• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں یہ کالم لندن میں دریائے ٹیمز کے کنارے ایک فلیٹ کی بالکونی میں بیٹھا لکھ رہا ہوں۔ ہفتہ 11مئی 2019ءکی خوبصورت صبح کے مناظر سے بھی لطف اندوز ہو رہا ہوں لیکن دل کچھ افسردہ اور ذہن بوجھل ہے۔ گزشتہ رات اہلِ دل اور وطن سے محبت کرنے والے لندن میں مقیم کچھ پاکستانی دوستوں کے ساتھ اسی فلیٹ پر ایک نشست ہوئی تھی۔ سب لوگ اپنے پاکستان کے بارے میں بہت فکرمند اور پریشان تھے۔

مجھے اچانک لندن آنا پڑا، میری چہیتی بیٹی بینش اور میرے پیارے داماد الیکس کو اللہ پاک نے ایک بیٹے سے نوازا ہے۔ میں اپنے نومولود نواسے سے ملنے یہاں آیا تھا، جس کا نام نوح نفیس رکھا گیا ہے۔ ہمارے دونوں خاندان اس ننھے شہزادے کی آمد پر خوش ہیں۔ میں لندن ایئر پورٹ پر اترا تو بیرسٹر صبغت اللہ قادری اور ان کی اہلیہ اور ہماری بھابھی کرینا نے میرا استقبال کیا۔ بیرسٹر قادری کی نہ صرف برطانیہ کے لئے بہت خدمات ہیں بلکہ صبغت اللہ ایوب خان کے مارشل لاء میں پہلے سیاسی اسیر تھے۔ 60ء کے عشرے میں ہی وہ لندن آ گئے تھے اور یہاں سے انہوں نے پاکستان کی جمہوری تحریکوں کے لئے کام کیا۔ گزشتہ رات برطانیہ میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر واجد شمس الحسن، رکن سندھ اسمبلی لال چند اور لندن میں مقیم کئی پاکستانی دوست بیرسٹر قادری کے ہاں جمع تھے۔ اس نشست میں سب لوگ انتہائی تشویش کے عالم میں مجھ سے یہ سوال کر رہے تھے کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ میرے پاس کسی بھی سوال کا جواب نہیں تھا۔ زندگی میں چند مواقع ایسے آئے ہوں گے، جب اپنے آپ کو بے بس محسوس کیا کیونکہ پاکستان کے بارے میں کہیں سے بھی کوئی اچھی خبر نہیں آ رہی۔ پاکستان کا کیا ہوگا؟ اس نشست میں بار بار یہی سوال ہو رہا تھا۔ پاکستان کی معیشت میں تباہی کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، اس کے بارے میں سب لوگ بہت پریشان تھے۔ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) جس طرح پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے، دوستوں کے خیال میں اس دباؤ کا تعلق صرف پاکستان کی معیشت سے نہیں بلکہ پاکستان کی مستقبل کی داخلی اور خارجی سیاست سے بھی ہے۔ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنے میں بہت تاخیر کی۔ اگر پہلے معاملات طے کر لئے جاتے تو نتائج قدرے بہتر ہوتے۔ اب تو آئی ایم ایف کی اپنے ایجنڈے پر عمل کرانے کی پوزیشن زیادہ مضبوط ہے۔ ملک کے اندر پولٹیکل پولرائزیشن نے حکومت کی پوزیشن کو کمزور کیا ہے۔ باہر بیٹھے ہوئے دوست اس معاشی بحران کو ایک بڑے قومی بحران میں بدلتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ اس کی تمام تر ذمہ دار موجودہ حکومت اگرچہ نہیں ہے لیکن داخلی اور سیاسی بحران کو اس نے نہ روکا تو پھر حالات کی تمام تر ذمہ داری اس پر عائد ہوگی۔ تحریک انصاف میں تاریخ، سیاست اور فلسفہ کا گہرا ادراک رکھنے والے لوگ بہت کم ہیں اور ان کا کوئی اہم کردار بھی نہیں ہے۔ لوگوں کو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان میں ڈالر 200روپے تک جائے گا۔ 700ارب روپے کے ٹیکسوں کے استثنیٰ کی واپسی، نئے ٹیکسوں کے نفاذ، بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ اور دیگر اقدامات سے صرف مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ ہی نہیں ہوگا بلکہ اب حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ وہ ’’انارکی‘‘ پیدا ہو سکتی ہے، جس کا ہم نے اب تک تجربہ نہیں کیا۔

