• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم بننے کے بعد بھی کافی عرصہ کے متنازع یا کم از کم غیر ضروری سیاسی ابلاغ کے بعد عمران خان نے وزیراعظم بلکہ اسٹیٹس مین والا ابلاغ کیا ہے۔ چلو! دیر آید درست آید، اللہ کرے یہی سچا ابلاغ عمل میں ڈھل کر گورننس کی سمت درست ہونے کا نقطہ آغاز بن جائے۔ ویسے بھی اُنہوں نے جو کچھ فرمایا وہ ایک یونیورسٹی کے افتتاح کی تقریب کا خطاب ہے۔ یونیورسٹی بھی ایسی جہاں روحانیت کے سپر سائنس ہونے کے Hypothesisپر تحقیق اور ایڈوانس اسٹڈی ہوگی۔ یوں یہ عملاً ’’صوفی ازم‘‘ کی اسپیشلائزڈ یونیورسٹی ہوگی کہ یہ شیوہ صوفیائے کرام کا رہا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے ’’روحانیت‘‘ کو سپر سائنس قرار دیتے ہوئے کچھ ابلاغی کوتاہی بھی کی ہے (اگر رپورٹنگ درست ہوئی ہے)، کہتے ہیں کہ ’’ہم اِس یونیورسٹی کے ذریعے روحانیت کو سپر سائنس بنائیں گے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ روحانیت دنیاوی (Discovered)سائنسز سےکہیں بالا ’’موجود اور غائب‘‘ سائنس ہے۔ انسان نے اُسے کیا سائنس بنانا، انسانی زندگی کے گہرے، مطالعے اور تجزیے کا حاصل واضح کرتا ہے کہ یہ وقت کی قید سے آزاد پہلے سے ’’سائنس‘‘ ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ ہاں یونیورسٹی کا اصل کردار یہ ہو سکتا ہے کہ وہ ’’روحانیت‘‘ کی آفاقی اور اٹل حقیقت کو دنیا بھر کے سائنسدانوں پر یہ آشکار کردے کہ کائنات کی سب سے بڑی اور اصل سائنس ’’روحانیت‘‘ ہی ہے۔ یوں بھی بڑے بڑے دہریوں میں کائنات کی حقیقت کا راز جاننے کا تجسس موجود ہے، یہ راز جاننے کی جدوجہد (تحقیق) میں بھی تبدیل ہوئی اور اُس کا حاصل ’’روحانیت‘‘ (کا متنازع یا قابلِ قبول) دنیاوی نالج بنا۔

ڈاکٹر ایلس سلور ایک ایسا ہی دہریا امریکی محقق، مصنف اور نامور آرکیالوجسٹ ہے جس نے اپنی حالیہ کتاب’’انسان زمین پر ایلین ہے‘‘ میں یہ تہلکہ خیز دعویٰ کیا ہے کہ ’’انسان اس زمین کا اصل رہائشی نہیں ہے بلکہ اِسے کسی دوسرے سیارے پر تخلیق کیا گیا اور کسی وجہ سے اُس کے موجودہ رہائشی سیارے سے زمین پر پھینک دیا گیا‘‘۔ ذہن نشین رہے کہ یہ الفاظ ایک ایسے سائنس دان کے ہیں، جو کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتا۔

ایلس بھی اپنی طویل تحقیق کے نتیجے میں اِس حقیقت(ہمارے عقیدے کے مطابق) پر پہنچا ہے کہ انسان جس ماحول میں پہلی بار تخلیق کیا گیا اور جہاں یہ رہتا رہا ہے وہ سیارہ، وہ جگہ قدرے مناسب ماحول والی تھی، وہاں انسان بہت ہی نرم و نازک ماحول میں رہتا تھا۔ اُس کی نازک مزاجی اور آرام پرست طبیعت سے معلوم ہوتا ہے کہ اُسے اپنی روزی روٹی کے لئے کچھ بھی تردد نہیں کرنا پڑتا تھا، یہ کوئی بہت ہی لاڈلی مخلوق تھی، جسے اتنی پُرتعیش زندگی میسر تھی۔ تب اِس مخلوق، انسان سے کوئی غلطی ہوئی۔ اِس کو کسی غلطی کی وجہ سے اُس آرام دہ ماحول سے نکال کر پھینک دیا گیا تھا، جس نے انسان کو اِس سیارے سے نکالا، لگتا ہے وہ کوئی انتہائی طاقتور ہستی تھی، جس کے کنٹرول میں سیاروں ستاروں کا نظام بھی تھا۔ وہ جسے چاہتا، جس سیارے پر چاہتا، سزا یا جزا کے طور پر بھجوا سکتا تھا۔ وہ مخلوق کو پیدا کرنے پر بھی قادر تھا۔ ڈاکٹر سلور کا کہنا ہے کہ ممکن ہے زمین کسی ایسی جگہ کی مانند تھی جسے جیل قرار دیا جاسکتا ہے۔ جہاں صرف مجرموں کو سزا کے طور بھیجا جاتا ہو، خشکی کا ایسا قطعہ جس کے چار جانب سمندر ہے وہاں انسان کو بھیج دیا گیا۔

