• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب میں وہ بلدیاتی نظام ختم کر دیا ہے، جو پاکستان مسلم لیگ (ن) نے رائج کیا تھا۔ پنجاب میں جو نیا بلدیاتی نظام رائج کیا گیا ہے، وہ تحریک انصاف پہلے خیبر پختونخوا میں رائج کر چکی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف نے اپوزیشن کے زبردست احتجاج کے باوجود دو بلز منظور کرا لئے۔ ان میں ایک پنجاب لوکل گورنمنٹ بل 2019ء اور دوسرا پنچایت اینڈ نیبرہڈ (Neighborhood)بل 2019ء ہے۔ گورنر پنجاب نے ان دونوں بلز کی توثیق بھی کر دی ہے۔ اس طرح یہ دونوں قانون بن چکے ہیں۔ ان قوانین کے نفاذ کے ساتھ ہی پنجاب میں پرانا بلدیاتی نظام یا یوں کہئے کہ مسلم لیگ (ن) والا بلدیاتی نظام ختم ہو گیا ہے۔ منتخب لوکل کونسلز تحلیل ہو گئی ہیں اور منتخب نمائندے بھی اپنے عہدوں پر برقرار نہیں رہے حالانکہ ان کا ابھی ایک سال باقی تھا۔

پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ایک جیسا بلدیاتی نظام رائج ہونے سے قبل چاروں صوبوں، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور قبائلی علاقوں میں الگ الگ بلدیاتی نظام رائج تھے۔ یہ صورت حال انتہائی تشویشناک ہے کیونکہ ہم بحیثیت قوم نچلی سطح پر ایک جیسے جمہوری نظام پر متفق نہیں ہو سکے۔ بلدیاتی ادارے جمہوری نرسریاں ہوتے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر نظام حکومت پر بھی بحیثیت قوم ہم متفق نہیں ہیں لیکن اختلافات کے باوجود ملک میں یکساں پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے۔ بلدیاتی نظام ہر صوبے کا مختلف ہے۔ صرف فوجی آمروں کے زمانے میں ایک جیسا بلدیاتی نظام رائج رہا۔ جنرل ایوب خان کے دور میں پورے ملک کیلئے بنیادی جمہوریتوں کا نظام رائج رہا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979ء کے تحت ایک جیسا نظام رائج رہا اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001ء میں اس آرڈیننس کا خاتمہ ہوا تو تمام صوبوں نے الگ الگ بلدیاتی نظام رائج کر دیئے۔ سیاسی اور جمہوری حکومتیں پورے ملک میں ایک جیسے بلدیاتی نظام پر متفق نہ ہو سکیں۔ یہ المیہ ہے کہ غیر جمہوری حکومتوں میں بلدیاتی انتخابات زیادہ ہوئے جبکہ جمہوری حکومتوں نے کوشش کی کہ بلدیاتی انتخابات نہ ہوں۔ سیاسی قوتوں کا خیال یہ ہے کہ غیر جمہوری قوتوں نے بلدیاتی اداروں کو اپنے مقاصد کیلئے سیاسی قوتوں اور جمہوریت کے خلاف استعمال کیا لیکن اس سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں کہ انہوں نے ان بلدیاتی اداروں کو سیاسی قوتوں اور جمہوریت کی مضبوطی کیلئے استعمال کیوں نہیں کیا حالانکہ وہ اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ جب تک نچلی سطح پر جمہوری عمل نہیں ہوتا، تب تک جمہوریت جڑ نہیں پکڑ سکتی۔یہ ٹھیک ہے کہ آئین کے تحت ہر صوبے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حالات کے مطابق اپنے ہاں بلدیاتی نظام رائج کرے لیکن جمہوریت کا بھی بنیادی تقاضا ہے کہ اختیارات زیادہ سے زیادہ نچلی سطح پر تقسیم کرکے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنایا جائے۔ مغربی جمہوریتوں کی مضبوط بنیاد ہی بلدیاتی ادارے ہیں۔ ترقی، منصوبہ بندی، صحت، تعلیم، بنیادی شہری سہولتوں کی فراہمی اور امن و امان سمیت تمام امور مقامی حکومتوں کے پاس ہوتے ہیں۔ وہ انتظامی اور مالیاتی طور پر مکمل خود مختار ہوتی ہیں۔

