• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شام کو صبح کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف نہ نکلا کیونکہ جذ بہ ِ بے اختیار ِ شوق کا کیا کیجئے اگر اس شہرکے لوگ، گرچہ ظالم نہیں ہیں، ہی بے مہرہیں… اور ہر ڈھلتی شام کا سورج کسی انقلابی تبدیلی کا دلاسہ دیے بغیرطے شدہ قانون کے مطابق ہی اگلی صبح طلوع ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کہے گئے الفاظ کو زحمت ِ سماعت دیدیں لیکن یہ الفاظ اس شہر کے باسیوں کے افعال کے رہنما نہیں ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ لانگ مارچ میں شرکاء کی تعداد خاطر خواہ تھی لیکن جس ہنگامہ ہائے شوق کے دعوے تھے،وہ دیکھنے میں نہ آیا اور اگرچہ سخت موسم کے باوجود علامہ صاحب کے لانگ مارچ کے شرکاء اپنی جگہ پر ثابت قدم رہے، اسلام آباد کے جناح ایونیوکی قسمت میں نہیں تھا کہ اسے تحریر چوک لکھا جاتا۔ چنانچہ ابتدائی شوریدہ سری نے معقولیت کی راہ اپنانے میں عافیت جانی۔
نوشتہ ٴ دیوار واضح ہے اور اسے پڑھنے میں کسی کو ابہام نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان انقلابی تبدیلیوں کیلئے نہیں بنا ہے۔ہمارے ستاروں کوسیارگی ناپسند ہے اور ہمارا ریاستی ڈھانچہ تغیر پذیری کا روادار نہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عام پاکستانیوں کے لبوں پر دو الفاظ کا ورد جاری رہتا ہے… تبدیلی اور انقلاب… لیکن اب جب روایتی سیاست کے قلعے کو لرزہ براندا م کرنے والوں نے تبدیلی کا مارچ شروع کیا تو ہم نے نہایت بے اعتنائی سے آنکھیں پھیر لیں۔ اب ایسا موقع شاید ہماری زندگی میں نہیں آئے گا… کم از کم میری عمر کے لوگوں کی زندگی میں۔ کیا پاکستان میں کبھی تبدیلی کی بہار آئے گی؟ فیض صاحب کی نظم ”بہار آئی تو جیسے“ میں تو خواب اور شباب عدم سے لوٹ کر گلابوں کا لبادہ اُڑھ لیتے ہیں لیکن ہماری قومی زندگی پر ثبت ”غبار ِ خاطر “ میں تبدیلی کے خواہاں عشاق کے لہو کی مشک بو ناپید ہے ۔ چنانچہ ہم امکانات کو ہاتھ سے جاتا دیکھ کر اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر چائے سے محظوظ ہوتے ہوئے آنسو بہائیں گے اورجب کپ ختم ہو جائے گا تو ہم پھر اس کوبھر کر کسی اور سمت دور فاصلے پر دیکھتے ہوئے کسی اور مدھم ہیولے کو تبدیلی کا اشارہ سمجھ کر منتظر ہوجائیں گے۔ اتنی دیر میں کوئی اور نظم یاد آئے گی اور ”ہم دیکھیں گے“۔
کہا گیا ہے کہ اس لانگ مارچ نے جمہوریت کو داؤ پر لگادیا تھا اور ایک لمحے کو تو جمہوریت کے ناخدا اس کی کشتی کو گرداب میں دیکھ کر سینہ کوبی میں مصروف تھے ۔ اس دوران لاہور میں ہونے والی ایک کانفرنس، جس میں کئی علماء اور قوم کے نجات دہندہ موجود تھے، کی تصاویر دیکھ کر میرا دل ڈوب گیا۔ کیا ہم نے اسے کوئی تاریخی حقیقت سمجھ لیا ہے کہ جمہوریت میں ہی ہماری نجات ہے؟اگر یہی افراد جمہوریت کے چیمپئن ہیں توپھر میرے جذبات کے لئے صحافتی زبان ناکافی ہے۔ اسی طرح کی ایک اور تصویر عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمان کی ہے جب وہ پنجاب اسمبلی، جس کی عمارت مخصوص شخصی رویوں کی علامت بن چکی ہے، کے سامنے موم بتیاں روشن کر رہے تھے۔ واہ، میرے یہ دونوں دوست کتنے جذباتی ہورہے تھے!اب ذرا لگے ہاتھوں یہ بھی بتادیں کہ جمہوریت کے خلاف وہ کون سی خفیہ سازش تھی جس کے تانے بانے ڈاکٹر قادری صاحب بن رہے تھے؟خدا کی پناہ، وہ صرف جمہوری عمل کو شفاف بنانے اور بدعنوان ، ٹیکس چور اور قرضہ معاف کرانے والے دولت مند افراد کا اقتدار میں راستہ روکنا چاہتے تھے۔ اسے جمہوریت کے خلاف سازش کیسے کہا جا سکتا ہے؟لیکن پروفیسر صاحب پر تنقید کی بوچھاڑ جاری رہی کہ وہ کچھ خفیہ مقاصد رکھتے ہیں۔ بعض دانشوروں نے یہ بھی کہا کہ وہ بلٹ پروف کیبن میں کیوں ہیں جبکہ اُن کے پیروکار باہر سخت سردی کا عذاب اپنی جان پر جھیل رہے ہیں ۔ کچھ کو اس ساری کارروائی میں کوئی خفیہ ہاتھ بھی نظر آگیاجو جمہوریت کو پٹری سے اتارنا چاہتا تھا۔ جن کو کچھ نظر نہ آیا اُنھوں نے ان کی دہری شہریت اور ٹوپی پر ہی تنقید کرتے ہوئے خود کو جمہوریت کا محافظ ثابت کر لیا۔
کیا کہنے اس قوم کے! اس کی ریل گاڑیاں تو پٹری پر چل نہیں پاتیں کیونکہ اکثر اس حالت میں ہیں کہ اگر اُنہیں کوئی کباڑیہ بھی خرید لے تو غنیمت ہو گا لیکن اس نے جمہوریت کو پٹری پر چڑھائے رکھا ہے…اور ایسا کرتے ہوئے ان غریب عوام نے صاحب ثروت اور استحقاق زدہ طبقے کی شخصی حکمرانی کو ہی جمہوریت سمجھتے ہوئے پوری خلوص ِ نیت سے اس کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔اس ”کامیابی “ پر وہ فخر کر سکتے ہیں۔ ہمارے ہمسایہ بھارتی باشندے بھی اپنی جمہوریت پر فخر کرتے ہیں اگرچہ بڑی تعداد میں لوگوں کو واش رومز کی سہولت بھی دستیاب نہیں ہے اور اگر آپ انڈیا جائیں تو آپ کو صبح صبح بہت سے افراد ریلوے لائنوں پر ہی حوائج ِ ضروریہ سے فارغ ہوتے نظر آئیں گے ۔ تاہم وہ مطمئن ہیں کہ وہ باقاعدگی سے انتخابات میں ووٹ ڈالتے ہیں اور جمہوریت کی گاڑی کو رواں دواں رکھے ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی اس لانگ مارچ کے اختتام کو جمہوریت کی ترقی کے ایک سنگ ِ میل کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ جی ہاں ہم نے جمہوریت بچانی ہے اور یہاں پروفیسر صاحب کی گستاخی ملاحظہ فرمائیں کہ وہ لبرل اسلام، خواتین کی آزادی ، اقلیتیوں کے حقوق بات کرتے ہیں اور لفظ ”مولانا“ سے چڑتے ہیں۔ اس پر مستزاد ، وہ عوامی جمہوریت کی بات کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔ افسوس ہے اُن پر، ہماری جمہور پسندی ان باتوں کو کیسے برداشت کرسکتی ہے؟عقل کو ہاتھ ماریں، جناب! پاکستان اور عوامی جمہوریت؟شہری مساوات؟ کیسی احمقانہ باتیں سوچتے ہیں ڈاکٹر صاحب !کیا اُن کو اب تک نہیں پتا چلا کہ پاکستان صرف اشراف کے عیش کے لیے بنا تھا، چنانچہ یہاں جمہوریت ، یا جو بھی طرز ِ حکمرانی ہو،بھی انہی کے مفاد کے تحفظ کے لئے ہوگا۔ اگر کوئی اس حقیقت پر انگلی اٹھانے کی جسارت کرے گا تو اُس کا حشر بھی وہی ہو گا جو اب پروفیسر صاحب کا ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت کے تسلسل کے نعرے اس قدر فلک شگاف ہیں کہ ہمارے سروں پر واقعی فلک میں شگاف پڑ چکے ہیں․․․ یعنی سر ننگے ہو چکے ہیں۔ یہ نعرے سن کر تو کوئی یونانی جنگجو بھی ڈر کے مارے چھپ جاتا … قادری صاحب خود کو کیا سمجھتے تھے ؟
بھارت میں جمہوریت کے تسلسل سے درمیانہ طبقہ وجود میں آکر خوشحالی کی طرف قدم بڑھا رہا ہے اور یہ ایک حوصلہ افزا پیش رفت ہے، لیکن اس نے دولت مندخاندانوں کو مزید طاقتور بنا دیا ہے۔ اس دوران انڈیا کے غریب عوام کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ دنیا میں جہاں بھی کسی مخصوص مراعات یافتہ طبقے کو حکمرانی کے لائق سمجھا گیا ہے، وہاں جمہوریت نے یہی گل کھلائے ہیں۔ بے فکر رہیں، پاکستان میں ایک نہیں پندرہ مزید انتخابات کرا لیں، نتیجہ یہی نکلے گا․․․ اشراف مضبوط ہوتے جائیں گے اور غریب عوام وعدوں کی صلیب پر لٹکے لاچاری کو سیاسی وفاداری سمجھ کر خوش ہوتے رہیں گے۔
