• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلم لیگ (ن) نے انوکھا ڈرامہ کیا ہے، ناچتے گاتے خوشی خوشی اپنے قائد کو جیل چھوڑ آئے۔ پانچ گھنٹے پر مشتمل اس جلوس کی لائیو رپورٹنگ سوشل میڈیا پر مریم نواز نے کی۔ یہ رپورٹنگ بھی مسلم لیگ (ن) کو مبارک ہو، مگر یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ڈرامے کے تخلیق کار یہ کیوں بھول گئے تھے کہ وہ جس قائد کو گرم ترین موسم میں پانچ گھنٹے گاڑی میں بٹھائے رکھیں گے اس قائد کو کئی بیماریاں لاحق ہیں، اس قائد کی اوپن ہارٹ سرجری ہو چکی ہے، اسٹنٹ ڈالے جا چکے ہیں، اسی قائد کے لئے انہوں نے بھرپور کوشش کی کہ کسی طرح لندن یاترا کی اجازت مل جائے۔ تخلیق کار کے بعد مسلم لیگی رہنمائوں کی ذہنی حالت پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ آخر انہوں نے اپنے قائد کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ کیا انہیں اپنے قائد کی صحت کی کوئی فکر نہیں، کیا لوگ دل کے مریض کے ساتھ ایسے کرتے ہیں؟ شہباز شریف خود تو چلے گئے اور پھر بھائی کو جیل چھوڑنے کے لئے بھی نہیں آئے، ان کے صاحبزادے کی مسکراتی تصویر پتا نہیں کیا پیغام دے رہی ہے۔ خیر میاں شہباز شریف کی یہ پرانی عادت ہے، ان کا موقف ذرا ہٹ کے ہی رہا ہے ، جس وقت ان کے بھائی خلائی مخلوق کی باتیں کر رہے تھے تو وہ خاموش رہ کر پیغام دے رہے تھے کہ وہ اور ہیں، میں اور ہوں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایک مرتبہ وہ ائیر پورٹ بھی نہیں پہنچ سکے تھے۔ شاید سیاست اسی کا نام ہے۔ ویسے تو اسفند یار ولی مفاہمت اور مصالحت کو کسی اور ہی نام سے یاد کرتے ہیں، میں یہاں اس نام کا تذکرہ نہیں کروں گا کیونکہ اگر وہ ذکر کر دیا تو پھر مجھے آزاد کشمیر کے وزیراعظم کے حالیہ ’’اقوالِ زریں‘‘ بھی بیان کرنا پڑیں گے، چلو رمضان شریف کے احترام میں یہ باتیں رہنے دیتے ہیں۔

آج کل بلاول بھٹو زرداری نے اسٹیٹ بینک کے نئے گورنر کو ہدفِ تنقید بنایا ہوا ہے، وہ ہر بات پر آئی ایم ایف کا تذکرہ کرتے ہیں حالانکہ پیپلز پارٹی کے تمام ادوار میں آئی ایم ایف سے قرضہ لیا گیا۔ مشرف دور میں جان چھوٹ گئی تھی مگر پھر 2008ء میں عوامی حکومت آتے ہی آئی ایم ایف کی یاد آگئی۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ پر تنقید شاید اس لئے کم کی گئی ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے دور میں وزیر رہ چکے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 90ء کی دہائی میں ایک صاحب معین قریشی نگران وزیراعظم بن گئے تھے، یہ جمہوری ادوار کی بات ہے کہ جس شخص کے گائوں کا بھی پتا نہیں تھا، جس کے پاس شناختی کارڈ بھی نہیں تھا، وہ وزیراعظم بن گیا تھا۔ ڈاکٹر رضا باقر تو آئی ایم ایف کی نوکری چھوڑ کر ملک کی خدمت کے لئے آیا ہے ورنہ پیپلز پارٹی تو برطانیہ اور امریکہ میں وہاں کے باشندوں ہی کو پاکستان کا سفیر بنانے کی انوکھی مثال کی مالک ہے۔ ڈاکٹر رضا باقر کو انگریزی کے علاوہ اردو اور پنجابی بھی آتی ہے۔ وہ وہاڑی کے گائوں 571ای بی کے رہنے والے ہیں۔ ڈاکٹر رضا علی باقر کے دادا چوہدری جان محمد زمیندار تھے جبکہ رضا علی باقر کے والد چوہدری محمد شریف باقر بیرسٹر تھے، انہوں نے پیپلز پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے 1988ء میں بورے والا سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا تھا، وہ مسلم لیگی امیدوار شاہد مہدی نسیم شاہ سے دس ہزار ووٹوں سے ہار گئے تھے، پھر انہیں بینظیر بھٹو نے سوئٹرز لینڈ کے لئے پاکستان کا سفیر مقرر کیا تھا۔ بعد ازاں وہ ملک معراج خالد کے دور میں مشیر بھی رہے۔ ڈاکٹر رضا باقر کی ابتدائی تعلیم ایچی سن کالج لاہور سے ہوئی۔ اگر کوئی اپنے ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہے تو اس میں ہرج ہی کیا ہے۔ ہاں البتہ ملکی دولت لوٹنے سے گریز کرنا چاہئے۔

پنجاب میں نیا بلدیاتی ایکٹ منظور ہو چکا ہے، اس نئے نظام کے حوالے سے گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے ٹی وی اینکرز کے روبرو گفتگو کی۔ انہوں نے اس نظام کی افادیت سے آگاہ کیا۔ نئےبلدیاتی ایکٹ کے تحت فیصلہ سازی مقامی سطح پر ہوگی، جس نظام کو پہلے (کاغذوں میں) چودہ ارب روپے دئیے جاتے تھے اب نئے نظام میں 40ارب روپے عملی طور پر ملیں گے۔ ہر موضع اور شہری علاقے کو سیلف گورننس دی جائے گی۔ ویلیج کونسل کے انتخابات اوپن لسٹ سسٹم کی بنیاد پر منعقد کئے جائیں گے جس میں اکثریتی ووٹ لینے والا امیدوار سربراہ مقرر ہوگا جبکہ خواتین، کسانوں اور اقلیتی امیدواروں کا انتخاب بھی براہ راست ہوگا۔ پانی کی فراہمی اور نکاسی، کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کا انتظام، اسٹریٹ لائٹس، پیدائش، وفات اور نکاح کی رجسٹریشن، تنازعات کا حل، کھیلوں کا فروغ، انرولمنٹ کمپین میں معاونت کے ساتھ ساتھ کمیونٹی کو متحرک کرنا بھی ویلیج کونسل کے فرائض میں شامل ہوگا۔ نئے بلدیاتی نظام کے تحت پنجاب میں بائیس ہزار ویلیج کونسلیں اور تقریباً پچیس سو مقامی شہری کونسلیں سیلف گورننس کی حقدار بنیں گی۔ شہروں کو منظم کرنا اور قواعد و ضوابط کے تحت لانا، پانی کی فراہمی اور نکاسی، کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے والی کمپنیاں، انفراسٹرکچر اور سڑکیں، پرائمری، مڈل اور ہائی اسکول کی سطح پر تعلیم کی فراہمی، بنیادی صحت کی سہولتیں اور ہنگامی حالات کی منصوبہ بندی شہری حکومتوں کے ذمہ ہوگی۔

پنجاب میں متعارف کروائے گئے نئے نظام میں ہر شہر، قصبے اور تحصیل میں میئر کا براہ راست انتخاب ہوگا۔ یہ جنوبی ایشیا میں اپنی طرز کا متعارف کروایا جانے والا پہلا نظام ہے جس میں لندن اور استنبول جیسے ترقی یافتہ شہروں کا سا مثالی نظام ہوگا۔ اس نظام میں ویلج کونسلیں تو غیر جماعتی بنیادوں پر بنیں گی مگر شہری حکومتیں جماعتی بنیادوں پر ہی بن سکیں گی۔ سابقہ دور میں یونین کونسل کی اوسط آبادی بائیس ہزار ہوا کرتی تھی مگر اب ویلیج کونسل کی آبادی تقریباً 35سو ہوگی۔ تحصیل اور شہروں کی حکومتیں ٹیکس جمع بھی کر سکیں گی اور خرچ بھی۔ نئے ایکٹ کے تحت تمام مقامی حکومتوں کو چار سو ارب جاری کئے جائیں گے۔ چار سو ارب میں سے 110ارب روپے صرف بلدیاتی سہولیات کے لئے ہوں گے۔ اگر اس نظام کا بغور جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ نظام لوگوں کے لئے بہت عمدہ ہے کیونکہ اس نظام کے تحت اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہو جائیں گے اور عوام بااختیار نظر آئیں گے، وسائل کی تقسیم بھی یکساں ہوگی اور اس طرح صوبے کے ہر علاقے کو ترقی کے بلاتفریق مواقع ملیں گے۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی دوبارہ کامیابی میں اس نظام کا مرکزی کردار ہے، پنجاب میں یہ نظام اب متعارف کروایا جارہا ہے، نظام تو اچھا ہے مگر اقبال کا شعر سامنے آجاتا ہے کہ ؎

آئین نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا

منزل یہ کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

تازہ ترین