بھارت کا مقبوضہ کشمیر میں الیکشن ڈرامہ بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ جموں و کشمیر کے عوام نے بھارتی الیکشن کا مکمل بائیکاٹ کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کشمیری عوام بھارت سے نجات اور پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں۔ بھارت کی شر انگیزی اور پاکستان میں را کے نیٹ ورک کی سرگرمیوں کے حوالے سے پاک فوج کے ترجمان کی پریس بریفنگ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت کی ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے پاکستان کے عوام اور سول و عسکری ادارے ایک صفحے پر ہیں۔ بھارت ایک منظم سازش کے تحت بلوچستان میں حالات خراب کر رہا ہے۔ کلبھوشن یادیو جو بھارتی نیوی کا حاضر سروس آفیسر ہے، نے بھی اس کا برملا اعتراف کیا ہے کہ وہ بھارتی خفیہ ایجنسی را کے مشن پر پاکستان آیا، پھر رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ افغانستان میں موجود بھارت کے ایک درجن کے قریب قونصل خانے دہشت گردوں کی مالی و تربیتی مدد کر رہے ہیں۔ وطن عزیز کو دشمن قوتوں کے ناپاک عزائم سے محفوظ بنانے کے لئے سب کو اتحاد و یکجہتی کا مظاہر کرنا ہوگا۔ دینی مدارس قومی دھارے میں رہ کر کام کر رہے ہیں۔ دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں۔ ان کے خلاف کوئی بھی سازش اگر کی گئی تو اس کا فائدہ بیرونی دشمنوں کو ہوگا اور یہ ملک کے لئے انتہائی نقصان دہ ہوگا۔ ملک میں سیاسی استحکام بہت ضروری ہے اور یہ تب ممکن ہوگا جب حکمران سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گے۔ پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے۔ عوام میں حکومت کی ناقص کارکردگی کے حوالے سے مایوسی اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ تبدیلی کے دعویداروں نے عوام پر مہنگائی کا عذاب مسلط کر دیا ہے۔ پاکستان کو بدحال کرنے والوں کا بھی بلا تفریق محاسبہ ہونا چاہئے۔
بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل پامالی اور کشمیریوں سے ان کے بنیادی حقوق چھین رہا ہے۔ بھارتی فورسز کی جانب سے نہتے کشمیریوں پر پیلٹ گنوں، گولیوں اور آنسو گیس کی شیلنگ نے بھارت کے بھیانک چہرے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ، عالمی برادری اور انسانی حقوق کا پرچارکرنے والی این جی اوز دانستہ خاموش تماشائی ہیں۔ بھارتی ظلم کا بازار مقبوضہ کشمیر میں زیادہ دیر تک قائم نہیں رکھ سکتا۔ بھارت اپنی سات؎ لاکھ فوج کے ذریعے کشمیریوں کی آواز کو دبانے میں اب تک ناکام رہا ہے۔ آئے روز بھارت کی جانب سے پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزی ایک معمول بن چکا ہے۔ بھارت کو اسی کی زبان میں جواب دیا جانا چاہئے کیونکہ وہ پیار کی زبان نہیں سمجھتا۔ جموں و کشمیر پر غاصبانہ قبضے کو مزیدجاری رکھنا درحقیقت بھارت کے لئے ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔ وہ وقت اب دور نہیں جب مقبوضہ کشمیر بھی عملاً پاکستان کا حصہ بنے گا۔ جموں وکشمیر ہمارے لئے زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ حکومت پاکستان کو مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر بھرپور انداز میں اجاگر کرنا چاہئے۔
ملک میں مہنگائی، بیروزگاری، غربت، کرپشن، دہشت گردی اور دیگر مسائل نے عوام کی مشکلات اور پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ غربت نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے۔ لوگوں کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں جبکہ حکمرانوں کی جانب سے آئے روز غربت کے خاتمے کے خوشنما اعلانات ہوتے رہتے ہیں۔ غریب عوام کا استحصال ہر دورِ حکومت میں ہوا ہے۔ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے ملک سے غربت کے خاتمہ کا نعرہ لگایا تھا مگر غربت تو ختم نہیں ہو سکی البتہ حکومت غریب مکاؤ پالیسی پر ضرور گامزن ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری کے باعث جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پڑھے لکھے نوجوان جرائم کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔ مٹھی بھر کرپٹ مافیا نے تمام اختیارات پر قبضہ جما رکھا ہے، کرپشن نے ملکی جڑوں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔ جب تک ملک سے کرپشن کا قلع قمع نہیں کیا جاتا، ترقی کاخواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ ہر دورِ حکومت میں قومی خزانے سے لوٹ مار کرکے جائیدادیں اور بینک بیلنس بنائے گئے مگر اس اشرافیہ کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جب تک حکمرانوں کے قول و فعل میں تضاد رہے گا، تب تک ملک و قوم کو مخلص، محب وطن اور کرپشن سے پاک قیادت میسر نہیں آ سکتی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ وطن عزیز میں آج تک انگریزوں کا نظام رائج ہے۔
اسٹیٹ بینک کی ملکی قرضوں میں اضافے کے حوالے سے تازہ رپورٹ تشویش ناک ہے۔ اس وقت کل ملکی قرضے 27ہزار ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں، اگر اسی رفتار سے حکمراں قرضے لیتے رہے تو اگلے پانچ برسوں میں یہ 60ہزار ارب سے بھی زیادہ ہو جائیں گے۔ ہر پاکستانی جو گزشتہ دورِ حکومت میں ایک لاکھ 35ہزار روپے کا مقروض تھا، اب ایک لاکھ پچاس ہزار کا مقروض ہو چکا ہے۔ ناقص حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے ملکی معیشت روز بروز بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ملک میں اس وقت 6کروڑ پاکستانی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ڈھائی کروڑ بچے اسکول جانے کے بجائے غربت کی وجہ سے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں جبکہ اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔ پٹرولیم مصنوعات اور ادویات کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہونے سے ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا ہو گیا ہے۔ ماضی میں دو بڑی پارٹیوں سے عوام تنگ آ چکے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ کرپٹ قیادت سے چھٹکارا حاصل ہو اور عوام خوشحال ہو سکیں لیکن بدقسمتی سے تحریک انصاف کی حکومت کو 9ماہ ہو چکے ہیں مگر لوگوں کو حقیقی ریلیف ملنا تو دور کی بات، الٹا ان کے مسائل میں مزید اضافہ ہو گیاہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ موجودہ حکومت نااہلی میں سابقہ حکومتوں کو بھی پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ حکومتی وزراء عوام کو یہ کہہ کر تسلیاں دے رہے ہیں کہ ٹیکس کم لگانے سے مہنگائی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ لازم ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ حکومتی مذاکرات کو بھی منظر عام پر لایا جائے۔ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر کبھی خود مختار معاشی پالیسی نہیں بن سکتی۔