• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مغل بادشاہ شاہ جہاں کو جب ان کے بیٹے عالمگیر نے فضول خرچیوں اور کمزور حکومتی اقدامات پر معزول کر کے شاہی قید خانے میں رکھا تو داروغہ زندان نے معزول بادشاہ سے پوچھا کہ جیل میں آپ کیا کھانا پسند کریں گے اور آپ کے کیا مشاغل ہوں گے؟ شاہ جہاں نے کہا کہ مجھے کھانے میں چنے اور مشغلے کیلئے بچوں کو پڑھانا چاہتا ہوں، داروغہ کی سمجھ میں نہیں آیا اس نے آکر اورنگزیب عالمگیر کو بتایا تو عالمگیر نے کہا کہ جیل میں بھی بادشاہی کی خو نہیں گئی۔ یعنی اناجوں کا بادشاہ چنا ہوتا ہے جو 100طریقہ سے پکایا اور کھایا جا سکتا ہے اور پڑھانے سے مراد استاد کی حاکمیت ہے کیونکہ استاد ہمیشہ حکم دیتا ہے جو بادشاہوں کا وتیرہ ہے۔ میاں نواز شریف جب مشرف دور میں جیل گئے تھے تو انہوں نے مسلم لیگ کی صدارت چھوڑنے کے بجائے اپنی بادشاہت قائم رکھی اور طویل سزا سننے کے بعد بھی کسی کو قائم مقام صدر نہیں بنایا جبکہ پارٹی میں درجنوں نائب صدر بن چکے تھے اور ظفر الحق جو سینئر نائب صدر تھے، بار بار بیان دیتے رہے کہ وہ اس عہدے کے صحیح حقدار ہیں اور سیاست میں بھی یہی ہوتا ہے کہ صدر حاضر نہ ہو تو نائب صدر ہی صدارت کرتا ہے۔ راجہ ظفر الحق نے تو پارٹی کو متحد رکھ کر اپنی اہلیت ثابت بھی کر دی تھی۔ وہ نواز شریف کی غیر موجودگی میں غیر متنازع شخصیت بن کر ابھرے تھے مگر نواز شریف صاحب نے جیل سے خط بھیج کر پار ٹی لائن بنائی تو اس میں ان چہیتوں کا ذکر اور خراجِ تحسین پیش کیا تھا، جن کی غلط اور خوشامدانہ پالیسیوں اور چاپلوسیوں کی وجہ سے ان کو یہ دن دیکھنا پڑا تھا، مگر ظفر الحق کے لئے ایک جملہ بھی لکھنا مناسب نہیں سمجھا۔ یہ بات سب سے زیادہ جن لیڈروں نے محسوس کی ان میں چوہدری شجاعت، میاں اظہر، شیخ رشید، عابدہ حسین، فخر امام و دیگر قائدین شامل تھے، اسی وجہ سے راجہ ظفر الحق نے میٹنگ شروع کرتے ہی استعفیٰ دیدیا تھا، جس کو متفقہ طور پر نامنظور کرکے ان سے درخواست کی گئی کہ وہی اجلاس کی صدارت کریں۔ مسلم لیگ کی صدارت کیلئے تو ایک درجن سے بھی زیادہ امیدوار آپ کو مل جائینگے۔ یہاں میں شہباز شریف صاحب کے اس مشورہ کا نہ صرف حامی ہوں بلکہ داد بھی دیتا ہوں کہ انہوں نے فوج سے محاذ آرائی اور کشیدگی کو کم کرنے کیلئے نواز شریف صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ پارٹی الیکشن کروا کر پانچ دس سال کیلئے شریف فیملی کو صدارت سے الگ کر کے نئے لوگوں کو لائیں مگر اس وقت بھی میاں نواز شریف نے دیگر سیاستدانوں کی طرح مسلم لیگ کو اپنی ملکیت سمجھتے ہوئی اپنی بیگم کلثوم نواز کو جو سو فیصد خانہ داری میں مصروف تھیں، یکایک میدانِ سیاست میں اتار دیا۔ ہماری بیورو کریسی اور پولیس نے غیر ضروری اقدامات کرکے ان کی سیاسی سنچری بنوا دی، جس بھونڈے انداز سے ان کو روکنے کے اقدامات کئے اس سے ایک طرف مردہ مسلم لیگ کے گھوڑے میں جان پڑ گئی تو دوسری طرف عالمی میڈیا نے خوب نمک مرچ لگا کر ہماری جمہوریت کا مذاق اڑایا اور بعد میں انہی میاں صاحب کی غلطیوں سے پاکستان مسلم لیگ معرضِ وجود میں آئی تھی، جس کے صدر چوہدری شجاعت حسین ہیں اور دوسری پارٹی اعجاز الحق نے بنالی تھی۔ میاں صاحب نے اپنے دونوں ادوار میں کارکنوں کو کچھ نہیں دیا اور جب ان پر مصیبت آتی ہے تو کارکن یاد آتے ہیں۔ اب جبکہ میاں صاحب دوبارہ پھنس گئے تو انہوں نے صدارت شہباز شریف کے حوالے کر دی مگر اندورنی طور پر وہ تمام اختیارات مریم نواز کو دینا چاہتے ہیں، مجھے تو بعض مسلم لیگیوں پر ترس آتا ہے جنہوں نے ایامِ اقتدار میں صرف قربانیاں ہی دی ہیں اور آج بھی مسلم لیگ کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں کیونکہ وہ واقعی مسلم لیگ سے مخلص ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ مسلم لیگ کو بحران سے نکالنے کیلئے مخلص قائدین کو آگے لایا جائے۔ سیاست میں ہمیشہ فتح کا خواب نہیں دیکھا جاتا، شطرنج کی طرح بازی ہاری اور ہاری ہوئی جیتی بھی جاتی ہے، اب میاں شہباز شریف نے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے جو شریف فیملی کو 2عہدوں سے دستبردار کروا دیا ہے۔ چند دنوں سے مسلم لیگ (ن) کے اندر سے آوازیں آنا شروع ہو گئی تھیں کہ ہمارا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے، (ن) لیگ کے اراکینِ پارلیمنٹ پارٹی پالیسی پر برہم ہو رہے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کی مشترکہ پارلیمانی پارٹی نے اپنے اجلاس جس کی صدارت راجہ ظفر الحق اور خواجہ آصف کر رہے تھے، شہباز شریف کی لندن واپسی ملتوی ہونے کے باعث رانا تنویر کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین اور خواجہ آصف کو متفقہ طور پر پارلیمانی لیڈر مقرر کیا جبکہ شاہد خاقان عباسی، شہباز شریف کی غیر موجودگی میں قائم مقام پارٹی صدر ہوں گے، خواجہ سعد رفیق نے اجلاس میں کہا کہ آج جو تنظیم سازی کی بات ہو رہی ہے، یہ 2سال پہلے ہونا چاہئے تھی، تنظیم فعال اور متحرک شکل میں ہوتی تو ہم تحریک چلانے کی پوزیشن میں ہوتے۔ ہم سب نیب کو انفرادی طور پر بھگت رہے ہیں، سینیٹر کامران مائیکل سے کوئی ملنے نہیں گیا، حنیف عباسی اکیلا لڑتا رہا، قربانی دینے والے دیرینہ ساتھیوں کو آگے لایا جائے اور تنظیم سازی پر کام تیز کیا جائے، شہباز شریف کے لندن قیام بڑھ جانے کی صورت میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ شاہد خاقان عباسی کو دیا جانا چاہئے۔ ایسا نظر آرہا ہے کہ NROہو گیا ہے، دونوں بھائی ایک ایک کرکے لندن چلے جائینگے، مریم صفدر بھی ساتھ ہوں گی، شریف فیملی سیاست سے باہر ہو جائے گی، پھر پی پی پی سے مقابلہ آسان ہو جائے گا۔ ویسے بھی مولانا فضل الرحمٰن بھی بیمار ہونا شروع ہو گئے ہیں، ملک ٹیکنو کریٹس چلائینگے، عمران خان رمضان کے بعد مزید ٹیکنو کریٹس مشیروں کا اعلان کریں گے۔ اپوزیشن بھی کمزور ہو جائے گی۔

تازہ ترین