• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے،تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔(سورۃ البقرہ)

مذکورہ آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ روزہ پہلی امتوں پر بھی فرض تھا۔ کتبِ حدیث و تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قریشِ مکہ ایامِ جاہلیت میں دسویں محرم کو اس لیے روزہ رکھتے تھے کہ اس دن خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا۔(صحیح بخاری)مدینے میں یہود اس دن اس لیے روزہ رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے قوم بنی اسرائیل کو اس دن فرعون سے نجات دی تھی۔(صحیح بخاری)

ان روایات سے پتا چلتا ہے کہ شریعت محمدی ﷺ سے قبل اُمتوں میں بھی بحیثیت عبادت روزہ معروف اور جانا پہچانا تھا۔تاریخ بتاتی ہے کہ یہودی اور عیسائی روزہ گناہ کے کفارے کے طور پر یا توبہ کی خاطر یا پھر دیگر مقاصد کے لیے رکھتے تھے اور ان کا روزہ محض رسمی نوعیت کا ہوتا تھا۔یعنی ان لوگوں نے روزے کی اصل مقصدیت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اسے اپنے مخصوص مفادات کے ساتھ وابستہ کر لیا تھا،مگر اسلام نے انسانیت کو روزے کے بامقصد اور تربیتی نظام سے آشنا کیا۔

یہ اسلام ہی ہے جس نے روزے کے بلند اغراض و مقاصدبیان کیے۔زندگی کی وہ تمام تمنائیںاور خواہشات جو عام طور پر جائز ہیں،روزے میں ان پر کچھ عرصے کے لیے پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ نبی اکرم ﷺ کا ہر اطاعت گزارامتی ان پابندیوں کو دلی رغبت و مسرت کے ساتھ اپنے اوپر عائد کرلیتا ہے، یہ جانتے ہوئے کہ یہ جسم و روح دونوں کے لیے مفید ہے…یہاں ایک اہم بات یہ ہے کہ مختلف مذاہب میں روزہ رکھنے کے مکلّف بھی مختلف طبقات ہیں۔ مثلاً پارسیوں کے ہاں صرف مذہبی پیشوا،ہندوؤں میں برہمن اور یونانیوں کے یہاں صرف عورتیں روزے رکھنے کی مکلّف ہیں،جب کہ ان کے اوقات روزہ میں بھی اختلاف اور افراط و تفریط پائی جاتی ہے، لیکن اسلام کے پلیٹ فارم پر دنیا کے ہر خطے میں رہنے والے عاقل،بالغ مسلمان مرد و عورت کے لیے ایک ہی وقت میں ماہ رمضان کے روزے فرض کیے گئے ہیں۔پھر اسلام میں جہاں ایک طرف روزے کی عبادت فرض قرار دی گئی تو دوسری طرف پیغمبر اسلامﷺ نے روزہ رکھنے کے بے شمار فضائل بیان فرمائے ہیں…

حضرت ابوہریرہ ؓروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے،انسان کے ہر عمل کا بدلہ ہے،مگر روزہ کہ وہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں…جب کہ جو لوگ بغیر عذر کے روزہ ترک کردیتے ہیں،وہ اس فضیلت و ثواب سے محروم رہتے ہیں…حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے بغیر عذر اور بیماری کے رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑ دیا تو خواہ وہ ساری عمر روزے رکھتا رہے،وہ اس کی تلافی نہیں کرسکتا (یعنی دوسرے وقت میں روزہ رکھنے سے اگرچہ فرض ادا ہوجائے گا، مگر رمضان المبارک کی برکت و فضیلت کا حاصل کرنا ممکن نہیں)۔‘‘(مشکوٰۃ)

تازہ ترین