ابھی میں نیویارک سے ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہوئی کہ ریڈیو کھول کر میرے دوست اور بہت اچھا لکھنے والے سعید نقوی نے چیختے ہوئے کہا ’’آپا سیف کیا قیامت گزر گئی‘‘۔ بی بی سی سے کیتھڈرل نوٹرے ڈیم سے شدید آگ لگنے کی تفصیلات سنائی جا رہی تھیں۔ گھر سے ڈیڑھ گھنٹے میں ایئرپورٹ پہنچا جا سکتا ہے۔ اِس عرصہ میں ہم دونوں اُس 800سالہ میوزیم اور کیتھڈرل میں موجود نوادرات اور آرٹ کے نمونوں کے بچ جانے کی دعائیں کرتے رہے۔ اتنے میں خبر آئی کہ لکڑی سے بنا اندرونی حصّہ مکمل طور پر جل گیا ہے۔ پھر تھوڑی دیر میں خبر آئی کہ گوتھک فن تعمیر کے نمونوں کو 12روبوٹس نے بچا لیا ہے۔ ہم دونوں نے یاد کیا کہ وہاں گارگوٹل اور گروٹیکس کے مجسمے ہیں۔ خاص طور پر سمسٹر ہوگر کا مجسمہ سب سے اوپر بیٹھ کر شہر کو دیکھ رہا ہے۔ یہیں بیٹھ کر وکٹر ہوگو نے اپنے ناول ’’دی ہنچ بیک آف نوٹرے ڈیم‘‘ لکھا تھا، جس میں انتھونی کوئنز نے کمال کام کیا تھا۔ سمجھنے اور سیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیتھڈرل میں آگ رات کو لگی اور خواتین و حضرات نے اپنی مدد آپ کے تحت ان کمال مخطوطات، مصوری کو جلنے سے بچایا ۔بارہویں صدی کے مشہور برج کو انسانی زنجیر بنا کر منہدم ہونے سے بچایا اور اِس وقت دنیا بھر کے امیر لوگوں نے ایک بلین ڈالر اکٹھے کئے ہیں کہ کیتھڈرل کی دوبارہ تعمیر کی جائے اور صدر فرانس نے کہا ہے کہ میں اِس کو اصل حالت میں بحال کر کے جائوں گا۔ مجھے نہ جانے کیوں حضرت بش یاد آئے کہ جنہوں نے عراق پر ایٹمی ہتھیاروں کا الزام لگا کر سب سے قدیم تہذیب کو ملیامیٹ کیا۔ یہی حال امریکہ نے شام اور یمن میں بھی کیا۔ مسلمانوں کے کسی دشمن نے ایسا ہولناک قدم نہیں اٹھایا تھا۔ اب تمام نوادرات آپ کو برطانوی میوزیم میں ملیں گے۔ جب اسلام آباد ایئرپورٹ پر اتری تو کوئٹہ میں ہزار گنجی کے علاقے میں خودکش دھماکے اور بعد میں حب کے راستے گوادر جانے والی بسوں کے لوگوں کو اتار کر شناختی کارڈ دیکھ کر، ہاتھ پائوں باندھ کر باقاعدہ گولیاں ماری گئیں۔ بیسں گھنٹے جاگنے کے بعد گھر پہنچ کر وہ سارے لوگ جو ڈیلس، ہیوسٹن، ڈیٹرائٹ اور نیویارک میں پاکستانی ہیں اور شاعری سننے کے بعد نیچی نگاہیں کئے یہی پوچھتے رہے، پاکستان کا کیا بن رہا ہے۔ میں اور وہ سب بقول منیر نیازی ’ایک لمبی چپ‘ میں لپٹے واپس لوٹتے ہوئے کہہ رہے تھے ’آپ اپنی کتابیں‘ فروخت کرنے کیلئے کیوں نہیں لائیں۔ میں نے حیرانی سے پوچھا ’’یہ آپ کیوں توقع کر رہے تھے‘‘۔ بولے ’’جتنے شاعر آتے ہیں، کتابوں کی بوریاں ساتھ لاتے ہیں۔ ہم بخوشی خرید لیتے ہیں‘‘۔ میں نے اُن سب کو سنگِ میل کا پتا لکھوا دیا کہ آپ وہاں سے کتابیں منگوا لیں۔
یہ امریکہ یاترا تھی آخر کس لئے۔ اولین طور پر، ڈاکٹر شگفتہ نقوی، فہمیدہ ریاض کے انتقال پر بہت ملول تھیں۔ اُنہوں نے کئی دفعہ فہمیدہ کی بیٹی ویرتا کو کہا کہ اُنہیں میرے پاس بھیج دیں مگر مٹی تو پاکستان اور وہ بھی لاہور ہی کی لکھی تھی۔ اُس ملال کو دور کرنے کیلئے ڈاکٹر شگفتہ نے مجھے بلا بھیجا کہ میں آپ کا پورا چیک اپ کرنا چاہتی ہوں۔ کسی بات کے کہنے اور کرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ میں تو ویسے ہی ’’نئے پاکستان‘‘ جیسے فقروں سے ڈسی ہوئی تھی۔ بے اعتباری کے عالم میں ڈاکٹر شگفتہ کے بھیجے ہوئے ٹکٹ پر عازمِ امریکہ ہوئی۔ بس پھر کیا تھا، صبح سے شام تک روبوٹ کی طرح مختلف کمروں میں ڈاکٹر میرا انتظار کر رہے تھے اور پورا وقت میرا ہاتھ ڈاکٹر شگفتہ کے ہاتھ میں تھا۔ مختصر یہ کہ بڑھاپے کی برکتوں کے باوجود جسم و جاں کا رشتہ ابھی اور زندگی کے تجربات لکھنے کیلئے، مسکراہٹ کے ساتھ شگفتہ گھر لے آئی، جہاں اُن کے شوہر ریاض نے ساری رپورٹوں پر اطمینان کا اظہار کیا اور شام خوبصورت کیسے ہوئی کہ تیس سال سے بچھڑے دوست احمد مشتاق سے ملاقات ہوئی۔ کمال تھا کہ چہرہ مہرہ ویسا ہی درخشاں اور گفتگو میں بھی وہی فقرے بازی اور پھر بیسپی سدھوا سے بھی ملاقات ہوئی۔ سب لوگوں کو یہ دن عید کا دن لگ رہا تھا۔ اُن ساری ملاقاتوں کا اہتمام عشرت آفریں اور اُن کے شوہر پرویز نے کیا اور گھر تھا شگفتہ کا کہ جہاں جھولتے پردے اور دنیا کے تبرکات موجود تھے۔ دونوں میاں، بیوی بہت صوم و صلوٰۃ کے پابند ہیں اور کینسر اسٹڈی میں دونوں کو سند مانا جاتا ہے۔ وہ تو بتا رہے تھے کہ ڈاکٹروں کے سارے گروپ سال میں کئی مرتبہ عطیات جمع کر کے مختلف اسپتالوں کو بھیجتے ہیں مگر یہ بھی جانتے ہیں کہ اُن کی موجودگی سے فائدہ اٹھانا تو کجا اُن کی دیکھ ریکھ بھی نہیں ہوتی ہے۔ بہرحال اگر وہ سارے ٹیسٹ مجھے پاکستان میں کروانا پڑتے تو پتا نہیں کتنے لاکھ لگتے مگر جس سکون، اطمینان اور منظم طریقے پر میرے دو دن اسپتال میں بیتے۔ لگتا تھا، سیرو سیاحت ہو رہی ہے۔
نیویارک میں حلقۂ اربابِ ذوق کے اجلاس میں شرکت کیلئے کئی دوسرے شہروں سے لوگ آئے اور وہی کتاب نہ ملنے کا گلہ کرتے ہوئے رخصت ہوئے۔ جس علاقے میں جلسہ تھا وہاں سردار، بنگالی اور مسلمان بھی کافی رہتے ہیں۔ دل چاہ رہا تھا کہ گول گپے کھائے جائیں۔ ذکر کیا ثمرین سے تو من و سلویٰ کی طرح میز پر گول گپے پورے لوازمات کے ساتھ موجود تھے۔ مجھے تو امریکہ میں سب چیزیں چھپر پھاڑ کے ہی ملیں۔ لطف تو اور دوبالا ہو گیا جب میرے بیٹے نے اپنے ہاتھ سے بھنڈی کی بھجیا بنائی۔ یہ وہی بچّے ہیں جو پاکستان میں خود اٹھ کر پانی بھی نہیں پیتے تھے۔
وطن لوٹنا اور وہ بھی 15دن میں کس کو برا لگتا ہے۔ رستے میں دکان پہ رکی، پوچھا ’’لیموں کس بھائو ہیں؟‘‘ جواب ملا:دو سو روپے کلو۔ پھر پوچھا: اور دو لیموں؟۔ اُس نے مہربانی سے کہا ’’دس روپے دے دیجئے‘‘۔ گھر آکر لہسن، ادرک کا بھائو پوچھا تو اور بھی اوسان خطا ہوئے۔ حکومت ڈول رہی ہے، قیمتیں ڈول رہی ہیں اور مولانا فضل الرحمٰن لشکر تیار کر رہے ہیں۔ وہ لوگوں کو شاید چٹنی روٹی بھی نہیں کھلا سکیں گے کہ مہنگائی سل پہ پسی چٹنی، نوالہ لگا کر کھانے کی اجازت بھی مشکل سے دے رہی ہے۔ پاکستان میں اب تک خودکش حملوں کی ہولی کھیلی جاری ہے۔ بس یہی سمجھئے کہ ’گھر نہیں دانے، اماں چلی بھنانے‘۔