• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کے اخبار میں ڈاکٹر طاہر القادری کے حوالے سے کچھ خبریں اور تحریریں ایسی ہیں کہ انہیں موضوع بنانے کو جی چاہ رہا ہے۔آئیے سب سے پہلے تو نوازشریف کے فرمان پر غور کرتے ہیں ۔ فرمانروائے لاہورفرماتے ہیں”ایک دوسرے کو گالیاں دینے والے اب اتحادی ہیں“۔ یہ جملہ نواز شریف کی زبان سے مجھے بڑا عجیب لگا ہے ۔میری بحث قطعاً اس بات پر نہیں ہے کہ اس معاہدے سے ڈاکٹر طاہرالقادری آصف زرداری کے اتحادی بنے ہیں یانہیں بنے۔میرا سوال تو صرف اتنا ہے کہ نواز شریف جنہوں نے آصف زرداری کے اتحادی بننے کا سلسلہ جیل سے شروع کیاتھا،آپس میں کئی معاہدے بھی کئے ،مل کر حکومت بھی بنائی۔ ”مرکز میں تم اور صوبے میں ہم “کی بنیاد پر پانچ سال ساتھ بھی دیا،کیا انہیں یہ بات زیب دیتی تھی۔کیا وہ بھول گئے،آصف زرداری کے ساتھ اتحادی عمل سے پہلے کونسی ایسی گالی رہ گئی تھی جو انہوں نے آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو کو نہیں دی تھی۔ جعلی تصویروں تک معاملہ پہنچا دیا تھا۔ جی چاہتا ہے کہ میں کچھ ماضی کے اخبارات ان کے سامنے رکھ دوں مگر جانے دیجئے۔ ویسے بھی آصف زرداری دوچار روز میں ان سے ملنے آرہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن ارشاد فرماتے ہیں”الیکشن ملتوی کرانے کی کوشش ناکام بنادی گئی“۔ شہباز شریف نے بھی مولانا کے لمحہ لمحہ بدلتے نقشِ قدم پر پاؤں رکھتے ہوئے یہی فرمایا ”جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی کوشش ناکا م ہوگئی“۔ ان دونوں لیڈران کرام کو یک زباں دیکھ کر مت پوچھئے ولولے دلِ ناکردہ کار کے۔ سرمایہ دار شوسلسٹ وزیراعلیٰ سے مودبانہ عرض ہے کہ میرے خیال میں تو وہ جمہوریت ڈی ریل ہوگئی ہے جس میں انہوں نے اقتدار میں آنا تھا وہ ریل گاڑی پٹڑی سے اترچکی ہے جوخاندانِ شریف و زردارکی بادشاہت کی طرف رواں دواں تھی ۔روکنے والوں نے راستہ روک لیا ہے، لوگوں نے ابھی سے ان کاغذات کی فوٹو کاپیاں کرالی ہیں جن میں قرضے معاف کرانے کی رودادیں جمع ہیں۔ اب شہنشاہیت ِ شریفیہ کیلئے مولانا الوری کے ساتھ کیا جانے والا معاہدہ ہی کافی ہے جس کی کئی کاپیاں قومی اسمبلی کے ریکارڈ سے نکلوالی گئی ہیں۔ بیچارے مولانا فضل الرحمن بھی اس مرتبہ الیکشن نہیں لڑ سکیں گے کچھ لوگ ان کے متعلق بھی بڑے مضبوط ثبوت لئے پھرتے ہیں۔ میں پورے اعتماد سے کہہ رہا ہوں کہ ڈیزل اور آٹے کے پرمٹوں کی فروخت کا کاروباردوبارہ شروع نہیں ہو سکے گا۔
ادھر دیکھئے !جماعت اسلامی کے منور حسن کا بیان عجیب و غریب ہونے کی حد تک دلچسپ ہے ۔تاج دارِ منصورہ کہتے ہیں”لانگ مارچ بھونڈے انجام کو پہنچا“۔ ہاں ان کے لانگ مارچ کا اچھا انجام تب ہوتا کہ گولی چلتی، لوگ مرتے ایک اور لال مسجد کا واقعہ اسلام آباد کی سرزمین دیکھتی۔ ڈی چوک کی قتل گاہ آباد ہوتی،خون کے دریا بہتے، فوج بیرکوں سے باہر آتی، ظلم کی ایک نئی تاریخ لکھی جاتی یا پھر رحمن ملک کا کوئی خودکش حملہ آورنقطہٴ انجماد کو گرمانے میں کامیاب ہوجاتا یقینا ایسا کچھ نہ ہونے پر انہیں دکھ ہوا ہے۔ اتنے پُرامن احتجاج پر اتنے خوصورت اختتام پر مایوسی ہوئی ہے ۔تمام ملک نے اپنے ٹیلی ویژن پر دیکھا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے تقریباً تمام مطالبات تسلیم کر لئے گئے مگر منور حسن کے خیال میں ان کا ایک مطالبہ بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ لگتا ہے ان کی سماعت بھی اس لمحہٴ افسوس سے خاصی متاثر ہوئی ہے۔
