• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس میں کیا شک ہے کہ شیخ الاسلام کو اب ”فیس سیونگ“ چاہئے تھی۔ شہبازشریف کے بقول ریاست بچانے کے دعوے دار کو اب اپنی عزت بچانے کا مرحلہ درپیش تھا۔ ادھر اس دھرنے کا پرامن اختتام حکومت کی بھی ضرورت تھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ چار پانچ روز صرف دھرنا والوں پر نہیں، قوم کے ہر حساس فرد پر بہت بھاری گزرے۔ ٹی وی چینلز ایک ایک منظر دکھا رہے تھے۔ بلا کی سردی میں شیرخوار اور نوعمر بچے بچیاں، خواتین اور بزرگ، ان میں سے کچھ کے لئے خیموں کا بندوبست تھا لیکن بڑی تعداد کھلے آسمان کے نیچے تھی۔ اگرچہ وہ رضائیاں اور کمبل ساتھ لائے تھے، کافی اور چائے کا اہتمام بھی تھا لیکن غضب کے اس موسم میں یہ سب کچھ کافی نہ تھا۔ ادھر ٹی وی کیمرے شیخ الاسلام کے بلٹ پروف کیبن کا ایک ایک زاویہ دکھا رہے تھے جس میں کسی سیون سٹار ہوٹل جیسی تمام آسائشیں موجود تھیں۔ حضرت قبلہ کی جان عقیدتمندوں سے زیادہ قیمتی سہی اور اس کے لئے بلٹ پروف اہتمام بھی اپنی جگہ لیکن اعلیٰ درجے کی سہولتیں، نرم و گداز بستر، اوون، فریج، انٹرنیٹ، حسب خواہش درجہ حرارت میں کمی یا اضافے کا اہتمام اور اس میں صرف شیخ الاسلام نہیں، ان کے صاحبزادے اور پوری فیملی بھی۔ عقیدتمندوں کی بات الگ ہے وہ تو اپنے مرشد کی ہر حرکت، ہر کوتاہی کا جواز تراش لیتے ہیں لیکن عام آدمی تو اپنے انداز میں سوچتا ہے خصوصاً جب شیخ الاسلام، حکمرانوں کو یزید، اسلام آباد کو کربلا اور خود کو حسینی قافلے کا سالار قرار دے رہے ہوں۔
ادھر مولانا نے مصرع طرح کہا، ادھر شامی صاحب نے گرہ لگا دی۔ جاتی عمرا میں نوازشریف کی زیرصدارت اپوزیشن رہنماؤں کی مشاورت کے اختتام پر پریس بریفنگ میں شیخ الاسلام کا ذکر ہوا تو مولانا فضل الرحمن کی رگِ ظرافت پھڑکی اور انہوں نے طاہرالقادری کو مسلمانوں کا جے سالک قرار دے دیا، ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران لاہور کا ایک دلچسپ کردار، وہ کبھی سخت گرمی میں موٹے ٹاٹ کا لباس زیب تن کر لیتا، کبھی گھر کا سامان سڑک پر رکھ کر نذر آتش کر دیتا کبھی گڑھا کھود کر اس میں بیٹھ جاتا، کبھی لاہور کے چیئرنگ کراس میں خود کو صلیب کے ساتھ باندھ لیتا اور کبھی خود کو پنجرے میں بند کر لیتا۔ یہ مارشل لا کی پابندیوں میں احتجاج کا ایک انداز تھا یا لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا طریقہ۔ بہرحال اپنی ان کارروائیوں سے وہ عالمی ذرائع ابلاغ میں بھی اچھی خاصی کوریج حاصل کر لیتا۔ مولانا نے طاہرالقادری کو مسلمانوں کا جے سالک قرار دیا تو شامی صاحب نے گرہ لگائی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جے سالک عیسائیوں کا طاہرالقادری ہے۔ میجر عامر کو یہ مماثلت پسند نہ آئی، ان کا کہنا تھا جے سالک کا پنجرہ تو پانچ ہزار کا ہوتا تھا جبکہ طاہرالقادری کے بلٹ پروف کیبن کو جدید ترین سہولتوں سے آراستہ پیراستہ کرنے پر پانچ کروڑ اٹھ گئے، گویا کہاں راجہ بھوج، کہاں گنگو تیلی۔ بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات ساری قوم کے لئے سخت اضطراب اور بے چینی لائی تھی۔ تھانہ کوہسار میں شیخ الاسلام اور ان کے ڈیڑھ درجن رفقاء کے خلاف مقدمے کے اندراج کے ساتھ رحمن ملک کی طرف سے ”ٹارگٹڈ“ آپریشن کا اعلان پورے ملک میں اندیشوں اور وسوسوں کا طوفان لے آیا تھا۔ کیا شیخ الاسلام کا دھرنا ایک خونی انجام کی طرف بڑھ رہا تھا بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں کیا ملک کا جمہوری نظام ایک بڑے حادثے سے دوچار ہونے والا تھا؟ لیکن حکومتی حلقوں میں فراست بروئے کار آئی، خود صدر زرداری نے ایسے کسی بھی امکان کو مسترد کردیا تھا اس کے باوجود لاکھوں افرادِ قوم کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور جا چکی تھی جنہیں نیند نے آ لیا تھا، ان کی نظریں بھی آنکھ کھلتے ہی ٹی وی سکرینوں پر مرکوز ہوگئی تھیں۔ کہیں انہونی ہو تو نہیں گئی؟ لیکن خدا نے کرم کیا اسلام آباد کی کربلا میں تیسری رات بھی خیریت سے گزر گئی تھی۔ شیخ الاسلام اگرچہ اہل دھرنا کو اپنے کئی کئی گھنٹوں پر محیط تقاریر کے ذریعے گرماتے رہے۔ ان کی تقریر کا کچھ حصہ انگریزی میں تھا، عالمی حلقوں کے لئے، یہ پاکستان کے سیاسی حکمرانوں اور پارلیمنٹ کے خلاف دہشت گردی کے حوالے سے ایک طرح کی چارج شیٹ تھی، دہشت گردی کو پروموٹ اور ایکسپورٹ کرنے کی ایف آئی آر۔ وہ تو لاہور سے روانہ ہی اس اعلان کے ساتھ ہوئے تھے کہ یہ حسینی قافلہ تخت یزید کو گرانے کے لئے نکلا ہے۔ اگلی رات اسلام آباد پہنچ کر انہوں نے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی معزولی کا اعلان فرمایا، یہ سب سابق ہو چکے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے لئے انہوں نے صبح گیارہ بجے کی ڈیڈ لائن دے دی تھی۔ اگلے روز ان کا خطاب خطابت کا شاہکار تھا۔ انہیں علامہ، مولوی یا مولانا کہا جائے تو چڑ جاتے ہیں لیکن یہاں وہ اپنے خطاب میں کربلا کے استعارے لائے۔ دسویں محرم کی شب امام کی تقریر کا حوالہ، میں دیا بجھا رہا ہوں جسے جانا ہو چلا جائے۔ شیخ الاسلام کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے کربلا میں بھی معرکہ برپا ہونے سے قبل جسے جانا ہے چلا جائے وہ کسی سے گلہ نہیں کریں گے لیکن پھر بھرائی ہوئی آواز میں وہ حلف لے رہے تھے بزرگوں سے امام حسین  کا حلف، نوجوانوں سے حضرت علی اکبر  اور معصوم بچوں سے علی اصغر  کا حلف، خواتین سے حضرتِ زینب  کا اور بچیوں سے معصومہ سکینہ  کا حلف، وعدہ کرو مجھے چھوڑ کر چلے تو نہیں جاؤ گے اور پھر فرمایا، میں یہاں سے جیت کر نہ گیا تو دھرتی کے اوپر رہنے کی بجائے قبر میں چلا جاؤں گا۔ حکمرانوں کو اور اپنے سیاسی مخالفین کو انہوں نے ہر وہ گالی دی جو اردو لغت میں موجود تھی۔ اختلاف کرنے والے صحافیوں پر انہوں نے لفافے لینے کا الزام لگایا۔ کیبل آپریٹروں کو بخیے ادھیڑنے کی دھمکی دی۔ ادھر ملک کی جمہوری قوتیں آئین اور جمہوریت کے تحفظ کا عہد کررہی تھیں۔ لندن کی آل پارٹیز کانفرنس (جولائی 2007ء) کے بعد پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کی جمہوری طاقتیں ایک بار پھر نوازشریف کے گرد جمع تھیں ان میں خالص سیاسی جماعتیں بھی تھیں اور دینی سیاسی جماعتیں بھی۔ لبرل، پروگریسو اور قوم پرست بھی۔ پریس بریفنگ میں مولانا فضل الرحمن اور انس نورانی ان کے بائیں طرف تھے تو سید منور حسن اور پروفیسر ساجد میر دائیں جانب۔ محمود خاں اچکزئی، حاصل بزنجو، طلال بگٹی، آفتاب شیرپاؤ، حامد ناصر چٹھہ اور سلیم سیف اللہ بھی۔ پیرپگاڑا کی نمائندگی کا اعزاز مصطفی کھر کو حاصل ہوا۔ محمود خاں اچکزئی کا کہنا تھا، آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہوئی تو فیڈریشن نہیں رہے گی اور یہ اعلان بھی کہ اس صورت میں ہم ملک کے ہر شہر اور قصبے کو تحریر چوک بنا دیں گے۔ ادھر پنجاب اسمبلی کے سامنے ہزارہا افراد جن میں غالب تعداد نوجوان طلبہ اور طالبات کی تھی، جمہوریت کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کررہے تھے۔
ادھر دھرنا طویل تر ہوتا جارہا تھا اور موسم شدید تر۔ جمعرات کا آدھا دن گزر گیا تھا لیکن آج بھی جڑواں شہر سے کوئی کال نہیں آئی تھی، کوئی مداخلت نہیں ہوئی تھی۔ دھرنے کے قریب ہی ملک کی سب سے بڑی عدالت کا چیف جسٹس کسی ماورائے آئین اقدام کی مزاحمت کے عزم کا اعادہ کررہا تھا۔ ایک دن پہلے کپتان کے بیان سے جو امید بندھی تھی، تحریک انصاف کے تازہ اعلان سے وہ بھی دم توڑ گئی تھی۔ فرزند لال حویلی آیا لیکن شیخ الاسلام کے سکیورٹی گارڈز نے اسے دور ہی روک دیا۔ کیبن کے اندر آکر ٹی وی کیمروں کا مرکز بننے کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو وہ ناراض ہوکر لوٹ گیا۔ تنہائی کے اس عالم میں سابق ڈکٹیٹر تھا جس نے بیرون ملک سے شیخ الاسلام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ علامہ صاحب نے (تب وہ شیخ الاسلام کے مرتبے تک نہیں پہنچے تھے) تین چار سال اس کی بھرپور حمایت کی تھی اب دھرنے کی حمایت کرکے وہ اس احسان کا بدلہ چکا رہا تھا۔ جھنجھلاہٹ کے عالم میں وہ یہ کہے بغیر بھی نہ رہا کہ جنرل کیانی کی جگہ وہ ہوتا تو تبدیلی آچکی ہوتی۔ تخت یزید کا دھڑن تختہ کرنے کے حسینی عزم کے ساتھ اسلام آباد کی کربلا کا رخ کرنے والے شیخ الاسلام لاہور لوٹ آئے ہیں اور خدا کا شکر ہے کہ بخیریت لوٹ آئے ہیں۔ اس سفر اور حضر میں بلا شبہ ایک گملا بھی نہیں ٹوٹا لیکن پرویزرشید کے بقول وہ گملا توڑنے نہیں آئین توڑنے گئے تھے۔ قیادت کی ایک آزمائش یہ بھی ہوتی ہے کہ اس نے کتنی طاقت کے ساتھ کیا حاصل کیا۔ کیا شیخ الاسلام اور ان کے طرف دار بتلائیں گے کہ اربوں روپے کے اخراجات، اپنے ہزارہا وابستگان کو شدید مشکلات اور خطرات سے دوچار کرنے اور ساری قوم کو اضطراب اور ہیجان میں مبتلا رکھنے کے بعد انہوں نے حاصل کیا کیا؟ یہی سب کچھ تو پہلے سے دستور اور قانون میں موجود ہے اور اس پر عملدرآمد کا میکنزم بھی۔ مولانا فضل الرحمن کے بقول، کھودا پہاڑ، نکلا چوہا اور وہ بھی مرا ہوا۔
تازہ ترین