• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرہِّ ارض پر جو موسمی تغیرات دکھائی دے رہے ہیں ان کا زیادہ شکار جنوبی ایشیا ہے۔ موسموں کے آنے جانے کے معمولات میں فرق اتنا زیادہ بڑھ گیا ہے کہ ماہ مئی میں ہمیں ایسے طوفانی جھکڑ اور بارشیں دیکھنے کو مل رہی ہیں جو عموماً جولائی کے اواخر یا اگست کے اوائل میں ہوا کرتی تھیں۔ پیر کے روز لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں منہ زور آندھی اور موسلا دھار بارش سے نہ صرف لیسکو کے 155فیڈر ٹرپ کر گئے بلکہ آسمانی بجلی گرنے سے 4افراد بھی جاں بحق ہو گئے۔ 90کی دہائی کے آغاز میں سائنس دانوں نے پیش گوئی کی تھی کہ مون سون کی بارشوں والا موسم ہر فضائی تغیر سے متاثر ہو جاتا ہے، بحر ہند اور بحر الکاہل کے بخارات بادل بن کر اوپر اٹھتے اور ہوائیں انہیں جنوبی ایشیا لاتی ہیں۔چند در چند وجوہات کے باعث بخارات یعنی بادل پیدا کرنے والا یہ علاقہ وسیع تر ہو تا چلا جا رہا ہے لہٰذا آئندہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور دوسرے ممالک میں بارشیں معمول سے کہیں زیادہ ہوں گی اور سیلاب بھی لائیں گی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ماحولیاتی آلودگی اور گلوبل وارمنگ میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں سے پاکستان شدید متاثر ہو رہا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ایک محتاط اندازے میں بتایا ہے کہ 2030سے 2050کے مابین موسمی تبدیلیوں کی بنیاد پر سالانہ اڑھائی لاکھ افراد موت کا شکار ہو سکتے ہیں اور اس میں صرف وہ تعداد شامل ہے جو موسمی شداید کا شکار ہو گی۔ زمین کا درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ ایندھن کا حد سے زیادہ استعمال ہے جس سے ایک اطلاع کے مطابق مشرقی انٹار کٹیکا کا سب سے بڑا گلیشیر ٹوئن جنوبی سمندری علاقوں کی گرم اور تیز ہوائوں کے باعث پگھلنے لگا ہے۔ یہ پگھل گیا تو سمندر کی سطح 11فٹ بلند ہو جائے گی۔ دنیا کو اس خطرناک مسئلے پر غور کرنا چاہئے کہ یہ انسانی بقا کا مسئلہ بن چکا ہے۔ ستاروں میں بستیاں ضرور بنائیں لیکن دنیا کو بھی تباہ ہونے سے بچائیں۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین