• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مظلوم ہزارہ کمیونٹی کی آہ و بکاہ کی طاقت سے بلوچستان میں گورنر راج کا نفاذ، انتخاب سے قبل انتخابی اصلاحات کے لئے علامہ طاہر القادری کا دھرنا، رینٹل پاور کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کا وزیراعظم کو گرفتار کرنے کے حکم کے بعد اپوزیشن کا موجودہ جمہوری نظام کے جاری و ساری رہنے پر اتفاق نے پاکستان میں عجیب و غریب صورتحال پیدا کر دی ہے۔ متذکرہ ہر واقع نے عوام کے اذہان میں دسیوں سوال پیدا کئے، ایک کا جواب نہیں ملے کہ دوسرا واقع ہو گیا۔ چند ہی روز میں وہ وہ کچھ ہوا جس کا کوئی وہم و گمان نہ تھا۔ یہ چاروں واقعات ملک کے سیاسی مستقبل قریب پر کس طرح اثر انداز ہوں گے؟ ان حالات میں امکانی انتخابی مہم کیا شکل اختیار کرے گی؟ کیا یکے بعد دیگرے یہ غیر معمولی واقعات کسی بڑی تبدیلی برپا ہونے کی کڑیاں ہیں اور ان کا باہم تعلق ہے؟ یا ان کا ایک ہی وقت میں انعقاد سوئے اتفاق ہے؟ یہ وہ بنیادی اور بڑے سوال ہیں جو معمولی سیاسی سوچ سمجھ رکھنے والے شہری کے ذہن میں بھی ابھرے ہیں۔ بحیثیت مجموعی ان واقعات نے قوم میں گہرا تجسس پیدا کر دیا ہے۔ اس غیر معمولی ملکی صورتحال کے قریبی امکانی نتائج کا اندازہ لگانا تجزیہ نگاروں کے لئے قدرے محال ہو رہا ہے، خود سیاست دان دم بخود ہو گئے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟
جہاں تک کوئٹہ میں گورنر راج کے نفاذ کا تعلق ہے، اس نے حکومت اور عوام کو دو بہت واضح پیغام دیئے ہیں۔ ایک یہ کہ حکومت خواہ کتنی بے حس اور نا اہل ہو، عوام اپنے کسی مطالبے پر ڈٹ جائیں تو اسے ان کی سننا پڑتی ہے۔ دوسرا یہ کہ عوام کتنے ہی بے بس اور مظلو م ہوں، جب وہ کوئی مطالبہ منوانے کے لئے سنجیدہ اور منظم ہو جائیں تو بالآخر وہ اپنا ہدف حاصل کر ہی لیتے ہیں۔ ہزارہ کمیونٹی پر مسلسل مظالم کی سیریز نے انہیں اپنی تمام تر بے بسی کے باوجود اپنے ایک بڑے ہدف کے لئے منظم کر دیا، جس سے وفاقی حکومت کی بے حسی بھی ختم ہو گئی اور بلوچستان کی ڈھیٹ اور نا اہل حکومت بھی۔ جو انہوں نے چاہا وہ ہو گیا۔ گویا مشترکہ نا انصافیوں اور اپنے پر مظالم کے خلاف خود عوام کے کھڑے ہونے کی کوئی عملی اور پُر امن صورت بن جائے تو وہ اپنے اہداف حاصل کر لیں گے، جس طرح مظلومین ہزارہ نے عوام کو نظر آنے والی اپنی آہوں اور سسکیوں کی قوت سے کوئٹہ میں گورنر راج کا نفاذ کرا دیا، وہ پورے پاکستان کے مظلوم عوام کے لئے ایک سبق ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے جن مطالبات کو منوانے کے لئے لانگ مارچ اور دھرنے جیسا کٹھن اقدام اٹھایا ہے، وہ کوئی نئے نہیں ہیں۔ ملک کے سینئر اور پارٹی کنکشن سے آزاد، سیاسی تجزیہ نگار ہی نہیں، خود دیانت دار اور ذمے دار قومی مزاج رکھنے والی سیاسی جماعتیں اور سیاسی کارکن بھی آئین کی روح اور صحیح تشریح کے مطابق یقینی غیر جانبدار انتخاب کے انعقاد، انتخابی امیدوار بننے کے امیدواروں کو آئین کی دفعہ 62-63 اور 218 کی چھلنی سے لازمی گزارنے، انتخابی مہم میں دولت کے بے دریغ استعمال کو کنٹرول کرنے اور مکمل آزاد اور غیر جانبدار فضاء میں انتخاب کے انعقاد کا مطالبہ تواتر سے کر رہے ہیں۔ ان میں آئین کے عین مطابق الیکشن کرانے کی سکت رکھنے والے الیکشن کمیشن کے قیام کا مطالبہ سرفہرست ہے۔ فرق یہ ہے کہ اب پاکستان سے کوسوں دور آباد، کینیڈا کی شہریت اختیار کرنے والے ڈاکٹر طاہر القادری نے کئی سال بعد اچانک پاکستان وارد ہو کر یہ مطالبات منظم انداز میں اٹھا کر اپنے ورکرز کو متحرک کر دیا اور قوم کے باشعور طبقے سے بھی یہ منوا لیا کہ وہ جو مطالبات لے کر آئے ہیں، وہ شدید قومی ضرورت اور عوام کے سینوں میں مچلتی خواہشات کے عکاس ہیں۔ جان کی امان پا کر عرض کرتا ہوں کہ علامہ صاحب کی ڈرامائی شخصیت پاکستان میں ان کا مختصر اور ڈگمگایا ہوا سیاسی کیریئر اور ان کی بے قابو خود پسندی، ان کے مطالبات کی سچائی کے باوجود، وہ دھرنے کے زور پر اپنے مطالبات منواتے نظر نہیں آتے۔ انہیں ایک قابل اعتماد، پاکستانی سیاست میں سرگرم سیاسی جماعت کی عملی حمایت مطلوب تھی، لیکن ایم کیو ایم کے بعد اب عمران خان بھی ان کے مطالبات کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اب ان سے دور ہیں۔ اس کے باوجود یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ علامہ طاہر القادری نے میڈیا کے طویل ملے ہوئے وقت کا بہترین استعمال کر کے پہلی مرتبہ آئین پاکستان کے بارے میں پاکستانی عوام کی انتہائی موثر Mass Education کی ہے جو اپنی جگہ بڑی قومی خدمت ہے۔ انہوں نے دھرنے کے پہلے خطاب میں جس آسان فہم طریقے سے عوام کو سمجھایا ہے کہ آئین کی کونسی کونسی شق غیر جانبدار، آزاد اور شفاف انتخاب کے لئے کیا کیا تقاضا کرتی ہے، یہ عوامی بیداری کی ایک موثر اور قابل قدر کاوش ہے۔ پھر انہوں نے تجزیئے سے ثابت کیا کہ ان آئینی دفعات کا جاری انتخابی عمل میں کوئی عمل دخل نہیں اور یہ فقط کتابی ہیں۔ اس طرح علامہ طاہر القادری کا دھرنا پاکستانی قومی سیاست میں ارتقائی فضاء پیدا کرنے میں معاون ہو گا۔ جس طرح آزاد عدلیہ، گڈ گورننس، انسداد کرپشن، خاندانی جمہوریت، ٹیکس چوری، قرضہ خوری اور انتظامی اختیارات کا غلط استعمال ہماری قومی سیاست کے اہم موضوع بن گئے ہیں، اسی طرح اب ”آئین کے عین مطابق انتخابات کا انعقاد“ بھی قومی سیاسی ابلاغ میں اہم جگہ بنائے گا اور اس میں طاہر القادری کا منظم اور شدت سے یہ مطالبہ اٹھانا ایک اہم ریفرنس بنے گا۔ ویسے علامہ صاحب کے پاس بہترین راستہ یہ ہے کہ آئین کے حوالے سے غیر آئینی انداز کے انتخاب کے انعقاد سے متعلق جو سوالات انہوں نے اٹھائے ہیں، ان کو اگر وہ عدالت میں لے جائیں اور اپنی سرگرمیوں سے اس موضوع پر میڈیا کی زیادہ سے زیادہ کوریج لیں (جس کی سکت انہوں نے ثابت کر دی ہے) تو موجودہ حالات میں دھرنے اور لانگ مارچ سے زیادہ موثر ہو سکتا ہے۔ اگر وہ یہ کر گزرے تو انتخابی مہم میں اسٹیٹس کو سے قدرے دور سیاسی جماعتیں اور کارکن ان کے ہمنوا بننے پر مجبور ہو جائیں گے جس کے خوشگوار نتائج ہونے والے انتخابات کے حوالے سے نکلیں گے۔
رینٹل پاور کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے وزیراعظم سمیت 16 ملزموں کی گرفتاری کے واضح حکم نے ریاست کے اہم ترین ادارے کی حیثیت سے بے پناہ تقویت پہنچائی اور اس عوامی یقین میں اضافہ ہوا ہے کہ پاکستان میں انصاف کی فراہمی میں ٹاپ ڈاؤن عمل شروع ہو گیا ہے جو 62 سال سے ڈاؤن ٹاپ تھا۔ اس کی عملی صورت اور اس پر عوام کا بڑھتا یقین بلاشبہ ایک عظیم کامیابی ہے جو پاکستان کو مطلوب تبدیلی کی جانب بڑھا رہی ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ اور دھرنے نے جس طرح تقریباً شروع ہوئی انتخابی مہم کو سائڈ لائن کر دیا، اس نے سٹیٹس کو کے دائرے میں سرگرم سیاسی جماعتوں کو ایک مشترکہ فکر میں مبتلا کر دیا۔ اپوزیشن کی جماعتوں نے مل کر ”جمہوریت کی بقاء“ اور اسے جاری و ساری رکھنے کے لئے جس عزم کا اظہار کیا ہے، اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ ملک بھر کی سیاسی جماعتوں کا ایک قومی موقف ہے۔ اہم ترین یہ ہے کہ جناب میاں نواز شریف اس قومی موقف کی تشکیل میں بلوچ سیاست دانوں کو شامل کرانے میں کامیاب ہوئے، لیکن یہ عزم ادھوری جمہوریت کی بقاء اور استحکام کا عزم ہے انہیں جمہوریت کو شفاف اور مکمل طور پر آئین کے تابع بنانے کی طرف ہر صورت آنا پڑے گا،وگرنہ بیمار اور ادھورا جمہوری عمل، انتخاب کے انعقاد کے بعد پھر لڑکھڑا جائے گا۔
تازہ ترین