• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آسیہ اشرف

تاریخ شاہدہے کہ کراچی شہر کی قدامت صدیوں پر نہیں بلکہ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ 1729میں جب کھرک بندرگاہ جو کہ ٹھٹھہ کے قریب تھی ،ریت سے بھر گئی اور مچھیروں کی کشتیاں اس میں پھنسنے لگیں تو بھوجومل نامی مچھوار قبیلے کے سردار نے اس وقت کے کولاچی کی جانب ہجرت کی اوریہاں منوڑے کے ساحل پر اپنے قبیلے کے ساتھ پڑاؤ ڈالا لیکن یہ کولاچی کی ابتدا ہرگز نہ تھی کیونکہ کراچی میں اس سے قبل بھی مچھیرے آباد تھے اور ان کا پڑاؤ ماڑی پور کے خشکی کے علاقے پر تھا ،جس کی تصدیق ماضی کے مورخ علی احمد بروہی نے بھی کی وہ اپنی تحقیق کی روشنی میں کہتے ہیں کہ’’ ماڑی پور کے قرب و جوار کے علاقے میں ایک تالاب واقع تھا، جس کے اطراف میں یہ مچھیرے آباد تھے ، اس تالاب کی حدود ویسٹ وہارف کراچی پورٹ ٹرسٹ سے ٹاور تک کے علاقے تھے، جہاں مچھیروں کو شکار سمیت میٹھے پانی کی سہولت میسر تھی، اگر کچھ نہیں تھا تو وہ ایک مندر تھا ،لہذا ہندومچھیروں نےجن کی اکثریت تھی ،تین سو سال قبل کراچی پورٹ ٹرسٹ کے نزدیک ایک ٹیلے پرجو کہ پانی سے باہر تھا ایک مندر کی بنیاد رکھی اور جھنگ شاہی کے پتھروں سے ایک چھوٹا سا مندر بنا کر اس کا نام دریا لال مندر رکھا اور وہاں پوجا پاٹ شروع کر دی۔ دیکھتے دیکھتے اس مندر کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا اور منوڑا سمیت دیگر ساحلی پٹی کے ہندومچھیروں نے بھی اسی مندر میں آنا جانا شروع کر دیا۔ اس مندر سے مچھیروں کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ جب وہ شکار کے لیے اپنی کشتیاں لے کر نکلتے تو اس مندر پر پہلےحاضری ضرور دیتے تھےاور یہاں 24 گھنٹے جلنے والے چراغ میں تیل بھی ڈالتے تھے ۔ تالپور حکومت بھی مندر کے دیے کو روشن کرنے کے لیے ہر ماہ سات سیر تیل کا دان دیتی تھی۔ اس کے علاوہ بعد میں کراچی پورٹ ٹرسٹ کی بننے والی عمارت کے ٹرسٹی ہر چند رائے داس بھی اس مندر کا خصوصی خیال رکھتے تھے ۔ پھر سمندر اور دریا پیچھے کی جانب ہٹنے لگے اورویسٹ وہارف ٹاور ،کیماڑی ،کلفٹن ،گزری کے علاقے خشکی پر آ گئے۔بندر گاہ کے قر ب وجوار کے علاقے خشکی میں آجانے کے بعد کراچی پورٹ ٹرسٹ ،کسٹم ہاؤس و دیگر عمارتوں کی تعمیرات شروع ہو گئیں اور چھوٹا سا مندر ان میں گم ہو گیا۔ عمارتوں کی تعمیر کے بعد مچھیروں نے یہاں سے ہجرت کر نی شروع کردی، جس کے سبب مندر فعال نہیں رہا۔ جب پاکستان بنا تو اس وقت بھی یہ مسلسل بند ہی رہا اور جب 1965 ء میں بھارت پاکستان کی جنگ شروع ہوئی تو انتہا پسندوں نے مندر کو شدید نقصان پہنچایا۔ 1971ء اور 1992میں بابری مسجد دہلی پر انتہا پسندوں کے حملے کے بعد یہ قدیم مندر تباہ حالی کا شکار ہو گیا ۔ اور ہندو جو کہ اس علاقے سے کوچ کر چکے تھے، وہ یہاں کا رخ بھی نہیں کرتے تھے، ایسے میں ایڈلجی ڈنشا جوکہ سندھ کی معروف شخصیت تھے، انہوں نے کراچی میں این ای ڈی یونیورسٹی ،لیڈی ڈیفرن اسپتال سمیت لاتعداد سماجی کام کیے ان کے نام سے قائم ٹرسٹ کے ذمہ داران نے جب مندر کی یہ حالت دیکھی تو انہوں نے 2015 میں بیس لاکھ روپے کی خطیر رقم سے مندر کی مرمت تزئین و آرائش کا کام کیا اور بھارت کے شہر جے پور سے دریا لال بھگوان سے چھ لاکھ روپے کی مورتی منگوا کر یہاں نصب کروائی ۔ 13دسمبر 2015کو اس کا باقاعدہ افتتاح ہوا ،جس کے بعد چالیس فٹ لمبے اور چالیس ہی فٹ اونچے مندر کی رونقیں بحال ہو گئیں اورہندووں نے یہاں پوجا پاٹ دوبارہ شروع کر دی۔

اس قدیم مندر، جس کا شمار قدیم آثار میں ہوتا تھا بہت زیادہ تبدیلیوں کے بعد ایک جدید مندر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔قدیم دریا لال مندر کے گروسوامی وجے مہاراج نے اس مندر کی قدامت کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ یہ مندر تین سو سال سے بھی پرانا ہے ،گو کہ نیٹی جیٹی کے پل کے نیچے مندر موجود ہیں، مگروہ اتنے قدیم نہیں جتنا یہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ریکارڈ میں باقاعدہ طور پر اس کی قدیم ترین پینٹنگ موجود ہے ،جسے دیکھ کر کوئی بھی اس کی قدامت کا اندازہ لگا سکتا ہے، یہ علاقہ انتہائی تاریخی ہے اور ماضی میں یہ پورا علاقہ سمندر اور دریا کے پانی میں ڈوبا ہوا تھا جس کی زندہ مثال دریا لال مندر کا وجود ہے ۔ مندر کے قریبی جوعلاقے آج آباد ہیں، وہاں حدِ نگاہ تک پانی ہی پانی تھا۔ لیکن پانی پیچھے جانے کے بعد آج اس زمین پرکراچی پورٹ ٹرسٹ ،کسٹم ہاؤس ،ڈاک یارڈ ،شپ یارڈ ودیگر علاقے تعمیر ہوگئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مندر قدیم تاریخی ورثہ ہے ،مگر محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے اس کی دیکھ بھال کا کوئی انتظام نہیں کیا جا رہا ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے ۔

تازہ ترین