ایلس کی تحقیقی بنیاد اُس کا مشاہدہ ہے۔ اُس کی تصنیف میں سائنسی دلائل کا انبار ہے، جن سے انکار ممکن نہیں۔ اُس کے دلائل اور دعوے کی بنیاد جن نکات پر ہے، اُن میں چند تو ثابت شدہ ہیں۔1، زمین کی کشش ثقل اور جہاں سے انسان آیا ہے اُس جگہ کی کشش ثقل میں بہت زیادہ فرق ہے، جس سیارے سے انسان آیا ہے وہاں کی کشش ثقل زمین سے بہت کم تھی، جس کی وجہ سے انسان کے لئے چلنا پھرنا، بوجھ اٹھانا وغیرہ بہت آسان تھا۔ 2، انسان میں جتنے دائمی امراض پائے جاتے ہیں وہ باقی کسی ایک ارضی مخلوق میں بھی نہیں۔ ایلس کہتا ہے کوئی ایک بھی ایسا انسان دکھا دیجئے جسے کوئی ایک بھی بیماری نہ ہو تو میں اپنے دعوے سے دستبردار ہو سکتا ہوں جبکہ میں آپ کو ہر جانور کے بارے میں بتا سکتا ہوں کہ وہ وقتی اور عارضی بیماریوں کو چھوڑ کر کسی ایک بھی مرض میں مبتلا نہیں۔ 3، ایک بھی انسان زیادہ دیر تک دھوپ میں بیٹھنا برداشت نہیں کرسکتا بلکہ اسے کچھ ہی دیر میں چکر آنے لگتے ہیں اور وہ سن اسٹروک کا شکار ہوسکتا ہے جبکہ جانوروں میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔ وہ مہینوں دھوپ میں رہ کر نہ جلد کے کسی مرض میں مبتلا ہوتے ہیں، نہ کسی اور بیماری جس کا تعلق دھوپ کی تیز شعاعوں سے ہو۔4، ہر انسان پر شعوری یا لاشعوری طور پر طاری رہتا ہے کہ اُس کا تعلق اِس سیارے سے نہیں جس پر وہ آباد ہے، وہ پردیسی کی طرح اداس بھی ہو جاتا ہے خواہ وہ اپنے گھر یا خونی رشتوں کی قربت میں ہی کیوں نہ ہو۔ 5، انسان کے سوا زمین کی ہر مخلوق کا اپنا ٹمپریچر باہر کے (موسمی) ٹمپریچر کے مطابق گھٹتا بڑھتا رہتا ہے لیکن انسان اپنا معمولی ٹمپریچر گھٹنے بڑھنے پر بیمار ہوجاتا ہے۔ 6، انسان کو جس سیارے پر تخلیق کیا گیا تھا، وہاں زمین جیسا گندہ ماحول نہیں تھا۔ اس کی نرم و نازک جلد جو سورج کی گرمی سے جھلس کر سیاہ ہوجاتی ہے یہ اس کے پیدائشی سیارے کے مطابق بالکل مناسب بنائی گئی۔ انسان کی اصلیت ہی محبت، فنون لطیفہ، امن و سکون کی زندگی تھی۔ یہ ایک ایسی مخلوق ہے جسے بطور سزا ایک تھرڈ کلاس سیارے پر بھیج دیا گیا۔ ڈاکٹر ایلس کا کہنا ہے کہ انسان کی عقل و شعور اور ترقی سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ایلین کے والدین کو اپنے سیارے سے زمین پر آئے کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا، ابھی کچھ ہزار سال ہی گزرے ہیں لیکن یہ اپنی زندگی کو پُرتعیش بنانے کے لئے مسلسل کوشاں ہے جدید ایجادات اُس کا مظہر ہیں۔ ابھی تک تو ایلس سلور کہ دعوے کو کسی نے جھٹلایا نہیں۔

صوفی ازم ظہورِ اسلام کے بعد تشکیل شدہ مسلم معاشروں کی ہی ایک آف شوٹ ہے، جس میں تلاش حق کی انسانی جہد آسمانی صحیفوں اور انبیاء کرام کے پیغامات اور عمل سے جڑ گئی۔ پاکستان کا قیام بذات خود روحانی واردات کے نتیجے میں ہوا۔ یہ وہی تاریخ کی اٹل حقیقت ہے کہ پاکستان وہی ہوگا جو اسلامی جمہوریہ ہوگا، سو وزیراعظم کا یہ بیانیہ کہ ’’ملک کو فوج نہیں عوام اکٹھا رکھتے ہیں‘‘،بجا لیکن عوام اور فوج دونوں کے ذہن نشین رہنا ناگزیر ہے کہ پاکستانی فوج عوام کا لازمہ اور دونوں ایک پاکستانی قوم کا لازمہ ہیں۔ فوج بھی عوام ہیں اور عوام بھی فوج۔ ان شاءاللہ پاکستان میں القادر یونیورسٹی کا قیام باعثِ برکت ہوگا، جو ہمارے صراط مستقیم پر چلنے میں مددگار و معاون ہوگی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین