• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب سے پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت آئی ہے، حیرتوں کی ایک عجیب کیفیت طاری ہے۔ گورننس کے ہوشربا تجربات سامنے آ رہے ہیں اور عوام کے ’مفاد‘ میں عوام ہی پر تازیانے برسائے جا رہے ہیں۔ آٹھ نو ماہ کے دوران اِن پر مہنگائی کے اتنے بم گرائے جا چکے ہیں کہ اُن کے شمار ہی سے دل بیٹھنے لگتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی شہرت ایک دیانت دار اور سخت جان سیاست دان کی ہے جبکہ کرکٹ کی دنیا میں انہیں ایک بلند مقام حاصل ہے۔ اُن کی یہی حیثیت اُن کے لیے وبالِ جان بنی ہوئی ہے۔ وہ حکومت بھی اِسی طرح چلا رہے ہیں جیسے کرکٹ کا میچ کھیل رہے ہوں۔ کھیل کے بار بار بگڑ جانے سے شدت کے ساتھ احساس ہوا ہے کہ ٹیم ہی ناتجربہ کار اور نااہل ہے۔ اِس ٹیم نے جو ’کارنامے‘ سرانجام دیئے ہیں، ان سے عوام کی پریشانیوں، مصیبتوں اور مایوسیوں میں ناقابلِ بیان حد تک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اب ملکی معیشت کے بارے میں فیصلے وہی عالمی ادارہ کرے گا اور اِس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ کہ وہ پاکستان کو ڈی نیوکلیئر کرنے اور سی پیک منصوبے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے میں بڑی طاقتوں کا آلۂ کار ثابت ہوگا۔

ناختم ہونے والی وحشت ناک حیرتوں کا سلسلہ اس وقت سے شروع ہے جب ایک صبح ڈالر کے نرخ یکایک 35فیصد بڑھ گئے۔ اِس پر جناب وزیراعظم نے ارشاد فرمایا کہ یہ خبر مجھے ٹی وی سے معلوم ہوئی۔ ایک دنیا حیرت زدہ تھی کہ اِتنا بڑا فیصلہ وزیراعظم کی منظوری کے بغیر کیسے عمل میں آ گیا جو ملکی معیشت کو بہت بڑے جھٹکے سے دوچار کرنے کے ساتھ ساتھ مہنگائی کا سونامی لے آیا اور کاروبار کی دنیا پر بے یقینی کا آسیب چھا گیا۔ عقلِ سلیم کا تقاضا تھا کہ وہ حکومت جو مانگے تانگے کے ووٹوں پر قائم ہے، اپوزیشن کے ساتھ مفاہمت پیدا کرنے کے لیے نہایت سنجیدہ کوششیں کرتی لیکن جناب وزیراعظم اور اُن کے قریبی ساتھیوں نے سیاسی حریفوں کو اشتعال دلانے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ عمران خان جب کبھی زبان کھولتے تو ایک ہی نعرۂ مستانہ بلند کرتے کہ میں ڈاکوؤں، چوروں اور لٹیروں کو ہرگز نہیں چھوڑوں گا، اُنہیں جیل میں ڈالوں گا اور اُنہیں ہرگز این آر او نہیں دوں گا۔ اپوزیشن جماعتیں جمہوریت کے تسلسل کی خاطر حکومت سے تعاون کرنے کی پیشکش کرتی رہیں اور حکومت گرانے کے لیے مولانا فضل الرحمٰن کا ساتھ نہیں دیا۔ خیر سگالی کے اِن اعلیٰ جذبات کے مقابلے میں جناب وزیراعظم تواتر سے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ اپوزیشن کو ریاست کی طاقت سے ملیامیٹ کرکے دم لیں گے۔

