• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرعوبیت کے شکار مغرب زدہ دانشوروں کی باتوں میں آکر ہمارا معاشرہ برسہا برس سے سائنسی ترقی اور مادی خوشحالی کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہا تھا اور جانے کب تک ہم سائنس و ٹیکنالوجی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے پر کڑھتے رہتے مگر بھلا ہو کپتان کا جس نے کیف و مستی میں زندگی کی سب سے بڑی حقیقت منکشف کرکے قوم کو احساس کمتری سے نجات دلا دی۔ لوگ خواہ مخواہ فرزانوں کو سر چڑھاتے اور فلسفیوں کے گیت گاتے ہیں حالانکہ یہ لوگ زندگی کی ڈور سلجھانے کی کوشش میں مزید اُلجھاتے چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح مادہ پرستی کے قائل اور ٹیکنالوجی کی طرف مائل لوگ سائنسدانوں کی مالا جپتے اور قصیدے پڑھتے ہیں حالانکہ سچ یہ ہے کہ ان سائنسدانوں نے اپنی ایجادات سے کائنات کا توازن درہم برہم کیا ہے۔ میری دانست میں تعریف و توصیف اور داد کے مستحق تو کپتان جیسے وہ دیوانے ہیں جو ترنگ میں آئیں تو تمام اندیشے دور اور سب غم کافور کر دیتے ہیں۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں، چند روز پہلے تک یہ حقیقت کسے معلوم تھی کہ سوہاوہ کے پہاڑ کو ترقی کا پہاڑ کیوں کہا جاتا ہے؟ 70سال پہلے اس تاریخی پہاڑ پر چلہ کاٹنے والے بابا نورالدین سے کون واقف تھا؟ ابنِ عربی جیسے تاریخی کردار کی حقیقی خدمات کے بارے میں کسے علم تھا؟ کسے معلوم تھا کہ روحانیت دراصل سپر سائنس ہے۔ بالفاظ دیگر یہ مادی سائنس روحانیت کی پراسرار دنیا کے سامنے کیا بیچتی ہے۔

وہ مخالفین جو روحانیات کو سپر سائنس قرار دینے پر سیخ پا ہیں، ان کا مسئلہ روحانیات نہیں کپتان ہے۔ انہیں یہ خوف لاحق ہے کہ اگر کپتان روحانی طاقتیں بروئے کار لاتے ہوئے اس ملک کے پیچیدہ ترین مسائل اور مشکلات حل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو ان کی سیاسی دکانداری ختم ہو جائے گی۔ مافوق الفطرت مظاہر میں انسان کی دلچسپی کوئی نئی بات نہیں۔ چند برس ہوتے ہیں اسلام آباد میں پاکستان کی ایک بہت بڑی یونیورسٹی کے ہیومینٹیز ڈپارٹمنٹ میں ایک ورکشاپ منعقد کی گئی جس کا عنوان تھا ’’جنات اور کالا جادو‘‘۔ اس ورکشاپ میں طلباء و طالبات کی بے پناہ دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آڈیٹوریم میں بلامبالغہ تل دھرنے کی جگہ نہ تھی اور لوگ کھڑے ہونے کی جگہ ڈھونڈتے رہ گئے۔ ورکشاپ میں جنات اور کالے جادو سے متعلق ماہرانہ رائے دینے کے لئے جس مقرر کو مدعو کیا گیا تھا اس کا نام تھا راجہ ضیاء الحق۔ نام کی مناسبت سے مجھے یاد آیا کہ مردِ مومن مردِ حق، ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں بھی روحانیت پر مبنی سپر سائنس سے استفادہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ ضیاء الحق کے دور میں سنجیدگی سے یہ کوشش کی جاتی رہی کہ جنات کو بجلی پیدا کرنے کا ٹاسک دے دیا جائے مگر باوجوہ اس منصوبے کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا، اسی طرح 1970ء میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے ایک اہم عہدیدار نے یہ تجویز دی کہ جوہری پلانٹس میں ایٹمی ایندھن اور پٹرولیم کے بجائے جنات کی طاقت اور توانائی کو بطور ایندھن استعمال کیا جائے۔

میجر جنرل ابوبکر عثمان مٹھا جو جنرل یحییٰ خان کے دور میں جی ایچ کیو میں بطور کوارٹر ماسٹر جنرل تعینات رہے، نے اپنی خود نوشت ’’بمبئی سے جی ایچ کیو تک‘‘ میں فیلڈ مارشل ایوب خان اور آرمی چیف جنرل موسیٰ خان کے ایک پہنچے ہوئے پیر کا ذکر کیا ہے جو خود بھی فوج میں جونیئر افسر تھے۔ ان سے متعلق یہ بات مشہور تھی کہ موصوف کے قبضے میں کوئی روحانی طاقت ہے، وہ پانی پر کچھ پڑھ کر پھونکتے ہیں، کسی بھی قسم کا مرض ہو، اس پڑھے ہوئے پانی کو لگانے سے شفا مل جاتی ہے۔ ابوبکر عثمان مٹھا کے مطابق جنرل ایوب خان اور جنرل موسیٰ خان جیسے لوگ بھی اس ’’پیر‘‘ کی کرامت پر اعتقاد رکھتے تھے، ان کے علاوہ بہت سے سینئر فوجی افسران بھی پیر صاحب کے آستانے پر حاضری دیا کرتے تھے۔ ایک بار جنرل مٹھا نے ان پیر صاحب کا لاہور سے تبادلہ کرنا چاہا تو انہیں بتایا گیا کہ انہیں کمانڈر انچیف کے حکم پر یہاں پوسٹ کیا گیا ہے۔

اسی طرح افواج پاکستان کے چوتھے سپہ سالار جنرل موسیٰ خان نے اپنی کتاب Jawan to Generalمیں روحانیت سے متعلق ایک ذاتی واردات بیان کی ہے۔ جب جنرل موسیٰ ڈپٹی چیف آف اسٹاف تعینات ہوئے اور کراچی پہنچے تو وزیر خزانہ چوہدری محمد علی نے ان سے درخواست کی کہ آپ میرے گھر منتقل ہو جائیں اور مجھے اپنی سرکاری رہائش گاہ دے دیں کیونکہ وہ دل کے مریض ہیں اور اس گھر میں انہیں پریشانی ہوتی ہے۔ چنانچہ جنرل موسیٰ ہوشانگ روڈ پر واقع سرکاری بنگلے میں منتقل ہوگئے۔ جنرل موسیٰ لکھتے ہیں کہ اس گھر پر جنات کا سایہ تھا، اس لئے چوہدری محمد علی نے یہ گھر چھوڑا۔ بہرحال جنرل موسیٰ نے جنات کو بھگانے کے لئے مشہد سے ایک روحانی شخصیت الحاج سید ابوالحسن حافظ کی خدمات حاصل کیں۔ قدرت اللہ شہاب نے بھی اپنی کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ میں اس نوعیت کی روحانی وارداتوں کا ذکر کیا ہے۔ سیاسی شخصیات کی پیر پرستی سے تو آپ واقف ہی ہوں گے اور اس موضوع پر میں نے ایک کالم میں تفصیل بیان کی تھی جس کا عنوان تھا ’’سیاست کے پیرِ کامل‘‘۔ بتانے کا مقصد محض یہ تھا کہ روحانیت ایک حقیقت ہے اور ماضی میں بھی اس سے استفادہ کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے مگر کپتان کا کمال یہ ہے کہ اس نے روحانیت کو اس کا صحیح مقام عطا کرتے ہوئے سپر سائنس کا تصور دیا ہے۔ روحانیت کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسا سمندر ہے جس کی حقیقت وہی پا سکتا ہے جو اس میں ڈوب جانے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ بے یقینی اور تشکیک میں مبتلا وہ لوگ جو ساحل پر کھڑے ہو کر روحانیت کو سمجھنا چاہتے ہیں، کشف و کرامات کی اس دنیا کو کبھی نہیں جان سکتے۔ میرا خیال ہے کہ ملکی حالات جس قدر خراب ہو چکے ہیں، معیشت تباہی و بربادی کے جس دہانے پر کھڑی ہے اور ہمارا معاشرہ سماجی واخلاقی برائیوں کے جس گڑھے میں گر چکا ہے، اس سے باہر نکلنا اور ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنا اب کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ اگر ہم محض سائنس و ٹیکنالوجی کا سہارا لیں گے، اقتصادی اصولوں کی روشنی میں معیشت کو سنوارنے کی کوشش کریں گے یا مادی قوانین کے مطابق اس صورتحال سے نکلنے کی تگ و دو کرتے رہیں گے تو کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ کیوں نہ مذاق اُڑانے کے بجائے اس بار سنجیدگی کے ساتھ روحانیت سے مستفید ہونے کی کوشش کی جائے کیونکہ روحانیت کی سپر سائنس سے ہی کوئی انہونی، کوئی معجزہ یا کرامت ہو سکتی ہے۔

تازہ ترین