سینیٹر پرویز رشید نے لانگ مارچ کے اختتام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے”لانگ مارچ اندھی تقلیدکرنے والوں کے استحصال کا بدترین مظاہرہ تھا“ کیا کہنے پرویز رشید کے نقطہ نظر کے۔ وہ لوگ جو ڈاکٹر طاہر القادری کے کہنے پر گھروں سے نکل آئے تھے ان کی عظمت و ہمت پر سارا ملک قربان ہواجارہا ہے کہ ملک کی خاطر انہوں نے جان ہتھیلی پہ رکھ کر اسلام آباد کے برفاب راتوں سے نبردآزمائی کی ہے۔ انہیں” اندھی تقلید کرنے والے لوگ“ قرار دینا کم ازکم اُس سینیٹر پرویز رشید کا حق نہیں تھا جو نواز شریف کی اندھی تقلید میں اس مقام تک پہنچ گئے ہیں جہاں صرف آنکھیں ہی نہیں سر بھی شانوں سے اتار کے شیلف میں رکھنے پڑتے ہیں ۔جاتی عمرہ جانے والے اکثر لوگ گھروں سے نکلنے سے پہلے یہ کام کرنا نہیں بھولتے ۔
اپنے نذیر ناجی نے فرمان جاری کیا ہے کہ ”یزیدی اور حسینی طاقتوں میں سمجھوتہ ہوگیا“۔ میں پچھلے تیس سالوں سے انہیں پڑھتا چلا آرہا ہوں ان کے تجزیوں کا بہت مداح بھی ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ صرف حسینیت کے حق میں لکھتے ہیں البتہ ان کی حسینیت ہمیشہ اقتدار کے ایوانوں میں اپنے خیمے لگاتی ہے میرا خیال ہے انہیں زیب نہیں دیتا کہ وہ اس معاہدے کو یزیدیت اور حسینیت میں سمجھوتہ قرار دیتے مگر بزرگ ہیں ان کا کہا سر آنکھوں پر۔
میرے دوست خالد مسعود خان نے لکھا ہے ”یہ معاہدہ صفر جمع صفر سے کچھ زیادہ نہیں تھا“ مجھے علم ہے کہ وہ مذہبی عقائد کی بنیاد پر ڈاکٹر طاہر القادری کو پسند نہیں کرتے اور یہ ان کا حق ہے۔کسی کی پسند و ناپسند پر تبصرہ کرنے کا مجھے کوئی حق نہیں مگر اپنے روحانی پیشوا ہارون رشید کے نقشِ کفِ پا کو چومتے ہوئے مسلسل ڈاکٹر طاہرالقادری کے خلاف لکھنا مجھے اچھا نہیں لگا ۔ خالد مسعود خان ایک تبدیلی کی تمنا سے بھری ہوئی شخصیت ہیں۔ اس کی طرف سے اسٹیٹس کو کی حمایت بڑی عجیب محسوس ہوئی۔ وہ عمران خان کے ساتھ ہیں اور ملک کو’ خاندانِ آصف شریف ‘ سے نجات دلانا چاہتے ہیں مگر اس مرتبہ ان کا کردار تحریک انصاف کیلئے بھی بہتر نہیں تھا ۔انہی جیسے ساتھیوں کے مشورے پر عمران خان ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ شامل نہیں ہوئے اور نہ صرف خود نقصان میں رہے بلکہ جمہوریت کو بھی انہی کی وجہ سے اس لانگ مارچ کا سو فیصد ثمر نہیں مل سکا اگر انہیں میری بات کا یقین نہ آئے تو وہ سلیم صافی کا یہ جملہ پڑھ لیں کہ ”تحریکِ انصاف کی قیادت نے سیاسی بلوغت کا ثبوت دیا“۔ کیسا ہے خالد مسعود خان ! بہر حال عمران خان سے گزارش ہے کہ خان صاحب یہ سیاسی بلوغت نہیں، سیاسی بچگانہ پن ہے۔ یہ ان قوتوں کے ساتھ چلنے کا عمل ہے جن سے عوام نجات چاہتے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ آپ نے وہی کچھ کیا جو نوازشریف اور مولانا فضل الرحمن چاہتے تھے، جو آصف زرداری کی خواہش تھی، جو رحمن ملک کی تمنا تھی۔ یہ بات ابھی تک عوام کے حلق سے نہیں اتر رہی کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے بھی وہی مطالبات تھے جو خان صاحب آپ کے تھے اور وہ لاکھوں لوگوں کے ساتھ ڈی چوک پر موجود تھے مگر چار دن تک آپ وہاں نہ پہنچ سکے۔ عوام کے خیال میں ایسی سیاسی بلوغت پرتف ہے۔ میں عوام کی طرف سے دست بستہ عرض کر رہا ہوں کہ اب آپ اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں اور حکومت کو مجبور کریں کہ وہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ کئے ہوئے معاہدے پر من و عن عمل کرے تاکہ چوروں اور لٹیروں کو انتخابی عمل سے نکالا جا سکے۔
تازہ ترین