• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوچنا آپ کا، میرا، ہم سب کا حق ہے۔ ہم سب سوچتے ہیں۔ سوچنا صرف سیانوں کا حق نہیں ہے۔ پاگل خانوں میں بند اور پاگل خانوں سے باہر گھومنے پھرنے اور بڑے بڑے عہدوں پر لگے ہوئے پاگل بھی سوچتے ہیں۔ سائیکل چلانے والے سوچتے ہیں۔ بلٹ اور بم پروف گاڑیوں میں سفر کرنے والے سوچتے ہیں۔ آپ سوچنے کے عمل کو روک نہیں سکتے۔ کہتے ہیں کہ کنپٹی پر بجلی کے جھٹکے لگنے سے ہم سوچنا چھوڑ دیتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ بجلی کی تاروں میں کنڈا لگا کر بجلی چوری کرنے کا میں، مَیں ماہر مانا جاتا تھا۔ دو چار بار مجھے بجلی کے جھٹکے لگے تھے مگر سوچنے کا عمل جاری رہا۔ جھٹکا لگنے کے بعد میں سوچتا تھا کہ اگلی مرتبہ مجھے بجلی کا جھٹکا نہیں لگے گا۔ کچھ عرصے بعد جب مجھے پھر سے جھٹکا لگا تب بھی سوچنے کا عمل جاری رہا۔ اِسی طرح کئی بار بجلی کی تاروں میں کنڈا ڈالتے ہوئے مجھے جھٹکے لگے تھے۔ ہر بار، جھٹکا لگنے کے بعد میں سوچتا تھا کہ اگلی مرتبہ بجلی کی تاروں میں کنڈا لگاتے ہوئے محتاط رہوں گا مگر محتاط رہنے کے باوجود مجھے بجلی کا جھٹکا لگ جاتا تھا اور کئی روز تک کانپتا رہتا تھا اور کمزوری محسوس کرتا تھا مگر کیا مجال کہ سوچنے کا سلسلہ منقطع ہو۔

میرے دور کے ایک رشتہ دار ایک حساس ادارے میں معمولی سی تنخواہ پر ملازم تھے۔ اُن کے کام کی نوعیت تارا مسیح کے کام سے ملتی جلتی تھی۔ تارا مسیح دوسروں کے حکم پر لوگوں کو پھانسی پر لٹکا دیتا تھا۔ وہ اُن کو جانتا تک نہیں تھا مگر دوسروں کے حکم پر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتا تھا۔ تارا مسیح کی اُن سے کوئی دشمنی نہیں ہوتی تھی، اُن سے کوئی عداوت نہیں ہوتی تھی۔ موت کی سزا سنانے والے اپنے فیصلے پر عمل درآمد تارا مسیح سے کرواتے تھے۔ مگر میرے دور کے رشتہ دار دوسرے کسی کے فیصلہ پر عمل درآمد کرتے ہوئے لوگوں کو موت کے گھاٹ نہیں اتارتے تھے۔ وہ دوسروں کے حکم پر لوگوں کو بجلی کے جھٹکے دیا کرتے تھے۔ وہ اب ریٹائر ہوچکے ہیں۔ ایک روز میں ان سے ملنے گیا۔ میں نے ان سے پوچھا ’’ماموں، میں نے سنا ہے کہ بجلی کا جھٹکا لگنے کے بعد انسان کی سوچنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔ کیا یہ درست ہے؟‘‘

’’ہاں بیٹا‘‘۔ ماموں نے کہا ’’بجلی کے جھٹکے لگنے سے آدمی سوچنا چھوڑ دیتا ہے‘‘۔

’’مجھے سات بار بجلی کے جھٹکے لگ چکے ہیں، ماموں‘‘۔ میں نے کہا ’’مگر بدبخت سوچ میرا پیچھا نہیں چھوڑتی‘‘۔

’’بجلی چراتے ہوئے لگنے والے جھٹکے سے سوچ کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا‘‘۔ ماموں نے کہا۔ ’’کنپٹی پر لگنے والی بجلی کے جھٹکوں کے بعد آدمی زندگی بھر پھر کبھی سوچ نہیں سکتا‘‘۔

