• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلے آپ کو ایک چھوٹی سی ہڈ بیتی سنا لوں پھر اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔ 1997-99کے دوران میں وفاقی حکومت میں سیکریٹری تعلیم تھا۔ قومی تعلیمی پالیسی زیر تشکیل تھی اور اس پر دن رات محنت سے کام جاری تھا۔ میں نے مشاورت کا دائرہ پاکستانی ماہرین تعلیم، ریٹائرڈ اساتذہ، تعلیم سے وابستہ این جی اوز، پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے کرتا دھرتا حضرات، طلبہ اور محققین سے لے کر بین الاقوامی سطح تک بڑھا دیا تھا۔ اس ضمن میں ایک مسئلہ مذہبی یا دینی مدارس کو قومی دھارے میں لانا بھی تھا۔ مدارس کو قومی دھارے میں لانے اور قومی نظام تعلیم کا حصہ بنانے یا ہم آہنگ کرنے کیلئے ان مدارس کی منتظمین سے مشاورت جاری تھی۔ ایک ایسے ہی اجلاس پر سید غوث علی شاہ اس وقت کے وزیر تعلیم صدارت کر رہے تھے اور میں ان کے ساتھ بیٹھا تھا۔ مشاورت کا موضوع تھا کہ مدارس کو اپنے مخصوص اور محدود نصاب اور اندازِ تعلیم سے نکال کر وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں جہاں نصاب سے مذہبی فرقہ واریت میں اضافہ ہوتا ہو اسے قومی مقاصد سے ہم آہنگ کیا جائے تاکہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی مذہبی تفریق اور منافرت کے سامنے بند باندھا جائے۔ دوسرا اہم موضوع یہ تھا کہ ان مدارس میں مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ جدید مضامین یعنی انگریزی، فزکس کیمسٹری، ریاضی، سوشل اسٹڈیز اور تاریخ بھی پڑھائے جائیں تاکہ طلبہ کی ذہنی وسعت اور فکری افق میں گرانقدر اضافہ ہو۔ وہ معاشرے سے کٹ کر نہ رہ جائیں بلکہ معاشرے کا حصہ بنیں۔ تجویز یہ تھی جو بعد ازاں منظور ہوکر قانون سازی کی طرف بڑھی تھی کہ مدارس کے امتحانات کیلئے ایک علیحدہ بورڈ ہوگا اور مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ کو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ ملے گا۔ بات چیت کے دوران ایک حکومتی اہلکار نے کہا کہ ہمارا مقصد مدارس کے طلبہ کو ماڈرن ایجوکیشن کے ذریعے سائنسدان، ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، بیوروکریٹ بننے کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ووکیشنل ایجوکیشن کا انتظام ہوگا تاکہ جو طلبہ بی اے، ایم اے کرنے میں دلچسپی نہ رکھتے ہوں وہ ووکیشنل ایجوکیشن لے کر الیکٹریشن، پلمبر بنیں اور اپنے ہنر سے رزق کمائیں۔ آخری بات کراچی کے ایک معروف عالم کو ناگوار گزری۔ وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے کہ نہیں صاحب! ہمارے بچے صرف علماء ہی بنیں گے، وہ پلمبر، الیکٹریشن وغیرہ کیوں بنیں۔ میں نے انہیں منانے کے لئے عرض کیا کہ حضرت محنت کی عظمت اسلام کا ایک سنہرا اصول ہے اور سیرتِ نبویﷺ سے محنت کی عظمت کے بہت سے واقعات مسلمانوں کو تحریک دیتے اور رہنمائی کرتے ہیں۔ علماء حضرات منبر پر بیٹھ کر وعظ کرتے ہوئے ایسے واقعات سناتے ہیں لیکن جب بات عمل پر آتی ہے تو اسے ہتک آمیز سمجھتے ہیں۔ بیان اور عمل میں یہ تضاد حیران کن ہے۔ وہ صاحب ناراضی کے عالم میں ٹوپی سیدھی کرتے ہوئے واک آئوٹ کرگئے۔

قومی زندگی کے بہت سے شعبوں میں علماء کے کردار، ایثار اور کنٹری بیوشن کا میں ہمیشہ قائل رہا ہوں۔ کوئی دو دہائی قبل میں نے ایک انگریز مصنف کی تحقیقی کتاب پڑھی تھی جس کا نام تھا Recollections and Reflection۔ مصنف نے لکھا تھا کہ جب انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا اس وقت مسلمانوں میں شرح خواندگی تقریباً 76فیصد تھی کیونکہ مسلمان Literatکلچر سے تعلق رکھتے ہیں، مساجد مدارس کا کام بھی کرتی تھیں جہاں بچوں کو 7/6سال کی عمر میں بھجوا دیا جاتا تھا اور بچے قرآن مجید کے ساتھ گلستان بوستان کے ساتھ کچھ مزید کتابیں بھی پڑھتے تھے۔ فارسی ذریعہ تعلیم تھی۔ انگریزی آئی، مارڈن ایجوکیشن شروع ہوئی تو مسلمان اس دوڑ میں پیچھے رہ گئے جبکہ ہندوئوں نے نئے نظام تعلیم کو بہت جلد قبول کرلیا۔ نتیجتاً 1947میں قیامِ پاکستان کے وقت یہاں شرح خواندگی تقریباً 13فیصد تھی۔ بلاشبہ علماء نے ہندوستان میں دین کا جھنڈا بلند رکھا اور 1857کی جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اگر آپ 1857کے مجاہدین کی فہرست پر نگاہ ڈالیں تو آپ کو مولوی حضرات کی اکثریت نظر آئے گی۔

سچ تو یہ ہے کہ مدارس کو قومی دھارے میں لانا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ معاشرے سے مذہبی تفریق اور باہمی منافرت کا سدباب قومی ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ علماء پاکستان کی سیاست اور معاشرے میں نہ صرف خاصا اثر و رسوخ رکھتے ہیں بلکہ پاکستان میں چلنے والی ہر عوامی تحریک کا ہراول دستہ رہے ہیں، اس لئے حکمران ان سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ علماء کی اپنی اپنی ایمپائرز ہیں، فنڈز کے حصول کے اپنے اپنے ذرائع ہیں جن میں غیر ملکی امداد بھی شامل ہے۔ اسی سے سیاست کی جاتی ہے اور شاہانہ زندگی گزاری جاتی ہے، چنانچہ اجارہ داری، سلطنت کی حاکمیت اور اس سے جنم لینے والی اہمیت، وقعت اور قوت الحاق کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ مدارس کو قومی دھارے میں لانا ہر حکومت کا منشور اور مقصد رہا ہے جو بوجوہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ وفاقی وزارت تعلیم میں قیام کے دوران ہم نے مدارس کو قومی دھارے میں لانے کیلئے مربوط پروگرام بنا لیا تھا جس پر 98فیصد مدارس راضی ہو گئے تھے۔ اس پروگرام کے تحت ان مدارس میں ماڈرن مضامین پڑھانے کیلئے اساتذہ حکومت نے میرٹ پر بھرتی کرکے یا اپنے تعلیمی کیڈر سے بہم پہنچانا تھے اور ان کی تنخواہیں حکومت نے ادا کرنا تھیں۔ مذہبی نصاب پر نظر ثانی کی جانا تھی۔ ان مدارس کے امتحانات اور دوسرے معاملات کی نگرانی کیلئے وزارتِ تعلیم کے تحت ایک بورڈ قائم ہونا تھا جس کا مسودہ قانون بھی تیار کر لیا گیا تھا۔ میں نے وہ مسودہ قانون کابینہ کی منظوری کیلئے کابینہ میں پیش کیا تو فیصلہ ہوا کہ اس پر مزید غور و خوض کیلئے وزارتِ مذہبی امور کو بھجوایا جائے۔ مسودہ قانون سابق وزیر مذہبی امور راجہ ظفر الحق نے سنبھال لیا اور وعدہ کیا کہ وہ ایک ماہ کے اندر اسے دوبارہ کابینہ میں لائیں گے پھر اسے قانون سازی کیلئے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ اس سے قبل کہ وہ مسودہ قانون واپس آتا جنرل پرویز مشرف نے شب خون مارا اور اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ یوں یہ کوششیں اس وقت ناکام ہوئیں جبکہ دو چار ہاتھ لب بام رہ گیا تھا۔ موجودہ حکومت اس منصوبے پر سنجیدگی سے کام کر رہی ہے اور اب بہرحال مدارس کے کرتا دھرتا علماء کو حکومت سے تعاون کرنا پڑے گا کیونکہ ہمارے قومی سلامتی کے ادارے بھی یہی چاہتے ہیں۔سچ یہ ہے کہ مذہبی عناصر صرف یہی زبان سمجھتے ہیں۔ کابینہ نے بھی عقلمندی کا مظاہرہ کیا ہے کہ مدارس کو وزارت کے ماتحت کرنے کے بجائے انہیں وزارت سے منسلک کرنے کااعلان کیا ہے۔ وزیر تعلیم شفقت محمود نہ صرف عالمی سطح کی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہیں بلکہ پختہ سیاسی وژن اور وسیع انتظامی تجربہ بھی رکھتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ وہ ان شاء اللہ اس حوالے سے کوئی بہتر منصوبہ بنانے اور مدارس کو قومی دھارے میں لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

تازہ ترین