• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تبدیلی کے نعرے اور تیزی سے بدلتی ہوئی ملکی صورتحال سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں ۔ کچھ کے جوابات بھی آ رہے ہیں مگر جب تک عملی صورت سامنے نہیں آتی عوام کے اندر تو بے یقینی لازمی رہے گی۔ کوئٹہ میں کتنا بڑا سانحہ ہوا ،118سے زائد بے گناہ افراد جاں بحق ہوگئے۔ حکمرانوں کے کانوں پہ اُس وقت تک جوں نہ رینگی جب تک عوام سڑکوں پر نہ نکلے۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ انوکھا واقعہ ہے کہ لواحقین انصاف کیلئے 86/افراد کی میتوں کے ساتھ چار روز تک منفی درجہ حرارت میں دھرنا دیئے بیٹھے رہے۔ کسی وزیر، مشیر ، وزیراعلیٰ کو توفیق بھی نہ ہوئی کہ وہ یہاں آکر ہمدردی کے دو بول بھی بولتے ۔ آخر کار حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور صوبہ بلوچستان میں وزیر اعلیٰ کو برطرف کر کے گورنر راج لگا دیا گیا۔ گو بلوچستان کے مسائل کا یہ کوئی مستقل حل نہیں مگر جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو وقتی طور پر کچھ تشنگی ہوگئی۔ یہ معاملہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری جو پاکستان آئے اور 23 دسمبر 2012ء کو مینار پاکستان کے سائے تلے ایک بہت بڑے جلسے میں اعلان کر چکے تھے کہ الیکشن سے پہلے انتخابی نظام میں اصلاحات کی جائیں ۔ اس کیلئے 10جنوری کی حکومت کو مہلت دی اور اعلان کیا کہ اگر حکومت ایسا نہیں کرتی تو وہ 14جنوری کواسلام آباد تک لانگ مارچ کریں گے اور دھرنا دیں گے اس دوران حکومت کی طرف سے چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی نے مذاکرات کئے مگر ناکام رہے اور ڈاکٹر طاہر القادری اپنے اعلان کے مطابق 13 جنوری کی دوپہر لانگ مارچ کیلئے نکل پڑے انہوں نے 14جنوری کی رات اسلام آباد کے ڈی چوک میں جا کردھرنا دیا اور حکومت سے چار مطالبات کئے کہ جب تک ان پر عمل نہیں ہوتا وہ ادھر ہی رہیں گے۔ اس دوران مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے ردعمل بھی سامنے آیا اور اپنی توپوں کے رخ ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف کر دیئے کہ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ اسلام آباد میں 40لاکھ افراد کو لائیں گے مگر ایسا نہیں ہوا ۔ ایم کیو ایم نے پہلے31 دسمبر کو لانگ مارچ میں شرکت کا اعلان کیا لیکن اگلے ہی روز یہ اعلان واپس لے لیا ۔ عمران خان نے اس دوران پریس کانفرنس میں طاہر القادری کے ایجنڈے کے زیادہ تر حصے کی حمایت کی اور کہا کہ ہماری اور طاہرالقادری کی اسٹرٹیجی مختلف ہے۔ انہوں نے سات نکات دیئے کہ تمام جماعتوں کی مشاورت سے نگران حکومت بنائی جائے، الیکشن بروقت کرائے جائیں ، کوئی بھی تبدیلی صرف الیکشن کے ذریعے آنی چاہئے، آصف علی زرداری کے ہوتے ہوئے شفاف الیکشن نہیں ہو سکتے یہ فوری طور پر استعفیٰ دیں ۔ الیکشن کمیشن پری پول ریگنگ نہیں رکوا سکا۔ دوسری طرف نواز شریف نے اپوزیشن کی دس جماعتوں کو رائے ونڈ میں اکٹھا کر کے دس نکاتی مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا ۔ اس کے مطابق ڈاکٹر طاہر القادری کے مطالبات کو یکسر مسترد کر دیا اور کہا کہ کسی بھی غیر جمہوری اقدام کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ آئین کے خلاف جو بھی جائے گا اس کی مزاحمت کی جائے گی ۔آئین کو چھیڑنے کی کوشش کی گئی تو فیڈریشن نہیں بچے گی،طاہرالقادری آئین کو پامال کررہے ہیں ۔ البتہ جن دس نکات کا اعلان کیا ان میں زیادہ تر وہی تھے جو عمران خان نے بھی دیئے مثلاً فوری طور پر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر کے ملک میں بے یقینی کی صورتحال کو ختم کیا جائے۔ نگران حکومت کے قیام کیلئے تمام سیاسی جماعتوں خواہ وہ اسمبلی میں ہوں یاباہر ان سے مشاورت کی جائے۔ الیکشن کمیشن پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ الیکشن کمیشن ازسر نو تشکیل کا مطالبہ غیر آئینی ہے۔ اپوزیشن کی دس جماعتوں نے ان تحفظات کا اظہار بھی کیاکہ اس وقت ملک کے جو بدترین حالات ہیں وہ حکومت کی بیڈ گورننس کی وجہ سے ہیں اور اگر فوری طور پر الیکشن شیڈول کا اعلان نہیں ہوتا تو حالات پر قابو پانا مشکل ہوگا۔ ایک لحاظ سے اس اعلامیہ نے حکومت کو حوصلہ دیا کہ اپوزیشن بھی ان کے موقف کے ساتھ ہے۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے تو یہ بیان بھی داغ دیا کہ اپوزیشن نے سیاسی پختگی کا ثبوت دیا ہے اس کا ہم خیرمقدم کرتے ہیں۔ اسی روز پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمرزمان کائرہ نے ڈاکٹر طاہر القادری کے مطالبات کو مسترد کر دیا اور کہا کہ اسمبلیاں اور الیکشن کمیشن آئینی ادارے ہیں جو کسی کی خواہش پر ختم نہیں ہونگے۔
دیکھا جائے تو ایک طرف طاہر القادری کے7نکات اور اسلام آباد کے ڈی چوک میں ہزاروں کی تعداد میں پُرعزم لوگ جن میں بوڑھے ، جوان ، خواتین طالبات اور شیر خوار بچے بڑی ہمت اور استقامت کے ساتھ چار روز سے سخت ترین موسم کی سختیاں برداشت کر رہے تھے ۔ دوسری طرف اپوزیشن کی دس جماعتوں کے دس نکات ، عمران خان کے7نکات اور حکومت کی نہ پھر اچانک صورتحال یکسر بدل گئی اور حکومت کوچوہدری شجاعت حسین کی سربراہی میں اپنی دس رکنی ٹیم کو ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ مذاکرات کیلئے کنٹینر میں بھجوانا پڑا۔ 5گھنٹے مذاکرات کے بعد فریقین ایک معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگئے جس کے بعد ایک چار نکاتی اعلامیہ جاری کیا گیا کہ اسمبلیاں 16مارچ سے پہلے تحلیل کر دی جائیں گی اور 90دن کے اندر اندر انتخابات ہوں گے۔ انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے کاغذات کی جانچ پڑتال 30دن کے اندر ہوگی اور معیار آئین کی دفعہ 62/اور 63ہوگا اور یہ فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا۔ نگران وزیراعظم کا اعلان مکمل اتفاق رائے سے کیاجائے گا۔اس کیلئے ڈاکٹر طاہر القادری اور حکومتی اتحادی دو نام پیش کریں گے۔ عوامی نمائندگی کے ایکٹ 1976کے سیکشن76سے86کو نافذ کیاجائے گا۔ شفاف اور فوری الیکشن کیلئے سپریم کورٹ کے 8جون 2012ء کے فیصلے پر سو فیصد عمل کیاجائے گا۔ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے حوالے سے آئینی ماہرین کی مشاورت کی ضرورت ہے اس پر دوبارہ ڈسکس کی جائے گی۔
بظاہر وقتی طور پر معاملات طے ہوگئے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ کس کو کیا ملا اور کو ن کس کے ایجنڈے پر تھا اور کیا چاہتا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ جتنا بھی شور شرابا کیا گیا خواہ وہ ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے ہو یا اپوزیشن جماعتوں اور حکومت کی طرف سے اور جن نکات پر بحث کی گئی یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ آئین میں موجود ہیں۔ اس پر صحافی اور کالم نویس اپنی رائے کااظہار بھی کرتے رہے کہ ان پر عمل ہونا چاہئے۔ راقم نے ان نکات کو 30ستمبر، 4نومبر،11نومبر اور 23دسمبر کے اپنے کالموں میں ہائی لائٹ کیا کہ ملک میں صحیح طور پر عام لوگوں کی نمائندگی کیلئے انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہے اور امیدواروں کی جانچ پڑتال آئین کی شق 62/اور 63کے تحت ہونی چاہئے جبکہ الیکشن میں حصہ لینے سے پہلے امیدواروں کی اسکروٹنی مکمل کرنی چاہئے تب جا کر انہیں الیکشن مہم چلانے کی اجازت ہو۔ آج بھی یہی خوشی ہے کہ اس حوالے سے معاہدہ ہوا لیکن اب اصل سوال اسی جگہ پہ ہے کہ کیا آئین اور قانون کے مطابق الیکشن کرائے جا سکیں گے اور کیا ٹیکس چور ، جعلی ڈگری والوں کے رستے رک جائیں گے اور صادق و امین افراد اوپر آ سکیں گے۔ کیا دودھ کے رکھوالے ” بلے“ ہو سکتے ہیں؟ ایک بات تو طے ہوچکی ہے کہ اب باشعور عوام کسی کو اپنے ووٹوں پر سودے بازی کی اجازت نہیں دیں گے۔
تازہ ترین