سب لوگوں کو اس بات پر حیرت تھی کہ پاکستان میں جس شدت کا بحران پیدا ہو رہا ہے اس کی سنگینی کا کسی کو احساس ہی نہیں ہے۔ یہاں کی سیاسی قیادت یہ سمجھ رہی ہے کہ یہ چار عشروں کے حالات کا تسلسل ہے۔ ان چار عشروں میں پاکستان دہشت گردی کا شکار بھی رہا، پھر بھی معاملات قابو میں رہے لیکن اس سیاسی قیادت کو یہ احساس شاید نہیں ہے کہ چار عشروں سے جاری دہشت گردی کے اسباب خارجی تھے۔ پہلی مرتبہ داخلی بحران غیر مصنوعی اور حقیقی طور پر پیدا ہو رہا ہے۔ پہلے والا بحران بہت حد تک مصنوعی تھا، جو بعض بیرونی اور اندرونی حلقوں کے مفادات کا پیدا کردہ تھا۔ پاکستانی سماج کے موجودہ داخلی تضادات کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت مالیاتی انتظام کے لئے نیا مشیر خزانہ، نیا گورنر اسٹیٹ بینک اور نیا چیئرمین ایف بی آر لائی ہے۔ نئے چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کو میں جانتا ہوں۔ ان کا اس عہدے کے لئے انتخاب ایک بہتر فیصلہ ہے۔ وفاقی سیکرٹری خزانہ اور ریونیو کے لئے یونس داغا کا تقرر بھی اچھا فیصلہ ہے لیکن اب چیزیں صرف مالیاتی انتظام کو بہتر بنانے سے ٹھیک نہیں ہوں گی۔ اس کے لئے وقت گزر چکا ہے۔ باہر بیٹھے ہوئے دوستوں کے تجزیوں اور معلومات سے میں نے محسوس کیا کہ ہم تاریخ کے ایک بحران سے دو چار ہو رہے ہیں۔ یہ میری ذاتی رائے ہے کہ اس وقت تمام سیاسی قوتوں کو سارے اختلافات بھلا کر ملک کو بحران سے نکالنے کے لئے ایک قومی ایجنڈا اپنانا چاہئے۔ سیاسی قوتوں کو اتفاق رائے سے ایک قومی حکومت تشکیل دینا چاہئے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کی شمولیت ہونا چاہئے۔ اس سے پہلے کہ یہ کام غیر سیاسی قوتیں کریں جس طرح چین نے 10سال کے لئے صرف اپنے داخلی امور سنوارے تھے اسی طرز پر پاکستان میں قومی حکومت تین سال کے لئے قائم ہو۔ قومی حکومت جنگوں اور بحرانوں میں بنائی جاتی ہے۔ تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ہیں۔ سوویت یونین معاشی بحران کی وجہ سے ٹوٹا۔ آنے والی نسلوں کو ایک بہتر پاکستان دینے کیلئے یہ ضروری ہے کہ فیصلہ سیاسی قوتیں خود کریں۔ کوئی بھی سیاسی رہنما یہ بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگا لیکن بہتر یہ ہے کہ یہ بات کہیں اور سے نہ آئے۔ بحران غیر معمولی ہے۔ ان معاشی حالات میں سیاسی اور داخلی استحکام ممکن نہیں۔ دریائے ٹیمز کے کنارے خوبصورت منظر میں فیضؔ کی یہ نظم یاد آ رہی ہے۔

آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی

ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں

حرفِ حق دل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح

آج اظہار کریں اور خلش مٹ جائے

تازہ ترین