اب یہ امر عملی طور پر ثابت ہو گیا ہے کہ جناب عمران خان نے اپنی تقریروں میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے کے سوا کوئی ہوم ورک سرانجام دیا نہ کوئی باصلاحیت ٹیم تیار کی۔ پے درپے حادثات ہوتے رہے اور عوام کی زندگی روز بروز اجیرن ہوتی گئی۔ بجلی، پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کیا جاتا رہا اور ترقیاتی منصوبوں میں تشویش ناک تخفیف سے بیروزگاری کا سیلاب اُمڈ آیا اور معاشی سرگرمیوں کے سمٹ جانے سے لوگوں کے کاروبار ٹھپ ہوتے جا رہے ہیں۔ رمضان المبارک میں اشیائے صرف سو فیصد مہنگی اور ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ اُمید کے بجائے مایوسی کی گہری دھند چھائی ہوئی ہے۔ انتخابی مہم کے دوران جناب عمران خان نے نوجوانوں اور عوام کو یقین دلایا تھا کہ ہمارے ماہرین نے اُن دو سو ارب ڈالروں کا کھوج لگا لیا ہے جو پاکستانیوں کے غیرملکی بینکوں میں جمع ہیں، چنانچہ اقتدار میں آتے ہی وہ اثاثے پاکستان کو مل جائیں گے اور تارکینِ وطن اُن کے ایک اشارے پر ڈالروں کی بارش کر دیں گے مگر سات آٹھ ماہ کے دوران بے برکتی اور آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ انتہائی مایوس کن صورتحال کا تحریکِ انصاف کے جیالوں کی طرف سے جواز یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ نون لیگ کی حکومت خزانہ خالی چھوڑ کے چلی گئی ہے، اِس لیے معیشت کی بحالی میں وقت لگ رہا ہے۔ غالباً وہ یہ سمجھتے ہیں کہ غلط بیانی سے عوام کو مطمئن کیا جا سکے گا مگر وہ تو اِس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ نون لیگ حکومت نے گزشتہ تیرہ برسوں میں معاشی نشو و نما کو بلند ترین سطح 5.8فیصد تک پہنچا دیا تھا اور معاشی ریٹنگ کے عالمی ادارے پیشگوئی کر رہے تھے کہ آئندہ پندرہ بیس برسوں میں پاکستانی معیشت دنیا کی بیسویں بڑی معیشت بن جائے گی۔ جھوٹے پروپیگنڈے کی قلعی کھل جانے سے پاکستان تحریک ِ انصاف کا اعتماد اُٹھ گیا ہے اور اس کے اقتدار کو اندر سے خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔

رمضان کی آمد سے دو روز پہلے پٹرولیم مصنوعات میں غیرمعمولی اضافہ کر دیا گیا جبکہ آئی ایم ایف کے اصرار پر بجلی کی قیمتوں میں بتدریج اضافے کا مژدہ بھی سنا دیا گیا ہے۔ اپوزیشن نے اضافہ واپس لینے کا پُرزور مطالبہ کیا ہے مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت عوام کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لینا چاہتی ہے، جبکہ امیروں کو سبسڈی دینے کے لیے ایک ایمنسٹی اسکیم لا رہی ہے جس کے اقتدار میں آنے سے پہلے جناب عمران خان شدید مخالف تھے۔

جناب وزیراعظم اپنی تقریروں میں الفاظ کا جس بے رحمی سے استعمال کرتے ہیں اور افکار کو غلط ملط کرتے ہوئے صورتحال مضحکہ خیز بناتے ہیں، ہم اِس موقع پر ان کا تفصیلی ذکر مناسب نہیں سمجھتے مگر مجھے اُس وقت ناقابلِ برداشت صدمہ پہنچا جب وہ کہہ رہے تھے کہ ’قائداعظم کینسر سے مر رہے تھے‘۔ یہ الفاظ مجھ پر بجلی بن کے گرے۔ ایک تو اُن کی بے خبری کی وجہ سے کہ قائد اعظم سرطان کے بجائے تپ دِق کے مرض میں مبتلا تھے اور دوسرے ’مر رہے تھے‘ کے بے رحم الفاظ کی وجہ سے۔ اِسی طرح عمران خان بے ڈھب جذباتیت کی رَو میں روحانیت کو سپر سائنس کے ساتھ نتھی کر گئے اور ایک اچھے خیال کو جہلِ مرکب سے جوڑ دیا۔

گزشتہ دنوں میں راتوں رات جو فیصلے ہوئے اور پُراسرار انداز میں حفیظ شیخ، رضا باقر اور شبر زیدی ملکی معیشت پر مسلط کیے گئے ہیں، اس کہانی کو بیان کرنے سے بے حد خوف محسوس ہو رہا ہے کہ کنفیوژن میں کوئی بڑا حادثہ پیش نہ آ جائے۔ اپوزیشن نے اجتماعی طور پر آئی ایم ایف کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے تشبیہ دی ہے جس نے خاص کارندوں کے ذریعے برِصغیر میں مسلمانوں کے اقتدار کا چراغ گُل کر دیا تھا۔ میری دعا ہے اللہ ہمارے اربابِ بست و کشاد کو بصیرت اور عملی فراست عطا فرمائے اور پاکستان تمام بلاؤں سے محفوظ رہے۔ آمین!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین