• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

None of us is as smart as all of us(ہم میں سے کوئی ایک اتنا عقلمند نہیں جتنا ہم سب مل کر ہیں) یہ فلسفۂ عمل جاپان کی دوسری جنگ عظیم میں ایٹمی حملے کی تباہی کے بعد حیرت انگیز ترقی کا کھلا راز ہے جسے جاپانی دانشور مکمل شعوری کوشش سے اپنی نئی نسل کو منتقل کئے جا رہے ہیں اور دنیا اس کے نتائج سے مرعوب ہے۔ جاپان وہ ملک ہے جس کے پاس تیل و گیس کے ذخائر ہیں نہ سونا چاندی اور دوسری قیمتی معدنیات، نہ ہی یہ مثالی زرعی خطے کا حامل ہے۔ اس نے خود کو سنبھالنے اور پھر نہ رکنے والی ترقیٔ مسلسل کا جو کامیاب ترین سفر شروع کیا، اس کا تمام انحصار اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت یعنی انسانی وسیلے Human Resourceپر کیا،ؒ ہیومن ریسوس ڈویلپمنٹ (یعنی انسانی دماغ، ہاتھ پیر اور حرکات کی اشرف صلاحیت) کو منظم کرکے تربیت و تعلیم سے ہم آہنگ کرکے متذکرہ فلسفۂ عمل کے مطابق قومی ترقی کا تمام تر انحصار اس پر ہی کیا جائے تو تباہ و برباد ملک، وہ بھی ایٹمی حملے سے، آج کا قابلِ رشک جاپان بن جاتا ہے۔ ہمارے بابائے قوم نے ایک ہی سال میں نومولود پاکستان کی یتیمی سے پہلے یہ سبق فقط تین لفظوں اتحاد، ایمان، تنظیم کی شکل میں دیا۔ اتحاد اور تنظیم پاکستان ہی نہیں ہر قوم کے استحکام کا مطلوب ضامن ہیں جبکہ ہر دنیاوی وسیلے کو مسخر کرنے کا سبق ’’ایمان‘‘ یزدانی ہے، جو سب فلسفیوں پر حاوی و غالب ہے لیکن ہمارے عالم اور دانشور بحیثیت مجموعی قوم کے لئے اس کی تشریح میں ناکام ہی نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے ہماری بیمار قومی زندگی کے انداز میں تبدیلی لانے کے لئے قوم میں ’’ایمان‘‘ کو Injectکرنے کی کوئی منظم اور مکمل شعوری کوشش بھی نہیں کی، جو کچھ کوششیں ہوئیں وہ گروہی و مسلکی انداز میں رنگی ہوئی تھی، سو نتیجہ لاحاصل۔ آج کی تنہا ’’سپر پاور‘‘ امریکہ نے اپنی قومی ترقی و تعمیر کا آغاز بھی مجوزہ مسودہ (آئین) پر 13ریاستوں کے اتفاق رائے سے شروع کرکے اسے عظیم نو آباد خطے کے اتحاد و اتفاق میں تبدیل کر دیا اور روایتی آباد دنیا سے کوسوں دور ہو کر بھی دو سو سال میں سپر پاور بن گئی، یوں ’’یو ایس اے‘‘ کا ’’یو‘‘ اس کی اصل طاقت ہے۔ جدید دنیا میں مستحکم اور ترقی یافتہ اقوام کا اوپن سیکرٹ ان کا متفقہ دستور اور اس پر کامل عملدرآمد ہے۔ قارئین کرام! 16اپریل کے کالم بعنوان ’’آئینِ پاکستان، بے قصور‘‘ میں واضح کیا گیا کہ پاکستان کس طرح متفقہ آئین سے محرومی کے باعث آئینی بحران میں مبتلا ہوکر ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ سے بحرانی پاکستان بن کر دولخت ہوا اور کس طرح ایک متفقہ دستور کے نفاذ (ادھورے) کے باوجود بحرانوں میں مبتلا ہو کر بھی بحرانی تو رہا لیکن آج بھی یہی قومی متفقہ دستور (ہر نوعیت کی حکومتوں نے جس کے مکمل نفاذ میں بے ایمانی کا ارتکاب کیا) ہمیں کم از کم ’’سلامتی کے خطرے‘‘ سے بچائے رکھنے کا ضامن ہے، وہ تلخ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ اس کے مرضی سے نفاذ سے ہم جملہ اشکال کے بحرانوں میں مبتلا رہتے ہیں، سب سے بڑھ کر ’’بدترین جمہوریت کے نام پر بیڈ گورننس کا عذاب‘‘ اسی تناظر میں، 2008-18کے عشرے میں بدترین جمہوریت کی حامل کرپٹ ترین حکومتوں نے ملک