• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سچی بات تو یہ ہے کہ عمران خان نے بیک وقت تین چار بم گرا کر نہ صرف عوام کو تقریباً بے ہوش کر دیا ہے بلکہ تجزیہ کاروں، دانشوروں، مذہبی اسکالرز اور روحانیت کے مسافروں کو بھی پریشان کر دیا ہے۔ استقبالِ رمضان کے تصور سے ’’محبت‘‘ کے تقاضے نبھاتے ہوئے حکومت نے ایک دم پٹرول، ڈیزل، مٹی کا تیل وغیرہ کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کر کے غریب عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ حکومت غریبی مٹائو پروگرام پر عمل کر رہی ہے یا ’’غریب مٹائو‘‘ پروگرام کو عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے؟ حکومتی مہرے کہتے ہیں کہ سبسڈی نہیں دی جا سکتی اور غریب عوام پوچھتے ہیں کہ وہ ریاستِ مدینہ یا ریاست ماں جیسی کہاں گئی۔ دوسری طرف عمران خان نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے عہدے داران کو ملکی خزانے کی کنجی عطا کر دی ہے اور جس عطار کے لونڈے کے سبب بیمار ہوئے تھے اُسی سے دوا لینے چلے ہیں۔ چھ ماہ بعد معاشی صورتحال بہتر ہو جائے گی، جیسی لوریاں اب عوام کا دل لبھا نہیں سکتیں نہ ہر بات کا الزام ماضی کے حکمرانوں کو دے کر غریب عوام کے دکھوں کا مداوا کیا جا سکتا ہے۔ جنہوں نے بہتری کے لئے ووٹ دیے تھے وہ عوام اب بددعائیں دیتے ہیں تو مجھے دکھ سا ہوتا ہے۔ ان بددعائوں کو سننے کے لئے عوام سے ملنا پڑتا ہے، بات کرنا پڑتی ہے اور اُن کی آپس کی گفتگو پر کان دھرنا پڑتے ہیں۔ اقتدار کی راہداریوں، سرکاری بنگلوں، جھنڈا بردار گاڑیوں اور ہٹو بچو کے ماحول میں یہ آوازیں سنائی نہیں دیتیں۔ چار دہائیاں حکومت میں گزارنے کے بعد میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ عمران خان تک عوام کے سچے جذبات، ان کی آہیں اور بددعائیں نہیں پہنچ رہیں کیونکہ حکمران کو اقتدار کے محل میں بند کر کے بیرونی ذرائع سے منقطع کر دیا جاتا ہے۔ ورنہ اگر عمران جیسا حساس اور ہمدرد انسان عوام کی باتیں سنے تو اُس کی راتوں کی نیند حرام ہو جائے۔ مخلوقِ خدا سے خالص محبت اور مخلوق کی بے لوث مخلصانہ خدمت روحانیت کی سیڑھی کا پہلا قدم ہے۔ اپنے باطن کو ہر قسم کی دنیاوی آلائش مثلاً انتقام، نفرت، حسد، غصہ، بغض، کدورت، تکبر وغیرہ سے پاک اور صاف کرنا پہلا مجاہدہ ہے، جس شخص کی ہر بات سے انتقام، کدورت اور نفرت ٹپکتی ہو، اُس کا روحانیت سے کیا تعلق؟ جو انسان صبر و تحمل و عاجزی جیسی نعمتوں سے مالا مال نہ ہو، اُس کا روحانیت سے کیا واسطہ؟ جس سے لوگ تنگ ہوں اور اُسے بددعائیں دیتے ہوں، وہ اللہ کا قرب کیسے حاصل کر سکتا ہے جبکہ روحانیت کا مطلب ہی قربِ الٰہی اور رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ رضائے الٰہی مجاہدوں، عبادتوں اور نفس کو غلام بنا کر حاصل ہوتی ہے۔ روحانیت ایک ایسی قلبی واردات ہے جو اللہ اور اُس کے بندے کے درمیان وقوع پذیر ہوتی ہے۔ یہ کسی درسگاہ یا یونیورسٹی کی دین نہیں ہوتی بلکہ نگاہِ مردِ مومن کی عطا ہوتی ہے، مرشد کی دین ہوتی ہے یا کسی روحانی بزرگ کی نگاہ کا کرشمہ ہوتی ہے۔ وہ حدیثِ قدسی یاد کرو لیکن پہلے یہ سمجھ لو کہ حدیث قدسی وحی اللہ پاک کی اور الفاظ حضور نبی کریمﷺ کے ہوتے ہیں۔ فرمانِ الٰہی ہے ’جب کوئی بندہ عبادت اور نوافل ادا کر کے میرا قرب حاصل کر لیتا ہے تو میں اُس کے ہاتھ پائوں زبان وغیرہ بن جاتا ہوں‘۔ ’’قربِ‘‘ الٰہی کی یہ منزل کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندے کے ہاتھ پائوں زبان بن جائیں اور اُس کی ہر حرکت رضائے الٰہی کا نمونہ بن جائے، روحانیت کہلاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی روحانیت اور ایسا مقام تدریسی اداروں کے بس کا روگ نہیں لیکن اگر عمران خان کی تقریر دل پذیر کو پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دراصل ایسی یونیورسٹی کا خواب دیکھ رہے ہیں جو سائنسی اور ماڈرن علوم کے ساتھ ساتھ مذہبی و دینی علوم کا بھی مرکز ہو۔ جہاں زور کردار سازی پر ہو اور طلبہ کو سیرتِ نبویﷺ کے سانچے میں ڈھالنے کی سعی کی جائے اور یہاں سے فارغ التحصیل طلبہ عالمی سطح پر اسلام مخالف مہم، پراپیگنڈے اور اسلام پر کئے جانے والے اعتراضات کا جواب دینے کی بہترین اہلیت رکھتے ہوں۔ ہاں درست کہا کہ علامہ اقبال کے تصور پاکستان میں شریعت کو بنیادی حیثیت حاصل تھی اور قائداعظم کے ایک سالہ دورِ گورنر جنرل میں بھی پنجاب اور دیگر صوبوں میں اسلامک ری کنسٹرکشن کے محکمے قائم کرنے کا بھی یہی مقصد تھا۔ ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کی مانند خواب یہ بھی خوب اور حسین ہے لیکن اصل بات اسے شرمندہ تعبیر کرنا ہے۔ رہا نوجوان نسل میں نظریہ پاکستان کا شعور بیدار کرنا تو اِسے محض ایک یونیورسٹی تک محدود رکھنا قومی تقاضوں کی نفی ہو گی۔ اِسے پورے ملک میں یونیورسٹی کی سطح پر پھیلانے اور نوجوانوں کی فکری اساس بنانے کا پروگرام بنانا چاہئے۔ تیس ہزار سے زیادہ مدارس کو قومی دھارے میں لانا بھی ایک چیلنج ہے۔ یہ چیلنج اِس سے قبل بھی حکومتوں کو درپیش رہا ہے۔

