• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ نے مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا کا نام تو سنا ہوگا۔ ان کا پیدائشی نام تو روشن اختر تھا مگر جب مغلیہ سلطنت کے 13ویں تاجدار کی حیثیت سے تخت نشین ہوئے تو درباریوں نے انہیں ابوالفتح نصیرالدین روشن اختر محمد شاہ کا خطاب دیا۔ اب اس قدر طویل نام کون یاد رکھے چنانچہ یہ صاحب تاریخ میں محمد شاہ رنگیلا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ محمد شاہ رنگیلا کی رنگین مزاجی کے قصے عام ہیں۔ مورخین بتاتے ہیں کہ بادشاہ سلامت جھروکہ درشن میں بیٹھ کر بٹیروں، کتوں یا ہاتھیوں کی لڑائی سے جی بہلاتے رہتے۔ محمد شاہ رنگیلا خود ہی انوکھے نہ تھے بلکہ ان کے شوق بھی نرالے ہوا کرتے۔ جب دل چاہتا خواتین کے لئے مخصوص ریشمی لباس زیب تن کرکے دربار میں آجاتے۔ ان کے تاج میں تو قیمتی ہیرے تھے ہی، پائوں کی زینت بننے والی جوتیوں میں بھی موتی چمک رہے ہوتے۔ متلون مزاجی بادشاہ سلامت کی شخصیت کا اہم جزو تھی۔ صبح جو حکم جاری فرماتے شام تک اس کے برعکس کوئی نیا فرمان جاری کر دیا جاتا۔ بادشاہ سلامت نے فنون لطیفہ کو فروغ دینے کا عہد کر رکھا تھا یہی وجہ ہے کہ ان کے دربار میں نقالوں، بھانڈوں، ماہرینِ لطیفہ گوئی اور اکابرینِ کاسہ لیسی کا جمگٹھا لگا رہتا۔ اس کے علاوہ انواع و اقسام کے قوال، ڈھولک نواز، طبلچی، دھمدھی، سبوچہ نواز بھی بادشاہ سلامت کو حکمرانی کے جھنجھٹ سے فرصت مہیا کرنے کو دستیاب رہتے۔ یہ طوائفوں کے عروج کا زمانہ تھا۔ نور بائی اور ادا بیگم کے چرچے عام تھا۔ بادشاہ سلامت کے درباریوں کا استدلال تھا کہ یہ تمام غیر نصابی سرگرمیاں دراصل اس ذہنی دبائو کو کم کرنے کے لئے تھیں جو بارِ حکمرانی کے سبب محمد شاہ رنگیلا کو پریشان کئے رکھتا تھا۔ بہر حال اس زمانے میں بھی لوگوں نے ان مشغولات و معمولات کو رنگین مزاجی سمجھا اور مغلیہ سلطنت میں ڈیڑھ اینٹ کی ریاستیں بننا شروع ہو گئیں۔ اودھ، بنگال اور دکن جیسی ریاستوں کے گورنروں نے بغاوت کردی۔ محمد شاہ رنگیلا نے ان باغیوں کی سرکوبی کی کوئی کوشش نہ کی بلکہ اپنی راجدھانی میں مست الست رہے یہاں تک کہ غیر ملکی فاتحین نے صورتحال سے فائدہ اُٹھانے کے بارے میں سوچنا شروع کردیا۔

ایران کے بادشاہ نادر شاہ نے اپنی فوجوں کو ہندوستان کی طرف پیش قدمی کا حکم دیا تو سہمے ہوئے درباری دوڑتے چلے آئے اور محمد شاہ رنگیلا کو اس اُفتاد کی اطلاع دی۔ بادشاہ سلامت نے کمال بے نیازی سے کہا، ہنوز دہلی دور است۔ یعنی ابھی تو نادر شاہ کی فوجیں دہلی سے بہت دور ہیں، انہیں یہاں تک پہنچنے میں خاصا وقت درکار ہوگا۔ نادر شاہ ایرانی کی فوجیں بپھری ہوئی لہروں کی طرح آگے بڑھتی رہیں اور محمد شاہ رنگیلا کے دربار میں یہ یہی جگالی کی جاتی رہی کہ ہنوز دہلی دور است۔ جب نادر شاہ کا فوجی قافلہ دہلی کے قریب آن پہنچا تو بادشاہ سلامت کو طوعاً و کرہاً شاہی فوج کی صف بندی کرنا پڑی۔ محمد شاہ رنگیلا اس کروفر کیساتھ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے نکلے کہ ان کی فوج میں لڑاکا سپاہیوں کے مقابلے میں خدمتگاروں، باورچیوں، ماشکیوں، قلیوں، طوائفوں، گلوکاروں اور موسیقاروں کی تعداد لڑاکا فوج کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔ کرنال کے میدان میں دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا تو نادر شاہ کے چند ہزار سخت جان فوجیوں نے مغلیہ سلطنت کے لاکھوں فوجیوں پر مشتمل لشکر جرار کو چند گھنٹوں میں شکست دیدی۔ محمد شاہ رنگیلا کو قیدی بنا کر نادر شاہ دہلی میں داخل ہوا۔