کو جس جاری بحرانی کیفیت میں مبتلا کیا، اس سے مایوس ہو کر کچھ پاکستان کے نادان دوستوں نے آئین پاکستان جسے مکمل شکل اور اس کی روح کے مطابق متفقہ ہونے کے بعد نافذ ہی نہیں کیا جا رہا، کو قصوروار ٹھہرا کر صدارتی نظام کو بحران در بحران سے نکلنے کی راہ قرار دیا اور پروپیگنڈے کے سے انداز میں قوم کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ بدترین جمہوریت میں کرپشن سے لتھڑی حکومتوں نے جو نظامِ بد تشکیل دیا ہے، وہ نافذ (ادھورا) آئین تبدیل کئے بغیر قوم موجودہ بحران سے نہیں نکل سکتی، ساتھ ہی ’’صدارتی نظام‘‘ کا آزمایا چورن بیچنا شروع کر دیا، جس کے دام اچھے خاصے اور پاکستان کے کھرے، صاحب الرائے دانشور اور صحافی صدارتی نظام کے ہمنوا بن گئے اور سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا شروع ہوگیا کہ پاکستان میں یہ ناکام آزمودہ نظام اب یا اب نافذ ہوا۔ تقاضا یہ تھا کہ متفقہ (لیکن ادھورے) نافذ آئین ِ پاکستان کو مکمل اطلاق سے نافذ العمل کرکے قومی فریضہ پورا کیا جاتا لیکن گلے سڑے، شدید سماجی ناانصافی پر مبنی اسٹیٹس کو (اصل میں نظامِ بد) کا ذمہ دار اس (آئین ِ پاکستان) کو قرار دے کر آئینی بحرانوں کے ہولناک نتائج سے صرف نظر کرکے ’’صدارتی نظام‘‘ کی تکرار شروع کر دی مگر ٹی وی ٹاک شوز، تجزیوں اور کالموں میں اس کے جواز پر کوئی بھی عقلی دلائل سامنے نہ آئے۔ ’’صدارتی نظام کا سوچا بھی نہیں جا سکتا، نجانے یہ شوشہ کہاں سے چھوڑا گیا، صدارتی نظام کے حوالے سے کوئی تجویز زیرِ غور نہیں۔ ایسی باتیں کہاں سے آ جاتی ہیں، ایسی کوئی سوچ موجود نہیں‘‘ جمعہ کو اسلام آباد میں سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے یہ ریمارکس اور اطلاع وزیراعظم عمران خان نے صحافیوں کے سوالات کے جواب میں دی۔ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں۔ منتخب وزیراعظم کے ان دو ٹوک جوابات نے ’’صدارتی نظام‘‘ کی قوم کو پھر کنفیوژ کرنے والی تجویز کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ خود وزیراعظم عمران خان نے متذکرہ میڈیا ٹاک میں اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ ’’وہ کسی صورت احتسابی عمل کو این آر او سے ڈسٹرب نہیں کریں گے‘‘۔ احتسابی عمل آئینی تقاضا ہے اور وزیراعظم نے اپنے ریمارکس کسی خاص جماعت یا شخصیت کے حوالے سے نہیں دئیے بلکہ یہ بیانیہ ’’قانون کی نظر میں سب شہری برابر‘‘ جیسے آئینی لازمے کا عکاس ہے۔ کون اور کیسے کس آئینی و قانونی و اخلاقی جواز سے اس کی مخالفت کر سکتا ہے۔ قوم یاد رکھے کہ خود آئین شکنی کے الزام کے مرتکب سابق صدر جنرل پرویز مشرف اس امر کا اظہار اپنے کتنے ہی انٹرویوز میں کر چکے ہیں کہ ’’این آر او‘‘ ان کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ اسی کے نتیجے میں پاکستان کی اقتصادیات کو مکمل تباہی سے دو چار کرنے والا ’’عشرہ بدترین جمہوریت‘‘ شروع ہوا۔ پرویز مشرف کا یہ اقدام آئین پاکستان کی موجودگی میں صدارتی نظام کا سا ایکشن تھا۔ کوئی ہے جو بتا سکے پاکستان کی نجات کی ایک ہی راہ ’’آئین کا مکمل اور قانون کا سب شہریوں پر یکساں اطلاق‘‘ کے بیانیے کی کیونکر مخالفت کی جا سکتی ہے؟ اور صدارتی نظام کی تجویز پر قومی اتفاق کیسے پیدا کیا جا سکے گا؟ جواب ندارد کہ بحث ختم شد۔

تازہ ترین