عمران خان کے تصورِ حکومت اور گورننس کے انداز کو دیکھیں تو اِس میں ایوبی نظام کی جھلک ملتی ہے، جس سے دانشور، تجزیہ کار اور مالیات کے ماہر پریشان ہوتے ہیں۔ ٹیکنو کریٹس کے سہارے حکومت چلانا اور مسائل کا حل تلاش کرنا، اپنی ذات میں اختیارات کا ارتکاز اور قومی اسمبلی کو اگنور کرنا ایوبی نظام کی یاد دلاتا ہے۔ ایوب خان بھی وزیرِ خزانہ محمد شعیب سے لے کر ایم ایم احمد تک پلاننگ کمیشن کے ماہرین ورلڈ بینک اور دوسرے عالمی اداروں سے لائے تھے۔ بیس خاندانوں میں قومی دولت کا ارتکاز اِنہی پالیسیوں کا نتیجہ تھا جن کے سبب خوشحالی نچلے طبقوں یا غرباء تک نہ پہنچ سکی اور پھر حکومت کے خلاف نفرت کا لاوا پھٹ پڑا۔

مختصر یہ کہ وزیراعظم نے ایک ہی سانس میں روحانیت، سیرت النبیﷺ، سائنسی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم و تربیت، نظریہ پاکستان، مشرقی پاکستان کی محرومیاں اور علیحدگی اور ہندوستان کے کردار کا ذکر کر کے پریشانی کے نئے محاذ کھول دیے ہیں۔ ہر کوئی اپنی خواہش کے مطابق مدعا تلاش کر سکتا ہے۔ خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرہ اور سہروردی جیسے بنگالی وزراء اعظم کے باوجود مشرقی پاکستان میں احساسِ محرومی پیدا ہوا لیکن شیخ مجیب الرحمٰن کی سوانح حیات کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ علیحدگی کی تحریک نے ایوبی دورِ حکومت میں جنم لیا اور اِسی دور میں شیخ مجیب الرحمٰن نے ہندوستانی ’’را‘‘ اور ہندوستانی حکمرانوں سے رابطے کر کے علیحدگی کا پروگرام بنایا، جس پر اس کی بیٹی حسینہ واجد بھی مہر تصدیق ثبت کر چکی ہیں۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جس کے مختلف حصوں میں احساس محرومی موجود نہ ہو۔ خود ہندوستان کے سترہ صوبوں میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لئے قربانیاں عظیم اور بے مثال ہیں۔ کیا یہ علاقے یا صوبے آزاد ہو سکتے ہیں؟ مشرقی پاکستان کی محرومیاں درست لیکن اگر ہندوستان فوجی مداخلت نہ کرتا اور مشرقی پاکستان فتح نہ کر لیتا تو کیا یہ تحریک کامیاب ہوتی؟ سیاسی، جمہوری اور انتخابی عمل کے ذریعے مشرقی پاکستان کو قومی دھارے میں لایا جا سکتا تھا لیکن ہندوستانی مداخلت نے سارے راستے ہی بند کر دیے۔ بہت سی باتیں رہ گئیں ان شااللہ پھر کبھی۔

تازہ ترین