• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اور بھارت کے دو کثیرالاشاعت اور مقبول روزناموں ”جنگ“ اور ٹائمز آف انڈیا نے مشترکہ طور پر ”امن کی آشا“ کے عنوان سے پاک بھارت دوستی کا ڈول ڈالا ہے ان اخباروں کے سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بھارت کے لگ بھگ 66 فیصد یعنی دو تہائی اور پاکستان کے 72 فیصد یعنی تین چوتھائی افراد نے دونوں ملکوں کے درمیان پرامن دوستی بھائی چارہ اور خوشگوار تعلقات کی خواہش ظاہر کی ہے ان خوشگوار تعلقات کااظہار کرنے والوں کے علاوہ صرف ایک معمولی تعداد ایسے افراد کی تھی جنہوں نے اس تجویز کی مخالفت کی ہے ایسے کم فہم اور کم عقل افراد بھارت میں 17 فیصداور پاکستان میں 8 فیصد بستے ہیں یہ سروے بھارت کے دہلی‘ ممبئی‘ کول کتہ‘ چنئی‘ بنگلور اور حیدرآباد شہر میں اور پاکستان کے کراچی اور حیدرآباد سندھ میں کیاگیاتھا 54 فیصد افراد کا یہ کہنا بھی ہے کہ انہیں امید نہیں ہے کہ ان کی زندگی میں دونوں ملکوں کے درمیان امن کی فضا قائم ہوگی۔ ممبئی میں 26/11 کے حملوں کے باوجود وہاں 50 فیصد لوگوں کی خواہش ہے کہ پاک بھارت کے درمیان خوشگوار اور پرامن تعلقات ہونے چاہئیں جبکہ 42 فیصد اس کے خلاف ہیں۔
امن کی یہ مساعی دونوں ملکوں کے صحافتی حلقوں کی تحریک پرشروع کی گئی ہے اس ناچیز نے گزشتہ تیس برس سے پاک وہند کے درمیان دوستی کی اس سچائی کااظہار کیا ہے۔ میں نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ پاک وہند کے مابین دوستی کے بغیر پاکستان کی ترقی کاتصور تک نہیں کیا جاسکتا جو لوگ ایسے سوچتے ہیں وہ جہل مرکب میں مبتلا ہیں یہی وجہ ہے کہ برصغیر کے نامور معروف اور پاک و ہند دوستی کا سب سے بڑا روشن استعارہ کلدیپ نئیر نے میرے کالموں کے حوالے سے لکھا تھا میں یہ بات دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ ہندوپاک کے درمیان دوستی اور بھائی چارہ کی فضا پیدا کرنے میں اس شخص کی تحریر وتقریر کی جتنی کنٹری بیوشن ہے کسی اور صحافی کی نہیں اگر مجھے اسد مفتی جیسے دس آدمی مل جائیں تو میں ہندوستان اورپاکستان کے مابین ہمیشہ ہمیشہ دوستی کا باغ کھلاسکتاہوں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بہتربنانے کیلئے امن کی آشا کے عنوان سے جن اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے ان کامقصد جنوبی ایشیا میں حقیقی امن اور سلامتی کا دور دورہ ہو اور متنازع مسائل کے حل کیلئے اپنی پرخلوص کوششوں کاآغاز کیا جاسکے کہ آپ کو منزل پر پہنچنے کیلئے پہلی سیڑھی پرقدم رکھنا پڑتاہے۔ چینی فلاسفر کنفیوشس نے کہا ہے کہ ایک ہزار میل کا سفر بھی پہلے قدم ہی شروع کیاجاتاہے ہماری تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہاں تشدد‘ جارحیت اورآمریت کے طریقوں سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوااور اگر حل ہوابھی ہے تو وہ دیر پا ثابت نہ ہوسکا دونوں ملکوں کے عوام کی اکثریت یہ محسوس کررہی ہے کہ ساٹھ برس سے زائد مسلسل ایک دوسرے کیخلاف پروپیگنڈے اور سرد وگرم جنگ سے نہ تو بھارت کو کچھ حاصل ہوا ہے اور نہ ممبئی حملوں کے باوجود پاکستان کو کوئی فائدہ پہنچ سکا اس طرح کھربوں روپے کا فوجی اور تخریب کاری بجٹ کا رخ عوام کی فلاح وبہبود صحت اور تعلیم کی طرف موڑاجاسکتاتھا۔ موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھاجائے تو برصغیر میں پائیدار امن واستحکام ودوستی بے حد ضروری ہے کہ ایٹمی طاقت بننے کے بعد دنیا کا یہ علاقہ اور بھی خطرناک ہوگیاہے جیسے کروڑوں (صحیح تعداد ڈیڑھ ارب) انسان بارود کے ڈھیر پر بیٹھے ہوں کسی بھی لمحے بستیاں ویران ہوسکتی ہیں اور بسے بسائے شہرقبرستان میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہمالیائی بلندیاں بھارت اور چین کی دوستی میں حائل نہیں ہوسکتیں تو کیا کشمیر‘ کارگل اور سیاچن کی بستیاں بھارت اور پاکستان کی دوستی کا راستہ روک سکتی ہیں؟ ہمارے دانشوروں کوآج اس مسئلہ کا حل نکالنا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جنگ اور ٹائمز آف انڈیا کی مساعی امن کی آشا بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے یہ طے ہے کہ آج نفرت اور دشمنی کے اندھیروں کی جگہ محبت اور دوستی کی روشنی کی ضرورت ہے اوراس مقصد کو کس طرح حاصل کیاجائے یہ سوچنا ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس کے بغیر اب چارہ کار نہیں رہ گیا۔ یہ بات کسی بھی شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ پاکستان اور بھارت دوخودمختار ملک ہیں ہمارے مسائل ایک ہیں اور وسائل بھی کم وبیش ایک جیسے ہیں۔ ادب وشاعری کے موضوعات بھی وہی ہیں، ہمارا درد و کرب بھی ایک اور خوشی وغم بھی ایک ہیں اگر ہم اپنے دلوں سے کدورت اور نفرت کا میل دھو ڈالیں تو اس خطے میں پائیدار امن وسلامتی کے پھول کھل سکتے ہیں۔ ہمارے ہندوستانی بہن بھائی اس بات پر غور کریں کہ نورجہاں کے نغموں‘ فیض‘ فراز اور قتیل کی غزلوں کے بغیر کیا ان کا ادب و فن مکمل ہوسکتاہے؟ کیا مہدی حسن‘ غلام علی اور نصرت فتح علی خان کی آوازوں سے بھارت کاکوئی گھر بچاہوا ہے؟ کیا پاکستان کی ہربستی کی ہر گلی کے ہرگھر میں بھارتی فلمیں نہیں دیکھی جاتیں؟ اور کیا ہرگھر سے لتامنگیشکر‘ کشورکمار‘ محمد رفیع‘ طلعت محمود اور آشا بھونسلے کی آوازیں صبح سے شام اورشام سے رات گئے تک کانوں میں نہیں پڑتیں؟ اور کیا دلیپ کمار اور لتا پاکستان اوربھارت کے درمیان ایک پل کاکام نہیں دے رہے؟ آخر خرابی ہے کہاں؟ کیا ہمارے ہاں ذہین لوگوں کاقحط ہے؟ کیا ہماری زمینیں بانجھ ہیں؟ کیا اس علاقے سے گزرنے والی ہوائیں نا مہربان ہیں؟ گردشیں ہمارے نصیب میں لکھ دی گئیں ہیں؟ کیا یہاں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رات ٹھہرگئی ہے؟ ان حالات میں امن ودوستی وبھائی چارہ کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمسائے کیخلاف حالت جنگ میں رہنے کے بجائے ناداری‘ بھوک‘ افلاس‘ جہالت‘ جرائم‘ استحصال اور مذہبی جنونیت کیخلاف جنگ شروع کریں آج دونوں ملکوں کو ایک پیس فاؤنڈیشن، امن کمیٹی، پریم سبھا‘ فرینڈشپ سوسائٹی‘ بھائی چارہ پلیٹ فارم اور امن کی آشا کی اشد ضرورت ہے کہ عوام کو قریب لایاجاسکے کہ ہم تباہی وبربادی اور تخریب کاری کی راہ چھوڑ کر تعمیروترقی کے دانشوروں‘ صحافیوں‘ ادیبوں اور ترقی پسند سیاستدانوں کواکٹھا ہونا چاہئے اس سلسلہ میں میڈیا کانفرنسوں کی ضرورت ہے بیرون ملک بھی ہمارے دانشوروں‘ قلمکاروں‘ شاعروں اور فنکاروں کے علاوہ تاجروں صنعت کاروں کو سیمینار منعقد کرنے چاہئیں کہ یہ تجاویز اور نقطہ نظر ان تک پہنچ سکے جن کو عوام کہتے ہیں۔
دیکھتی رہتی ہیں آنکھیں کون ہے کس رنگ میں
سوچتی رہتی ہے دنیا، کس کو رسوا کیجئے
تازہ ترین