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی کام کی ہوتی ہے!۔

نقلی جمہوریت میں ہر کام عوام اور پاکستان کے مفاد میں کیا جاتا ہے، اُس میں امریکہ یا مقامی حکمرانوں کا کوئی بھلا نہیں ہوتا، نقلی جمہوریت اتفاقِ رائے کے بھی بہت خلاف ہوتی ہے۔ اُسے علم ہے کہ اتفاق کتنی بری چیز ہے بلکہ اُس کا تجربہ تو آپ کو بھی ہوا ہوگا۔ مثلاً آپ سڑک پر خراماں خراماں چلے جا رہے ہیں کہ ’’اتفاق‘‘ سے رستے میں آپ کو کھلا گٹر ملتا ہے، جس میں آپ گر جاتے ہیں یا آپ گاڑی چلا رہے ہیں اور ’’اتفاق‘‘ سے کوئی ٹرک آپ کے ساتھ آ ٹکراتا ہے، اُنہی وجوہ کی بنا پر نقلی جمہوریت والے عوام کو اتفاق کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتے۔ پس ثابت ہوا کہ بعض صورتوں میں نقلی جمہوریت اصلی جمہوریت سے بہتر بھی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تیسری دنیا کے ملکوں کے حکمران اپنے عوام کو نقلی جمہوریت جسے وہ حقیقی جمہوریت کا نام دیتے ہیں، کی برکات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کوڑھ مغز عوام کے پلے یہ بات نہیں پڑتی۔ چنانچہ اُنہیں جب بھی موقع ملتا ہے وہ اُن کی یہ پیشکش رد کرتے ہیں۔

اصلی اور نقلی جمہوریت کی طرح اصلی اور نقلی اپوزیشن بھی ہوتی ہے۔ اصلی اپوزیشن وہ ہوتی ہے جو حکمرانوں کو پسند نہیں ہوتی، وہ عموماً اُسے ملک دشمن کا نام دیتے ہیں اور نقلی اپوزیشن وہ ہوتی ہے جو حکمرانوں کو نہیں کھٹکتی بلکہ وہ اُسے صحت مند اپوزیشن قرار دیتے ہیں اور لاکھوں عوام کا منتخب کیا ہوا قائد سخت سے سخت بات کو ہضم کر جاتا ہے۔

خیر جمہوریت یا اپوزیشن اصلی یا نقلی، یہ ایک علمی بحث ہے برسرِ زمین جو حقیقت ہے وہ یہی ہے کہ زمیں میر و سلطان سے بیزار ہو چکی ہے۔ اِن دنوں اُن میروں اور سلطانوں کے بارے میں ایسے ایسے لطیفے تخلیق کئے جا رہے ہیں جن کی زد میں خصوصاً ہمارے فواد چوہدری آرہے ہیں کہ سننے والے پھڑک کر رہ جاتے ہیں بلکہ یہ لطائف جن کے متعلق ہیں وہ بھی ان کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ اُس کے علاوہ عوامی شاعری بھی اِن دنوں زوروں پر ہے، کیسی کیسی لوک شاعری ایس ایم ایس کے ذریعے مقبول ہو رہی ہے۔ سو ثابت ہوا کہ اصلی اور نقلی نیز کھرے اور کھوٹے کا سب احوال بالآخر کھل جاتا ہے۔ سلیم احمد مرحوم نے تو کھوٹے اور کھرے کا یہ احوال ایک ایسے مقام پر کھولا تھا، جس کی نشاندہی میں نہیں کر سکتا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اِس احوال کا تعلق بہرحال مردانگی سے ہے چنانچہ لوگوں کو زنانہ اور مردانہ کے درمیان جمہوریت قبول نہیں! بلکہ یار لوگوں کو خالص زنانہ جمہوریت اچھی لگتی ہے۔

تازہ ترین