• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
معاف کیجئے گا محاورہ کچھ اسی ترتیب میں ہے۔ ایک آنکھ ہنستی ہے، دوسری آنکھ روتی ہے۔ نامعلوم کیوں جب ہمارے ہنسنے کی گھڑی آتی ہے، بہت سے مقامات آہ و فغاں پیدا کردئیے جاتے ہیں۔ کیوں نہ اس مرتبہ رونے والی آنکھ کو ایک ہاتھ سے پونچھتے ہوئے ہنسنے والی آنکھ میں انگڑائی لیتی امید کی کلّی کا ذکر کیا جائے۔ شدید سردی کی لہر گزر چکی۔ بہار کے دن اب زیادہ دور نہیں ۔
درد مندوں کو نوید ہو کہ ”سیاست نہیں، ریاست بچاؤ“ کا گمراہ کن نعرہ ایک بار پھر ہار گیا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے تیس برس پہلے ”چہرے نہیں، نظام کوبدلو“ کا نعرہ ناکام ہوگیا تھا۔ قیمتی گاڑی کے بلٹ پروف جھروکے سے درشن دیتی نوٹنکی سے صرف یہ واضح ہوا کہ اس ملک میں بنیادی کشمکش صرف دو قوتوں کے درمیان ہے، جمہوریت نواز اکثریت اور جمہوریت مخالف ٹولہ۔ آئے روز ایک نئے بحران کی گرد اٹھانے والے گروہ کے نام اور مقاصد اب راز نہیں ہیں۔ اس انہدامی دستے کو نشان زد کر لینا چاہیے۔ جمہوریت کے یہ گورکن کبھی منصور اعجاز کے دامن تار تار میں پناہ لیتے ہیں تو کبھی طاہر القادری کی کلاہ کج انداز کی آڑ میں حملہ آور ہوتے ہیں؟ اس ملک کو سیاست اور جمہوریت سے کوئی مفر نہیں۔ وجہ سادہ ہے۔ یہ ملک جمہوری اصولوں کے مطابق اور سیاسی عمل کے ذریعے وجود میں آیا تھا۔ پاکستان ایک وفاقی جمہوریہ ہے، سرزمین محروسہ نہیں۔ اس ملک کی سلامتی اور ترقی کی ضمانت جمہوریت کے تسلسل میں ہے۔ اگر حکومتی وفد نے مذاکرات کی تدبیر سے خون خرابے کے بغیر اسلام آباد خالی کرایا ہے تو اسے جمہوری طریقہٴ کار کی کامیابی سمجھنا چاہئے لیکن برسراقتدار اتحاد کو یہ اخلاقی قوت حزب اختلاف کے اس اجلاس نے عطا کی ہے جو بدھ کے روز لاہور میں منعقد ہوا تھا۔ اگر میاں نواز شریف، محمود اچکزئی، فضل الرحمن اور منور حسن جمہوریت کے مفاد میں شانہ بشانہ کھڑے ہو سکتے ہیں، اگر چھوٹی موٹی کمزوریوں کے باوجود ذرائع ابلاغ جمہوریت کے خلاف سازشوں کو بے نقاب کر سکتے ہیں تو اس ملک کی سلامتی اور عوام کی حاکمیت کو کوئی خطرہ نہیں۔
کوئی ہفتہ بھر پہلے طاہر القادری بہت سے بلند بانگ دعووٴں کے ساتھ لاہور سے سوئے اسلام آباد روانہ ہوئے تھے۔ انہوں نے چار روز تک دارالحکومت کے قلب میں چھاؤنی ڈالے رکھی۔ خواتین اور کم عمر بچوں سمیت ان کے ہزاروں پیروکار کھلے آسمان تلے سردی میں ٹھٹھرتے رہے جب کہ مولانا ایک بے حد جدید اور موسمی شدائد سے بے نیاز گاڑی میں فروکش تھے۔ وہ پہر دن چڑھے ٹی وی اسکرینوں پر طلوع ہوتے اور گھنٹوں اپنے تراشیدہ لہجے کی کھنک سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ کروڑوں شہری بیم و رجا کی سولی پر لٹکے رہے۔ تاآنکہ حکومت نے قادری صاحب کو ایک ’دفتر بے معنی‘ کا بہلاوا پکڑا کر پھر سے عازم لاہور کردیا۔ آئندہ چند روز تک ایک نیا تماشہ دیکھنا پڑے گا۔ مولانا اپنی نرتکی انگلیوں کے نت نئے زاویے دکھاتے ہوئے ”تاریخی فتح“ کے شادیانے بجائیں گے۔ مناسب ہو گا کہ طاہرالقادری کے طوفان بلاخیز سے نسیم سحر کی توقعات باندھنے والے خود سے سوال کریں کہ کیا ’جبر اور ناانصافی کا نظام‘ بدل گیا ؟ کیا قائد انقلاب کی موعودہ تبدیلی آ گئی؟ کیا وطن کو ’یزیدی لٹیروں‘ سے پاک کر لیا گیا؟ موروثی سیاست کے خلاف بغاوت کا اعلان کرنے والے کے عقب سے مسلسل کس صاحبزادے کا چہرہ جھانکتا رہا؟ ’حقیقی جمہوریت‘ کی ضمانت دینے والے اعلان اسلام آباد کی حقیقت کیا ہے ؟ اعلامیہ معاہدہ نہیں ہوتا۔ معاہدہ ایک ایسی دستاویز کو کہا جاتا ہے جسے قانون کی قوت نافذہ حاصل ہو۔ اسلام آباد میں ہونے والا اعلان زیادہ سے زیادہ ایک سیاسی سمجھوتے کی حیثیت رکھتا ہے۔ 9 مارچ 2007ء کو بھوربن کے مقام پر بھی ایک سیاسی سمجھوتہ ہوا تھا جو سیاست کے سرد و گرم کی تاب نہیں لا سکا۔ حکومت کا نامزد کردہ کوئی وفد یکطرفہ طور پر آئینی نوعیت کے معاملات طے نہیں کر سکتا۔ کاغذ کے اس ٹکڑے کا مقصد مولانا کی تالیف قلب سے زیادہ کچھ نہیں۔
اس مناقشے میں ایک دلچسپ دلیل یہ سنائی دی کہ طاہرالقادری کے ارشادات کی اصابت پر کان دھرنے کی بجائے ان کے شخصی کوائف اور سیاسی پس منظر پر کیوں توجہ دی جا رہی ہے۔ واہ صاحب، اگر سیاست دان کی ذات ایسی ہی غیر اہم ہے تو آئین کی دفعات 62 اور 63 پر اتنا زور محض اس لیے کہ ان کی من مانی تشریح سے جمہوریت کے پر کاٹے جا سکتے ہیں؟ حالیہ رونمائی میں طاہر القادری کی یہ ادا نئی ہے کہ اب انہیں مولانا کا لقب پسند نہیں۔ یہ بھی اچھا ہی ہواکیونکہ مسلم روایت میں مولانا کا لقب بہت احترام کا حامل ہے۔ اگر نام لئے بغیر صرف مولانا کہا جائے تو اس سے مولانا رومی کی نیک ہستی مراد لی جاتی ہے۔ طاہر القادری نے اب مولانا کہلانے سے کنارہ کیا ہے ، شاید کچھ عرصے میں انہیں شیخ الاسلام کے خود اختیار کردہ خطاب سے بھی پیچھا چھڑانا پڑے۔ نہایت تیز ہیں مغرب کے رندے۔ یاد رہے کہ پیشوائیت کے دیوتا تو ایسے پتھر ہیں کہ انہوں نے قریب 85 برس پہلے ابوالکلام آزاد کو امام الہند مان کے نہیں دیا۔ یہ تو لاہور کے پچھواڑے کی مشیخت ہے۔ یہ بھی خیال رہے کہ جس طرح پاکستان کے بدخواہوں نے قائد اعظم اور بھٹو کی روشن خیالی کو کبھی معاف نہیں کیا، پاکستان کے عوام نے بھی مسجد سے ٹیلی ویژن اور پھر سیاسی اسٹیج سے ہوتے ہوئے دیار مغرب کی جبہ سائی تک پہنچنے والوں کی ریا کاری پہچاننے میں کبھی غلطی نہیں کی۔ تو بہر صورتے می آید، من ترا خوب می شناسم ۔
اس صورت حال کے سبھی پہلو ایسے روشن نہیں۔ ملک کی جمہوری قیادت کو آئین کی دفعات 62 اور 63 کے متن پر سنجیدہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔ ملک کے اعلیٰ ترین قانون میں ایسے مبہم تصورات کی گنجائش نہیں ہوتی جن کی آڑ میں کوئی طالع آزما عوام کے حق حاکمیت کو مفلوج کر سکے۔ پاکستان کے عوام کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ کب تک چرب زبانی کی دہلیز پر جان و مال کی بھینٹ چڑھاتے رہیں گے ۔جذبوں کی تب و تاب سلامت مگر سیاست میں عقل و خرد کی بھی سننی چاہیے۔ حالیہ لانگ مارچ سے ہمیں سیاسی اور معاشی نقصان ہوا ہے۔ طا ہر القادری تو ہار کر بھی ناکام نہیں رہے۔ وہ اپنے اعلان کردہ مقاصد کے حصول کے لیے نکلے ہی کب تھے۔ انہیں تو اس ملک کے جسد اجتماعی میں فانے کا نوکیلا حصہ داخل کرنا تھا۔ جس لیے آئے تھے، سو ہم کر چلے۔ تاہم اس رستاخیز میں ایک بے حد خطرناک نظیر قائم کردی گئی ہے۔ خطابت، عقیدت اور رجعت پسندی کا سہ آتشہ مرکب خطرناک ہوتا ہے۔ طاہر القادری نے سیاسی پذیرائی کا جام ہوش افگن چکھ لیا ہے۔ اب وہ وقفے وقفے سے خراج وصول کرنا چاہیں گے۔
تازہ ترین