اس وقت پاکستان میں رائج بلدیاتی نظاموں میں سب سے اچھا بلدیاتی نظام میرے خیال میں وہ ہے، جسے تحریک انصاف کا بلدیاتی نظام کہا جا سکتا ہے لیکن پنجاب میں رائج پرانے منتخب نظام کو اپنی مدت پوری کرنے دی جاتی تو بہتر ہوتا۔ پرانی لوکل کونسلز کو قبل از وقت ختم کرکے تحریک انصاف نے بہتری لانے والے ایجنڈے پر اپنے سیاسی ایجنڈے کی چھاپ لگا دی ہے اور یہ بھی کوئی اچھی بات نہیں ہے کہ کونسلرز کا انتخاب غیر جماعتی بنیاد پر ہوگا۔اب وقت آگیا ہے کہ چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتیں اور سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر ایک ایسے بلدیاتی نظام پر اتفاق کریں، جو اگرچہ مکمل طور پر ایک جیسا نہ ہو لیکن بہت زیادہ مختلف بھی نہ ہو۔ ہم 21ویں صدی کی تیسری دہائی میں داخل ہو رہے ہیں اور مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے میں بہت تاخیر کر چکے ہیں۔ اب مزید تاخیر سے ہمارے شہر مزید تباہ ہوں گے، دنیا کے مزید گندے شہر بن جائیں گے اور یہاں صحت و صفائی، ٹرانسپورٹ، امن و امان اور ماحولیات کے حوالے سے حالات مزید خراب ہوتے جائیں گے۔ بڑے شہروں سے لے کر دیہی کونسلز تک سب کو مالی اور انتظامی طور پر بااختیار بنائے بغیر نہ ہم بنیادی مسائل سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں اور نہ ہی جدید جمہوری ریاست بن سکتے ہیں۔ اب کراچی، لاہور، اسلام آباد، ملتان، فیصل آباد، کوئٹہ، پشاور، حیدر آباد وغیرہ جیسے بڑے شہروں کو بے اختیار مقامی حکومتوں سے نہیں چلایا جا سکتا، جو فنڈز کیلئے صوبائی حکومتوں کی طرف دیکھتے رہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ کراچی جیسے تین کروڑ آبادی والے شہر کے بارے میں فیصلوں کا اختیار مقامی حکومت کے پاس نہیں ہے۔ اس شہر کے بلڈنگ کنٹرول، منصوبہ بندی و ترقی، پانی اور نکاسی آب کے ادارے صوبائی حکومت چلاتی ہے۔ اب حالات یہ ہیں کہ کراچی شہر قابلِ انتظام نہیں رہا۔ انفراسٹرکچر کے بغیر بلند عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دے دی گئی۔ شہر کی ترقی و منصوبہ بندی میں مقامی حکومتوں سے مشاورت نہیں کی جاتی۔ شہر کا ماسٹر پلان اس لئے نہیں بن سکا کہ شہر کے منتخب نمائندوں سے کبھی پوچھا ہی نہیں گیا کہ آئندہ دس یا بیس سالوں کیلئے یہاں کیا منصوبہ بندی ہو۔

وقت آگیا ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہروں سے لے کر دیہی یونین کونسلز تک بااختیار مقامی حکومتیں ہوں۔ کراچی کی میں بات اس لئے کر رہا ہوں کہ اتنی بڑی آبادی والے اس شہر کو اب مالیاتی اور انتظامی طور پر بے اختیار مقامی حکومتوں کے ذریعے نہیں چلایا جا سکتا اور اس شہر کے منصوبوں کے بارے میں صرف صوبائی بیورو کریٹس کے فیصلوں سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ کراچی کو ایک مضبوط منتخب میئر کے ذریعہ چلانا ضروری ہو گیا ہے۔شہری منصوبہ بندی والے تمام اداروں کا کنٹرول بلدیہ عظمیٰ کراچی کو دینا ہوگا۔ بااختیار کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن ہو اور اس کے نیچے بااختیار ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز اور یونین کمیٹیاں ہوں۔ بااختیار مقامی حکومتوں والا یہ نظام پورے سندھ اور پورے ملک میں ہونا چاہئے۔ تحریک انصاف کا ماڈل بظاہر اچھا ہے لیکن اس میں مزید بہتری لانا چاہئے۔

تازہ ترین