• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں انقلاب برپا ہوچکا ہے۔ یہ انقلاب تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ اور دھرنے کے ذریعے برپا نہیں ہوا بلکہ لانگ مارچ اور دھرنے کی وجہ سے یہ ضرور ہوا کہ لوگوں کو پتہ چل گیا کہ انقلاب پہلے ہی رونما ہوچکا ہے۔ یہ ایک خاموش جمہوری انقلاب ہے‘ جس کا احساس قوم کو اُس وقت ہوا‘ جب ملک کی تمام سیاسی قوتیں ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف متحد ہوگئیں۔ وہ سیاسی جماعتیں جو گزشتہ5 سال کے دوران کسی بھی ایشو پر متحد نہیں ہوسکی تھیں‘ وہ سب ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف یکجا ہوگئیں۔ اُس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ ڈاکٹر طاہر القادری سے خوفزدہ تھیں۔ اُنہوں نے اتحاد یکجہتی کا مظاہرہ اس لئے کیا کہ جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کے لئے غیر جمہوری قوتوں کے عزائم کو ناکام بنایا جاسکے۔ جمہوریت کے تحفظ کے لئے قومی سیاسی قیادت کے تدبر اور دانشمندی کا مظاہرہ ایک انقلاب کی نشاندہی کرتا ہے جو رونما ہوچکا ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ اور دھرنے کا جو انجام ہونا چاہئے تھا‘ وہی ہوا۔ حکومت نے اگرچہ انہیں آبرومندانہ واپسی کا راستہ فراہم کیا لیکن یہ ضروری نہیں کہ عوام ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ کرنے‘ پہلے فیصلے اور دھرنا ختم کرنے کے دوسرے فیصلے کو درست تسلیم کریں اور ان فیصلوں پر تنقید نہ کریں۔ ایک مذہبی پیشوا کی حیثیت سے ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنا بڑا مقام بنایا تھا۔ بہتر یہی تھا کہ سیاست میں وہ نہ آتے اور اُن کا بھرم قائم رہتا۔ دھرنا ختم کرنے کے لئے انہوں نے حکومت کے ساتھ جو معاہدہ کیا ہے‘ اُس کی کوئی قانونی اور آئینی حیثیت نہیں۔ اس معاہدے کو جمہوری حکمرانوں کی شرافت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے کیونکہ اُنہوں نے احتجاج کرنے والے ایک گروہ کی نہ صرف بات سنی بلکہ اُس کی عزت اور لاج رکھی۔ کوئی آمرانہ حکومت ہوتی تو ڈاکٹر طاہر القادری کا یہ سب کچھ کرنے کا سوچتے بھی نہیں اور اگر کچھ کرتے تو اس کی قیمت بھی اُنہیں ادا کرنا پڑتی۔ جمہوریت کی بحالی کے لئے ہزاروں لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ جہاں سے گزرنے کا حوصلہ ہر ایک میں نہیں ہوتا۔ اس لئے راقم اپنے کالموں میں امریکی دانشور ول ڈیورنٹ کے اس قول کا بار بار حوالہ دیتا ہے کہ ”جمہوریت اپنی طنیت اور فطرت میں نیک ہوتی ہے“۔
جمعرات17 جنوری کو جب ڈاکٹر طاہر القادری اسلام آباد میں دھرنے کے چوتھے روز اپنے ”بم بروف اور لگژری کنٹینر“ میں کھڑے خطاب کررہے تھے اور چیخ چیخ کر یہ کہہ رہے تھے کہ ”میں حکومت کو ڈیڑھ گھنٹے کی مہلت دیتا ہوں کہ وہ مجھ سے مذاکرات کرے“ تو مجھے پاکستان کے دیہی علاقوں میں سنائی جانے والی ایک لوک کہانی یاد آگئی‘ جو کچھ یوں ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک آدمی گھر سے ناراض ہوکر چلا گیا اور گھر سے دور جاکر کہیں بیٹھ گیا۔ وہ سارا دن انتظار کرتا رہا کہ اُسے کوئی منانے آئے گا لیکن کوئی نہیں آیا۔ بھوک اور سردی کی وجہ سے اُس کی حالت خراب ہورہی تھی۔ اسی اثناء میں اُس نے دیکھا کہ اُس کا پالتو گدھا آرہا ہے۔ عام طور پر دیہات میں سارا دن چارے کی تلاش میں ادھر اُدھر پھرتے رہتے ہیں اور شام کو خود اپنے مالک کے گھر آجاتے ہیں۔ وہ ناراض شخص گدھے کی پیٹھ پر چڑھ گیا اور پھر اُس کی گردن سے لپٹ کر یہ رٹ لگانے لگا کہ ”کھوتے کے ابا! مجھے گھر نہیں لے جاؤ۔ میں اُس گھر نہیں جانا چاہتا‘ جہاں میری قدر نہیں۔ میرا اس گھر والوں سے کوئی رشتہ نہیں اور نہ ہی میں کسی رشتے کو مانتا ہوں“۔ اُس کی یہ رٹ جاری رہی۔ اسی اثناء میں گدھا اُسے لئے ہوئے گھر میں داخل ہوگیا۔ تب گھر والوں کو یہ احساس ہوا کہ یہ شخص چاہتا ہے کہ اسے منایا جائے۔
اب سیاسی مبصرین اس سوال میں اُلجھے ہوئے ہیں کہ فتح کس کی ہوئی؟ یہ بھی مبصرین کی شرافت ہے کہ وہ یہ سوال کررہے ہیں‘ ورنہ وہ اس کے برعکس سوال میں بھی تو اُلجھ سکتے تھے کیونکہ یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ جن مقاصد کے لئے لانگ مارچ کیا گیا تھا‘ وہ مقاصد پورے نہیں ہوئے۔ نہ اسمبلیاں تحلیل ہوئیں‘ نہ حکومت برطرف ہوئی‘ نہ الیکشن کمیشن کی ازسرنو تشکیل ہوئی اور نہ انتخابی اصلاحات کے لئے آئینی ترامیم ہوئیں۔ اگر کچھ ہوا تو وہ صرف یہی تھا کہ اسلام آباد چار دن تک بند رہا۔ وہاں رہنے والے لوگوں کو مفت کی چھٹیاں مل گئیں۔ دھرنے میں شریک بزرگ‘ خواتین اور بچے بیمار ہوئے اور اللہ‘ رسول ‘ قرآن اور ماں کے دودھ کی قسموں کے باوجود وہ مجبوراً آہستہ آہستہ کھسکنے لگے اور ڈاکٹر طاہر القادری نے نہ صرف پورے ملک کو اپنا مخالف بنالیا بلکہ اپنی شخصیت کے کئی ایسے پہلوؤں کو بھی عوام کے سامنے لے آئے جو قبل ازیں پوشیدہ تھے۔ اسلام آباد پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکار بھی پریشان رہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کہتے ہیں کہ اُنہوں نے دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا لانگ مارچ کیا ہے اور دھرنا دیا ہے۔ اپنے اس فرمان کی توضیحات وہ بہتر طور پر بیان فرما سکتے ہیں لیکن لوگوں کو پتہ ہے کہ یہ لانگ مارچ اور دھرنا کچھ دیگر حوالوں سے تاریخی ہے۔ مثلاً لانگ مارچ اور دھرنے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور نہ ہی کوئی تبدیلی آئی۔ اس سے پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کی حکومتوں کے خلاف جو لانگ مارچ ہوئے‘ اُنہیں کچھ قوتوں نے بالآخر کامیاب بنایا تھا لیکن اس مرتبہ کے لانگ مارچ کو ڈبل مارچ میں تبدیل کردیا گیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ اور دھرنے کے تاریخی ہونے کا دوسرا سبب یہ ہے کہ کسی قوم نے تاریخ میں کسی لانگ مارچ کی اتنی مخالفت نہیں کی ہوگی‘ جتنی پاکستانی قوم نے ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ کی مخالفت کی‘ لانگ مارچ میں شریک لوگ اپنی عقیدت مندی یا کسی مجبوری کی وجہ سے اسلام آباد کے چند ہزار مربع گز کے علاقے میں تین راتیں اور چار دن کھلے آسمان تلے پڑے رہے۔ ان چند ہزار مربع گز کے دائرے کے باہر کہیں اس لانگ مارچ اور دھرنے کی سیاسی حمایت نہیں تھی۔ اس حوالے سے یہ بھی اسے تاریخی گردانا جائے گا۔ مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین ایک ذہین سیاستدان ہیں۔ اُنہوں نے ڈاکٹر طاہر القادری کے کنٹینر میں معاہدہ ہونے کے بعد کہاکہ ”یہ لانگ مارچ اچھا تھا‘ اسے یاد رکھا جائے گا“۔
