• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حال ہی میں وزیراعظم پاکستان نے پاکستان اسٹیٹ آئل کے بورڈ آف مینجمنٹ کی تشکیل نو کی ہے اور اس نئے بورڈ میں مجھے بھی شامل کیا گیا ہے لیکن11 جنوری کو نئے بورڈ آف مینجمنٹ کی میٹنگ سے پہلے مسلسل اخبارات میں پی ایس او میں ہونے والی کرپشن کے بارے میں مختلف رپورٹس، پی ایس او کے Bakri ٹریڈنگ سے5 بلین ڈالر کے تیل سپلائی کے متنازع معاہدے، حکومت اور واپڈا کی پی ایس او کو تیل کے واجبات کی عدم ادائیگی سے پیدا ہونے والے شدید مالی بحران اور دیگر مسائل کے باعث میں نے وزیراعظم کے مشیر برائے پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین سے پی ایس او کے بورڈ آف مینجمنٹ میں ڈائریکٹر شپ کیلئے معذرت کی۔ ڈاکٹر عاصم حسین نے مجھ سے درخواست کی کہ پی ایس او ایک اہم قومی اثاثہ ہے اور حکومت کی خواہش ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کے ایماندار اور قابل لوگ اس کی مینجمنٹ میں شامل ہوکر ادارے کی کارکردگی کو بہتر بنائیں۔ انہوں نے بتایا کہ Bakri ٹریڈنگ اسکینڈل کی تحقیقات اور حقائق جاننے کیلئے ہم نے آپ سمیت ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ بہرحال ڈاکٹر عاصم کے اصرار پر میں نے اس چیلنج کو قبول کرلیا۔ تحقیقاتی ٹیم اور بورڈ آف مینجمنٹ کی میٹنگ سے پہلے میں نے معاملے کی تفصیل جاننے کیلئے پی ایس او کے ایم ڈی نعیم یحییٰ میر اور چیئرمین سہیل وجاہت سے میٹنگز کیں۔ دوران ملاقات انہوں نے مجھے Bakri ٹریڈنگ کے متنازع معاہدے اور ماضی میں پی ایس او میں ہونے والی اربوں روپے کی کرپشن اور نقصانات کے بارے میں بتایا تو میں ششدر رہ گیا حالانکہ میں متنازع امور پر لکھنے سے گریز کرتا ہوں لیکن اتنے بڑے قومی نقصانات کو دیکھتے ہوئے میں نے فیصلہ کیا کہ میں یہ معلومات اپنے قارئین سے شیئر کرونگا۔30 دسمبر 1976ء کو پریمیئر آئل کمپنی اور اسٹیٹ آئل کمپنی کے انضمام سے شہید ذوالفقار بھٹو کے دور حکومت میں پاکستان اسٹیٹ آئل وجود میں آئی۔ آج پاکستان اسٹیٹ آئل کے مجموعی اثاثوں کی مالیت 2.36/ارب ڈالرہے۔ 2011ء میں اس کا منافع 338/ارب ڈالر تھا جبکہ 2012ء میں پی ایس او کے سالانہ ریونیو12/ارب ڈالر رہے۔ پی ایس او کا سیاہ تیل کی مارکیٹ میں 81.2% اور سفید تیل کی مارکیٹ میں 61.2% حصہ ہے۔ 29ڈپو، 9تنصیبات، 8000 سے زائد ٹینکرز، 3800 ریٹیل پمپس اور 2000 ہنرمند ملازمین کی بدولت پی ایس او کا شمار پاکستان کے بڑے اداروں میں ہوتا ہے۔ اپنی بہترین کارکردگی کے باعث یہ ایک منافع بخش ادارہ ہے جس کا ثبوت کراچی اسٹاک ایکسچینج میں اس کے حصص کی بڑھتی ہوئی مالیت ہے۔ کئی دہائیوں سے پی ایس او کی سابقہ مینجمنٹ نے ادارے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ ماضی میں غیر ملکی تیل کمپنیوں کے کارٹیل نے گٹھ جوڑ کرکے ایسا مخصوص تیل منظور کرایا تھا جو صرف وہی 3کمپنیاں سپلائی کرسکتی تھیں جس کیلئے وہ تیل کی قیمت کے ساتھ 30 ڈالر فی ٹن اضافی پریمیم وصول کرتی تھیں۔ پی ایس او کی موجودہ انتظامیہ نے ان غیر ملکی کمپنیوں کے گٹھ جوڑ کو توڑ کر اب ایسے تیل کی منظوری دی ہے جسے 15 سے زائد تیل کمپنیاں سپلائی کر سکتی ہیں جس کی وجہ سے پی ایس او کو اربوں روپے کی سالانہ بچت ہوئی ہے۔ اسی طرح Base Oil کی خریداری میں مڈل مین اور ٹریڈرز کو ہٹا کر براہ راست ان کے مینوفیکچررز سے خریدنے سے پی ایس او تقریباً ایک ہزار ڈالر فی میٹرک ٹن کی بچت ہوئی ہے جس سے ادارے کو11.8 ملین ڈالر سالانہ بچت ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ ماضی میں ڈیزل اور موگاس کی کوالٹی بہتر بنانے کیلئے ان میں ایک ڈیٹرجنٹ ملایا جاتا تھا جسے کوالٹی پر سمجھوتہ کئے بغیر ختم کرکے پی ایس او کو سالانہ635 ملین روپے کی بچت ہوئی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ پر پی ایس او ”وار انشورنس پریمیم“کینسل کرنے سے ادارے کو 450 ملین روپے سالانہ کی بچت ہوئی ہے۔ پی ایس او زرمبادلہ بچانے کیلئےPNSC کے جہازوں کے ذریعے3 ملین ٹن سالانہ فیول آئل لانا چاہتی ہے جس سے ملک کو سالانہ تقریباً50 کروڑ روپے کے مساوی زرمبادلہ کی بچت ہوگی۔
حکومتی اور نجی اداروں کی پی ایس او کو وقت پر ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے مالی مشکلات کے باعث پی ایس او کو مقامی ریفائنریز اور غیر ملکی کمپنیوں سے تیل خریدنے کیلئے ایل سی کھولنے میں تاخیر ہوجاتی تھی جو ادارے اور ملک کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتا تھا۔ موجودہ انتظامیہ نے ملکی زرمبادلہ بچانے کیلئے اپنی زیادہ تر درآمدی مصنوعات مقامی طور پر خریدنے کیلئے ایک حکمت عملی تجویز کی ہے جس سے ادارے کو 200 ملین ڈالر سالانہ زرمبادلہ کی بچت ہوگی۔ اسی حکمت عملی کے تحت پی ایس او نے بین الاقوامی شہرت یافتہ Bakri ٹریڈنگ سے19 مئی2012ء کو 1.4ملین ٹن سالانہ بلینڈڈ فیول آئل مقامی طور پر خریدنے کا ایک5 سالہ معاہدہ کیا، یہ وہی معاہدہ ہے جس پر اخبارات میں اعتراضات کئے گئے ہیں۔ بورڈ آف مینجمنٹ کی حالیہ میٹنگ کے دوران انتظامیہ نے معاہدے پر کئے جانے والے اعتراضات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اس معاہدے کے تحت پاکستانی کمپنی Bakri ٹریڈنگ پی ایس او کو سالانہ 1.4 ملین میٹرک ٹن بلینڈڈ فیول آئل مقامی ریفائنری کی قیمتوں پر30 دن کے کریڈٹ پر سپلائی کرے گی جس کی ادائیگی پاکستانی روپے میں کی جائے گی۔ Bakri ٹریڈنگ اپنے اخراجات پر پائپ لائن کے ذریعے فیول آئل پی ایس او کی پائپ لائن نیٹ ورک تک پہنچائے گا جس سے ادارے کو4 ملین ڈالر امپورٹ اخراجات کے علاوہ تقریباً ایک ارب 42 کروڑ روپے کی بچت ہوگی جو یقینا ملک اور ادارے کیلئے تیکنیکی اور مالی طور پر سودمند ہے۔ میرے اس سوال پر کہ کیا اتنے بڑے معاہدے کیلئے اخبارات میں ٹینڈرز شائع کئے گئے یا اس کی حتمی منظوری بورڈ آف مینجمنٹ سے لی گئی؟ تو انتظامیہ نے بتایا کہ پیمرا قوانین کے تحت اگر ملک میں صرف ایک ہی کمپنی سپلائر ہے تو اس کیلئے ٹینڈر دینے کی ضرورت نہیں جس کی وجہ سے انتظامیہ نےECC پالیسی اور OGRA کی منظوری کے بعد یہ معاہدہ کیا تھا لیکن اس معاہدے پر اعتراضات سامنے آنے کے بعد انتظامیہ نے اخبارات میں ٹینڈر شائع کئے ہیں تاہم معیاری پروکیورمنٹ کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد ہی اسے بورڈ آف مینجمنٹ میں حتمی منظوری کیلئے پیش کیا جائے گا۔
میرے کالم کا مقصد پی ایس او انتظامیہ کی تعریف ہرگز نہیں بلکہ میں قارئین کو یہ بتانا ہے کہ پاکستان جیسے غریب ملک میں ایسے قومی ادارے اربوں روپے کرپشن اور غیر ذمہ داری اور نااہلیت کی بنیاد پر ملک کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ کیا پی ایس او میں موجودہ لئے جانے والے یہ اقدامات ادارے کو اربوں روپے کے نقصانات پہنچنے سے پہلے نہیں لئے جاسکتے تھے؟ اگر نہیں تو کیا انتظامیہ اس میں ملوث اور اس کی ذمہ دار تھی؟ کیا ماضی کی حکومتوں نے قومی اداروں میں موجود ان نااہل اور کرپٹ افسران بالا کے خلاف کوئی ایکشن لیا؟ قومی ادارے اسی طرح برباد ہوتے ہیں۔ پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل مل، پیپکو بھی ایک وقت منافع بخش ادارے تھے لیکن ان اداروں میں کرپشن، اقربا پروری، نااہلیت اور احتساب نہ ہونے کے باعث یہ ادارے آج قوم پر ایک بوجھ بن چکے ہیں جنہیں چلانے کیلئے ان اداروں میں غریب عوام کے ٹیکسوں کے اربوں روپے جھونکے جارہے ہیں۔ میری حکومت سے درخواست ہے کہ نہ صرف نقصان میں چلنے والے ان قومی اداروں میں پرائیویٹ سیکٹر سے پروفیشنل اور ایماندار انتظامیہ کو ذمہ داریاں دے کر اور ان کی کارکردگی بہتر بناکر انہیں منافع بخش بنایا جائے۔
تازہ ترین