شہر میں داخل ہوتے ہی نادر شاہ دُرانی نے دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور مورخین کے مطابق ایک ماہ تک لوٹ مار کے ذریعے ہتھیائے گئے زیورات اور سونے کے برتنوں کو پگھلا کر اینٹوں میں ڈھالنے کا سلسلہ جاری رہا تاکہ انہیں منتقل کرنے میں آسانی ہو۔ مشہورِ زمانہ کوہ نور ہیرے کے علاوہ جو مال و دولت اس وقت ایران منتقل ہوا، آج کے دور میں اس کا تخمینہ 156ارب ڈالر لگایا جاتا ہے۔ لوٹ مار کے علاوہ نادر شاہ دُرانی نے اپنے سپاہیوں کو قتلِ عام اور مقامی خواتین کی آبروریزی کی کھلی چھٹی دیدی۔ دہلی کا لاہوری دروازی، فیض بازار، کابلی دروازہ اور دیگر علاقے لاشوں سے اٹ گئے۔ بعد ازاں جھوٹی روایات کے ذریعے نادرشاہ کو پرلے درجے کا احمق ثابت کر کے اس عبرتناک شکست کا بدلہ لیا گیا۔ ہمارے عہد کے ایک بڑے مزاح نگار شفیق الرحمان نے ’’تزکِ نادری‘‘ میں نادر شاہ کا جی بھر کے مذاق اڑایا اور دیگر سخن وروں نے بھی حسب توفیق بھرپور طبع آزمائی کی اور ’’نادر شاہی‘‘ کی اصطلاح متعارف کروائی گئی۔ آج بھی جب کوئی عجیب و غریب قسم کا حکم آتا ہے تو ہم جھلا کر کہتے ہیں، یہ کیسا نادر شاہی حکم ہے۔ ہمارے مزاح نگاروں نے بھد اُڑانے کے لئے عجیب و غریب تاویلات پیش کی ہیں۔ مثلاً جب نادر شاہ دُرانی نے ہندوستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تو اس نے اپنے درباریوں سے کہا کہ اس حملے کا جواز پیش کریں۔ ایک مشیر نے کہا، حضور! ہم کہہ دیں گے کہ بھائی پھیرو میں نادر شاہ کی پھوپھی جان رہتی ہیں، ہم تو ان سے ملنے آئے تھے ورنہ حملے کی نیت نہ تھی۔ دوسرے نے یہ تاویل پیش کی کہ سب نے بھارت پر حملہ کیا مگر ہم نے نہیں کیا، اس کے بعد کسی اور جواز کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ تیسرے نے کہا، باشاہ سلامت! اتنا عرصہ ہوا ہندوستان پر کوئی حملہ نہیں ہوا، کیا یہ وجہ کافی نہیں۔

میں نے مغلیہ سلطنت کے عہد کمال اور دورِ زوال سے متعلق بیشمار کتابوں کی ورق گردانی کی ہے۔ مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کے حالات زندگی جاننے کے لئے بھی کئی کتابوں کا مطالعہ کیا، جن میں مشہور تاریخ دان ولیم ڈیلرمپل کی کتاب ’’دا لاسٹ مغل‘‘ بھی شامل ہے، لیکن ان میں سے ہر ایک نے یہی کہا کہ فرمانروائی اور بادشاہی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ہے۔ یہاں تک کہ محمد شاہ رنگیلا جیسے رنگین مزاج حکمران بھی یہ نہیں کہہ پائے کہ حکومت کرنا بہت آسان ہے مگر میرے کپتان کا حوصلہ دیکھیں، انہوں نے برملا کہہ دیا کہ اپوزیشن کے مقابلے میں حکومت کرنا بہت آسان ہے۔ کپتان نے کہا ہے تو سچ ہی کہا ہوگا کیونکہ کپتان جھوٹ نہیں بولتا، شاید اس طرح کی حکومت کرنا واقعی آسان ہوتا ہو لیکن عوام کے لئے اس طرح کا طرز حکمرانی جھیلنا بہت دشوار ہوتا ہے۔ حضور! ہنوز دہلی دور است کا راگ درباری چھوڑیئے، عوام کی چیخیں بہت بلند ہوئی جاتی ہیں۔

تازہ ترین