لوگ اس بحث میں بھی اُلجھے ہوئے ہیں کہ لانگ مارچ اور دھرنے میں خرچہ کتنا ہوا؟ دراصل ہمارے لوگ بہت سادہ ہیں۔ ایسے معاملات میں خرچے تو ہوتے ہیں اور اخراجات کے لئے رقم کا بندوبست بھی ہوجاتا ہے۔ یہ سادہ لوح لوگوں کی اُلجھن ہے‘ جنہیں صرف اپنی محنت کے عوض پیسے ملتے ہیں اور اُنہیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ جو لوگ کام نہیں کرتے‘ اُن کے لئے پیسے کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ اسلام آباد میں دھرنے کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے رینٹل پاور کیس میں وزیراعظم کی گرفتاری کے احکامات بھی جاری ہوئے تو اسٹاک مارکیٹ 500 پوائنٹس نیچے گر گئی‘ جس سے چھوٹے سرمایہ کاروں کے 14 ارب روپے ڈوب گئے۔ حالانکہ اسٹاک مارکیٹ بڑے بڑے واقعات میں اس طرح کریش نہیں ہوئی۔ دو دن بعد دھرنا بھی ختم ہوگیا اور اسٹاک مارکیٹ دوبارہ اُوپر چلی گئی۔ لوگ خواہ مخواہ پریشان ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کہتے ہیں کہ اُن کی بات سنی اور مانی گئی اس لئے اُنہوں نے دھرنا ختم کیا۔ سرائیکی زبان کے کسی شاعر نے کہا ہے کہ ”غریب چاہے حسین ہو‘ غریب کی بات کوئی نہیں سنتا“۔ ڈاکٹر طاہر القادری حسینی مشن لے کر کینیڈا سے پاکستان آئے تھے۔ اسٹاک مارکیٹ کا ایک دن کا عارضی اور مصنوعی کریش ہوا اور اب اطلاعات یہ ہیں کہ وہ دوبارہ 27 جنوری کو دوبارہ ٹورنٹو جارہے ہیں۔ اب محسوس ہوتا ہے کہ وہ کینیڈا میں زیادہ بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔
لانگ مارچ اور دھرنے سے ڈاکٹر طاہر القادری نے کچھ کارنامے بھی انجام دیئے‘ جن پر وہ داد اور تحسین کے مستحق ہیں۔ مثلاً اُنہوں نے جمہوری قوتوں کو لانگ مارچ کے خوف سے نجات دلا دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے اُن پریشر گروپس کی بھی ہوا نکال دی ہے جو غیر جمہوری قوتوں کے اشاروں پر منتخب جمہوری حکومتوں اور سیاسی قوتوں کو ہمیشہ بلیک میل کرتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے پاکستان کے عوام کو یہ فہم بھی دے دی ہے کہ بڑے بڑے جلسے کرنے والوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ بڑے جلسوں کا رُعب اب ختم ہونا چاہئے۔ اصل سیاسی طاقت وہ ہے جسے عوام ووٹ دیتے ہیں ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ اور دھرنے سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوگئی ہے کہ اگر جمہوری عمل جاری رہے اور غیر جمہوری قوتیں مداخلت نہ کریں۔ جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں سیاست کا لبادہ اوڑھے فرقہ ورانہ‘ لسانی‘ نسلی اور اپنی شناخت سے عاری طبقات کی نمائندگی کرنے والے گروہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی موت آپ مرجائیں گے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا قوم پر یہ بھی احسان ہے کہ اُنہوں نے جمہوریت کے تحفظ کے لئے پوری قوم کو متحد کردیا۔ قوم اُن کی اس بات پر بھی شکر گزار ہے کہ اُنہوں نے بعض قوتوں کی اس خواہش کو بے نقاب کردیا ہے کہ نگران حکومت کے قیام میں اُن کی ڈکٹیشن لی جائے۔ اگرچہ وہ قوتیں کھل کر سامنے نہیں آرہی ہیں لیکن ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ اور دھرنے سے سیاسی اور جمہوری قوتوں کو خبردار رہنا چاہئے کہ اپنی مرضی کی نگران حکومت قائم کرنے اور اسے طویل عرصے تک چلانے کا بعض غیر جمہوری قوتوں کے منصوبے ختم نہیں ہوئے ہیں۔
تازہ ترین