• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتے لائن آف کنٹرول پر ہونے والی جھڑپ نے بڑی مشکل سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان تجارت اور آسان ویزے کے حصول کے حوالے سے پیدا ہونے والے بہتری کے ماحول کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ انڈیا سے آنے والی آوازیں اس غم وغصے کا اظہار کر رہی ہیں کہ پاکستان نے ان کیساتھ دغابازی کی ہے۔ حالات کشیدہ ہیں، تاہم اس کی ذمہ داری کسی ایک فریق پر نہیں ڈالی جا سکتی۔
یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ بھارتی فوج کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر حاجی پیر سیکٹر میں چارندہ کے مقام پر مورچے بنانے کی کارروائی2005 ء میں کئے گئے معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔ اس معاہدے کے مطابق لائن آف کنٹرول پر فوجی دستوں کی پوزیشن کو جوں کا توں رکھا جائے گا اور کوئی فریق پیش قدمی نہیں کرے گا چنانچہ حالیہ دنوں مورچے تعمیر کرنے کی کوشش نے پاکستانی دستوں کو مشتعل کر دیا اور انہوں نے بھارتیوں کو روکنے کیلئے گولہ باری شروع کر دی۔ چھ جنوری کو بھارتی فوج کے161 بریگیڈ کے کمانڈر نے پاکستانی چوکی، جہاں سے گولہ باری کی جارہی تھی، پر حملے کا حکم دیا۔ اس کارروائی میں ایک پاکستانی فوجی شہید ہو گیا۔ اس پر پاکستان کے” ڈی جی ایم او“نے 7 جنوری کو اپنے بھارتی ہم منصب سے احتجاج کیا ۔ اگلے دن،8 جنوری کو پاکستان نے بھارتی چوکی پر جوابی حملہ کیا ۔ اس کارروائی میں 2 بھارتی فوجی مارے گئے۔ 9 جنوری کو بھارتی میڈیا میں دھماکہ خیز خبر گردش کرنے لگی کہ پاکستانی فوجیوں نے ایک بھارتی فوجی کا سر کاٹ دیا ہے جبکہ دونوں کی نعشوں کو بری طرح مسخ بھی کیا گیا ہے۔ بھارتی میڈیا نے اسے ” انتہائی درندگی کی غیر معمولی کارروائی“ قرار دیتے ہوئے اس کا جواب دینے کا مطالبہ کیا۔ بھارتی وزیرخارجہ اور وزیردفاع کا ابتدائی ردعمل محتاط اور دبے لفظوں میں تھا اور بھارتی فوج کی طرف سے بھی ایسا ہی محتاط بیان سامنے آیا تاہم جس طرح سے بھارتی میڈیا نے اس معاملے کو اچھالتے ہوئے جارحانہ فضا بنائی، اس سے دونوں وزراء کا لہجہ بھی دھمکی آمیز ہو تا گیا۔
بھارت میں پیدا ہونے والے اشتعال کا باعث مبینہ طور پر سر قلم کرنے کا واقعہ تھا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق یہ ایک غیر معمولی حرکت تھی اور اس کا ذمہ دار پاکستان تھا۔ پاکستان کی طرف سے اس الزام کی سختی سے تردید کی گئی۔ بھارت کی طرف سے فی الحال ہلاک شدہ سپاہی کے پوسٹ مارٹم کی کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی ہے۔ سربریدہ سپاہی کی لاش شناخت کے لئے اس کے اہل خانہ کو بھی نہیں دکھائی گئی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس واقعہ ، جس کی تصدیق ابھی ہونا باقی ہے، کو اچھالتے ہوئے بھارتی میڈیا نے کشمیر میں ہونے والے اس طرح کے سیکڑوں واقعات، جن کا تذکرہ بھارتی اشتعال کو جھاگ کی طرح بٹھا سکتا ہے، کو فراموش کر دیا۔ کئی ایک بھارتی صحافیوں کی رپورٹیں ظاہر کرتی ہیں کہ 1999ء میں ہونے والی کارگل کشیدگی کے بعد سے اب تک بھارتی فوجی سر کاٹنے کے متعدد جرائم کا ارتکاب کرتے رہے ہیں۔ این ڈی ٹی وی کی مایہ ناز اینکر برکا دت نے ”Himal“ میگزین کے لئے 2001ء میں لکھی گئی رپورٹ ” ایک وار رپورٹر کے اعترافات“ میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ بھارتی فوجی مخالفین کے سر کاٹ لیتے ہیں۔ ”کولکتہ ٹیلی گراف “ کے سابقہ مدیر مسٹر سن کر شان ٹھاکر نے اپنے مضمون ”Guns and Yellow Roses“ میں ناگرہ اور جاٹ رجمنٹ کی طرف سے کارگل کارروائی کے دوران کی گئی زیادتیوں کا ذکر کیا ہے۔ ”انڈیا ٹو ڈے “ میں شائع ہونے والے کالم ”ایک سپاہی کی ڈائری “ میں مسٹر ہریندر اسی طرح کی زیاتیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ پروین سوامی بھارت کے صف ِ اول کے اخبار ”دی ہندو“ میں دس جنوری کو شائع ہونے والے اپنے مضمون میں کہتی ہیں کہ ایسے واقعات کا ارتکاب دونوں جانب ہو تا رہتا ہے۔
حب الوطنی کی آڑ میں بھارت میں چلنے والی اس اشتعال انگیز مہم کے پیچھے سوائے اس کے کوئی اور وجہ یا منطق نظر نہیں آتی کہ بھارتی فوج 2005ء کے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے اور پھر پاکستانی چوکی پر حملہ کرنے کے الزام کو نظروں سے اوجھل کرنا چاہتی ہے۔ اسی طرح بھارتی میڈیا کے ان حلقوں نے جن کا جھکاؤ بی جے پی کی طرف ہے، اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کانگریسی حکومت پر دباؤ بڑھا دیا ہے تاکہ وہ اس عوامی پذیرائی سے محروم ہو جائے جو اسے پاکستان کے ساتھ تجارتی اور عوامی رابطوں کو بہتر بناتے ہوئے کشیدگی اور تناؤکم کرنے کے اقدامات کی وجہ سے مل رہی ہے۔ یہ بھارتی میڈیا میں چلائی گئی مہم ہی ہے جس نے بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کے لئے اگلے انتخابات سے پہلے پاکستان کا دورہ کرنے اور باہمی دلچسپی کے امور پر بات کرنے کی خواہش کو عملی جامہ پہنانا دشوارتر بنا دیا ہے، حالانکہ گزشتہ انتخابی مہم کے دوران ڈاکٹر سنگھ نے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے عزم کا اظہارکیا تھا تاہم یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ بھارتی میڈیا نے کسی بھی بھارتی حکومت کے لئے پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول کی سطح پر لانے کی کوششوں کو سبوتاژ کر دیا ہو۔ 1990ء میں بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی اسلام آباد میں اپنی پاکستانی ہم منصب محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ سیاچن گلیشئر کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے کے معاہدے پر دستخط کرنے پر تقریباً راضی ہو چکے تھے لیکن جب وہ وطن واپس گئے تو میڈیا نے تیزو تند سوالات کئے کہ سیاچن سے فوجیں ہٹانے کے عوض وہ پاکستان سے کیا حاصل کرنے کی توقع رکھتے ہیں، تو مسٹر گاندھی کو پچھلے قدموں پر جاتے ہوئے اپنے وعدے سے انحراف کرنا پڑا۔ 1997ء میں آئی کے گجرال اور پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے مالی میں اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا خاتمہ کرنے کے لئے مربوط ڈائیلاگ کی ضرورت ہے لیکن اگلے سال1998ء میں مسٹر گجرال کو انتخابی مہم کے دوران کشمیر پر مذاکرات کرنے کا عندیہ دینے پر بھارتی میڈیا کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو اُن کے پاس واپسی کی راہ اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
کچھ عرصہ پہلے مصر کے شہر شرم الشیخ میں ڈاکٹر من موہن سنگھ اور سابق پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے باہمی تعلقات معمول کی سطح پر لانے کے عزم کا اظہار کیا تھا لیکن بھارتی میڈیا کے کچھ حلقوں کی طرف سے ڈاکٹر صاحب پر الزام لگایا گیا کہ وہ 2008ء میں ممبئی حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے خون سے غداری کررہے ہیں۔ اب حال یہ ہے کہ ایسے تنازعات، جیسا کہ سیاچن اور سرکریک، جن کو نسبتاً آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے، پر بھی بھارتی میڈیا اور اپوزیشن نے اتنا سخت موقف اختیار کر رکھا ہے کہ ان کے کسی ممکنہ حل کی طرف بڑھنا دونوں حکومتوں کے لئے ناممکن ہو چکا ہے۔
یہ بھی ایک ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ پاکستانی میڈیا کے بھی کچھ مخصوص دھڑوں نے بہت دیر سے ایسی ہی منفی پالیسی اپنارکھی تھی تاہم اس حقیقت سے بھی مفر ممکن نہیں ہے کہ اب پاکستانی معاشرے، میڈیا اور سیاسی جماعتوں میں یہ سوچ پیدا ہو چلی ہے کہ انڈیا کے ساتھ معمول کے تعلقات رکھنا ان کے ملکی مفاد میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب حکومت ِ پاکستان بھی انڈیا کوجلد از جلد ”ایم ایف این“ کا درجہ دینے کے لئے پُرعزم ہے تاکہ اس کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دیا جا سکے۔ بھارتی حکومت نے پاکستانی شہریوں کے لئے آسان ویزے کے حصول کے وعدے کو التوا میں ڈال دیا ہے۔ اس نے کھیلوں کے میدان میں بھی پاکستان کے ساتھ حوصلہ شکن پالیسی اپنا رکھی ہے۔ حالیہ دنوں میں بھارتی وزیراعظم اور آرمی چیف کی طرف سے سخت بیانات بھی سامنے آئے ہیں تاہم طرفین کے فوجی کمانڈروں نے لائن آف کنٹرول پر تناؤ کو کم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی وزیرخارجہ نے بھی وزارتی سطح پر گفتگو کے ذریعے کشیدگی کو کم کرنے کی پیشکش کی ہے۔ معقولیت کا تقاضا ہے کہ دونوں حکومتیں، اپوزیشن جماعتیں اور میڈیا اپنی حماقتوں کو تسلیم کرتے ہوئے موقع پرستی اور مہم جوئی کی پالیسی ترک کر دیں۔ سرحد کے دونوں طرف عوام کا مفاد امن نہ کہ کشیدگی میں ہے۔
تازہ ترین