کچھ ذکر اُس خفیہ ہاتھ کا بھی کر لیں جو ہمارے دانشوروں کو اس لانگ مارچ کی ڈور ہلاتا واضح نظر آرہا تھا۔ اب وہ کہاں غائب ہو گیا ہے ؟اگر کوئی خفیہ ہاتھ تھا اور کچھ کرنا چاہتا تھا تو کیا اس سے بہتر کوئی اور بھی موقع ہو سکتا ہے کہ ملکی دارالحکومت میں جناح ایونیو پر ہزاروں افراد احتجاجی دھرنا دیے ہوئے ہوں ؟چنانچہ اب جب دیکھنے بہت آئے تھے تو تماشا کیوں نہیں ہوا ؟کیا اس سے یہ مراد لی جائے کہ قادری صاحب، جیسا کہ اُن کا خود کہناہے، کے پیچھے کوئی خفیہ ادارہ نہ تھا؟میراخیال ہے کہ ان کے ناقدین، جو اب تک ہجو پڑھ پڑھ کر بے حال ہو چکے ہیں، کو یہ بات پسند نہیں آئے گی کیونکہ وہ اس کے سوا کچھ نہیں سوچنا چاہتے کہ اس لانگ مارچ کے درپردہ کوئی اور مقاصد تھے اور پروفیسر صاحب کی ڈور کسی اور کے ہاتھ تھی ۔ اب جب کہ لانگ مارچ اختتام پذیر ہو چکا ہے، قادری صاحب کیا کریں گے ؟ ایک بات ماننا پڑے گی کہ اُن کے خطابات بہت جوشیلے تھے۔
ان کے نظریات سے اختلاف کیا جا سکتاہے لیکن یہ بات تسلیم کرنا ہو گی کہ اس وقت پاکستان میں اُن کے پائے کا کوئی مقرر نہیں ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ لانگ مارچ کے حتمی نتائج اُن کی مرضی کے مطابق نہیں آئے ہیں کیونکہ اُن کے بنیادی مطالبا ت کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی اُن کے پاس کوئی طاقت تھی جس سے وہ اپنی مرضی مسلط کرا سکتے کیونکہ ایک طرف پر امن شہری تھے تو دوسری طرف ریاستی طاقت تھی۔
تاہم ا ن کو قدم پیچھے ہٹانے سے شرمندگی نہیں بلکہ سربلندی ملے گی کیونکہ فنون ِ حرب میں سب سے مشکل کام پیچھے ہٹنا ہی ہوتا ہے۔ جس استقامت کے ساتھ اُن کے پیروکاروں نے موسم کی سختی کو برداشت کیا وہ داد طلب ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ صرف پہلا قدم ہو۔ بعض اوقات اپنے سے زیادہ قوی حریف سے پنجہ آزما ہو کر شکست کھانا بہت کچھ سکھا دیتا ہے۔ چنانچہ اب خفیہ ہاتھ کے خبط سے جان چھڑا لیں کیونکہ 1970 میں بھٹو صاحب کے آمریت کے خلاف نعرہ ِ مستانہ کے بعد اگر قوم نے کسی کی موجودگی کو محسوس کیا ہے تو وہ ڈاکٹر طاہر القادری ہی ہیں۔ دیکھیں ، سیاسی طبقہ کس طرح لرزہ براندام تھا اور اپنے اختلافات بھلاتے ہوئے سب کے سب اُن کے خلاف یک جان نظر آئے۔ ان کے پیش نظر جمہوریت کو پٹری سے اتارنے سے روکنا نہیں تھا کیونکہ کوئی بھی ایسا کرنے نہیں جارہا تھا ۔ پی ایم ایل (ن) کو اپنا خدشہ تھا کہ پروفیسر صاحب کو کسی نادیدہ طاقت نے اس لئے بھیجا ہے کہ اُن کے اقتدار میں… جو ان کے خیال میں یقینی ہو چکا ہے․․․ آنے کا راستہ روکا جائے جبکہ کانفرنس میں موجود بعض مولانا حضرات کو فکر لاحق تھی کہ طاہر القادری صاحب اُن سے کئی قدم آگے ہیں اور وہ ایک ایسی راہ پر چل نکلے ہیں جس پر چلنے کا وہ خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ اب یہ بات طے ہے کہ یہ لانگ مارچ یادوں سے آسانی سے محو نہیں ہوگا اور یہ تصور بھی ذہن میں جاگزیں رہے گا کہ اس کا انجام یا نتیجہ کچھ اور بھی ہو سکتا تھا اور یہ سوچ کوئی معمولی تبدیلی نہیں ہے۔ اس دوران بہتر ہے کہ پاکستان میں ”تبدیلی، انقلاب اور گند صاف کرنا“ جیسے الفاظ کو ممنوع قرار دے دیا جائے۔ اس مارچ کے دوران پاکستانی قوم جس نفسیاتی کرب سے گزری ہے اُس کے نتائج ابھی آنا باقی ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ آئندہ ہم مثبت سمت قدم بڑھائیں گے تاکہ انقلابی نعرے کی ضرورت باقی نہ رہے۔
حرف ِ آخر: کل مشہور گلوکار کے ایک سہگل کی66 ویں برسی تھی۔ ایک شام سہگل کے نام کرتے ہوئے اُس کی لافانی غزلیں سنیں اور ایک لمحے کی خود فراموشی سے ذہن تروتازہ کرلیں۔
تازہ ترین