ماموں افسران اعلیٰ کے حکم پر لوگوں کو کنپٹی پر بجلی کے جھٹکے دیتے تھے۔ ماموں نہ ان کو جانتے تھے اور نہ پہچانتے تھے۔ اُس وقت وہ اکیلے نہیں ہوتے تھے افسران اعلیٰ اور ڈاکٹروں کی موجودگی میں ماموں مبینہ مشکوک، غدار، دیس دروہی، دشمن قوتوں کے ایجنٹ، باغی، قاتل، لٹیروں اور لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کو کن پٹی پر بجلی کے جھٹکے دیتے تھے۔ بجلی کے جھٹکے لگنے سے مبینہ برا آدمی ادھ موا ہوجائے تو ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر اُس کا طبی معائنہ کرتے تھے۔ معائنہ کرنے کے بعد وہ افسران اعلیٰ کو مشورہ دیتے ہوئے کہتے تھے، ’’سر، ملزم دو چار جھٹکے اور برداشت کرنے کے قابل ہے‘‘۔

مزید دو چار بجلی کے جھٹکے ملنے کے بعد ڈاکٹر ایک بار پھر سے مبینہ برے آدمی کا طبی معائنہ کرتے تھے اور اپنے افسران اعلیٰ کو مشورہ دیتے تھے۔ ’’سر، چوبیس گھنٹے بعد اِس کو پھر سے جھٹکے دئیے جاسکتے ہیں۔ آج یہ مزید ایک جھٹکا بھی برداشت کرنے کے قابل نہیں، مرجائے گا‘‘۔

ذوالفقار علی بھٹو کو اعلیٰ حکام کے حکم پر موت کے گھاٹ اتارنے سے پہلے تارا مسیح کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ اپنی ملازمت کے دوران تارا مسیح ڈیڑھ دو سو کے لگ بھگ لوگوں کو دوسروں کے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے سولی پر لٹکا چکا تھا مگر کوئی بھی اُس کے نام تک سے واقف نہ تھا۔ مگر ذوالفقار علی بھٹو کو سولی پر لٹکانے کے بعد تارا مسیح کا نام دنیا بھر میں گونجنے لگا۔ تارا مسیح کا نام سننے کے بعد میں نے بہت پاپڑ بیلے، حتی الامکان کوشش کی تارا مسیح سے ملنے کی مگر میں نہ مل سکا۔ میں تارا مسیح سے پوچھنا چاہتا تھا کہ ایسے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارتے ہوئے وہ کیسا محسوس کرتا تھا، جن کو وہ جانتا تک نہ تھا۔ جن سے اس کی عداوت نہ تھی، کسی قسم کی دشمنی نہ تھی؟ مگر میں تارا مسیح سے نہ مل سکا۔ وہ گم ہوگیا۔ برسوں بعد یہی سوال میں نے ماموں سے پوچھا تھا کہ ماموں کسی اجنبی شخص کو، جس کو آپ پہچانتے تک نہیں، اس کو بجلی کے جھٹکے دے کر آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟

’’ڈیوٹی سمجھ کر میں اپنا کام کرتا تھا‘‘۔ ماموں نے سپاٹ سا جواب دیتے ہوئے کہا ’’چونکہ میری کسی سے ذاتی دشمنی نہیں ہوتی تھی، اِس لئے میں مقررہ شدت سے کم یا زیادہ کسی کو بجلی کے جھٹکے نہیں دیتا تھا‘‘۔

اِس نوعیت کی بے تکی باتیں ہم اِس لئے سوچتے ہیں کیوںکہ قدرت نے ہمارے سر میں سوچنے والی مشین رکھ دی ہے۔ وہ مشین ہوتی تو ہمارے سر میں ہے، مگر خود سر ہوتی ہے۔ وہ مشین ہمارے بس میں نہیں ہوتی۔ ہم مشین کے بس میں ہوتے ہیں۔ ڈری ہوئی اور چوکنا سرکار لکھنے پر پابندی لگا سکتی ہے، بولنے پر پابندی لگا سکتی ہے مگر سرکار سوچنے پر پابندی نہیں لگا سکتی۔ اِس لئے سہمی ہوئی سرکار ماموں کی مدد سے سوچنے والی مشین کو ناکارہ بنا دیتی ہے۔

تازہ ترین