• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی کابینہ نے منگل کے روز اندرون و بیرون ملک غیر ظاہرشدہ اثاثوں کو ڈکلیئر کرنے کے لئے جس ایمنسٹی اسکیم کی منظوری دی، حکومتی ذرائع کے مطابق اُس سے 30جون 2019ء کی ڈیڈ لائن تک فائدہ نہ اٹھانے والے بے نامی اثاثوں کے حامل افراد کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔ کاروباری طبقے کی اپیل پر لائی گئی نئی اسکیم محض ٹیکس ایمنسٹی پر مبنی نہیں، اثاثے ریکارڈ پر لانے کا ذریعہ بھی ہے۔ اس کے ذریعے کاروباری شخصیات اور معاملات کو بے نامی کھاتوں سے نکلنے کا موقع ملے گا۔ ماضی اور حال کے پبلک آفس ہولڈرز،انکے افراد خاندان اور سال 2000ء کے بعد سرکاری عہدہ رکھنے والے افراد اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ وفاقی کابینہ کے مذکورہ فیصلے کے بعد معاون خصوصی برائے وزیراعظم فردوس عاشق اعوان کے ہمراہ پریس کانفرنس میں مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ، وزیر مملکت ریونیو حماد اظہر اور چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسکیم کے تحت رئیل اسٹیٹ کے علاوہ اندرون و بیرون ملک غیر ظاہر شدہ اثاثہ جات کو 4فیصد شرح ٹیکس کی ادائیگی پر سفید کرایا جاسکے گا۔ نقد رقوم کو بینک اکائونٹس میں رکھ کر ڈکلیئر کرایا جاسکے گا اور رئیل اسٹیٹ (پراپرٹی) ایف بی آر ویلیو کی ڈیڑھ گنا قیمت پر 1.5فیصد کی شرح سے ٹیکس کی ادائیگی پر ڈکلیئر ہوگی۔ بیرون ملک دولت کو ملک کے اندر لانا ہوگا اور بیرونی اثاثہ جات اندرون ملک نہ لانے کی صورت میں مزید دو فیصد ٹیکس جمع کرانا ہوگا۔نئی اسکیم کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس سے فائدہ اٹھانے والوں کو بہرصورت ٹیکس فائلر بننا ہوگا۔ حکومتی فیصلے کے مختلف پہلومعیشت کو دستاویزی بنانے کے سنجیدہ اقدامات کی طرف پیش رفت ظاہر کرتے ہیں۔ اس باب میں ترغیبات اور سہولتیں دی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر ڈاکومنٹیشن بہتر بنانے کیلئے کتابوں میں اثاثہ جات لانے اوربیلنس شیٹس دوبارہ پیش کرنے کی اجازت ہوگی اورجو تاجر سیلز ٹیکس کے نظام سے تاحال باہر ہیں وہ اس اسکیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی پرانی سیلز ٹیکس کی ذمہ داریوں سے مبرا ہوسکیں گے۔ یہ سب باتیں اس اعتبار سے یقیناً اچھی ہیں کہ ملکی معیشت کودستاویزیت کی طرف لے جایا جارہا ہے جس کے نتیجے میں آمدوخرچ کے زیادہ درست تخمینے لگانے میں مدد ملے گی لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم آج جن اقدامات کو ملک کے مفاد کی ضرورت قرار دے کر بروئے کار لارہے ہیں، ان پر اندرون ملک ازخودکام ہوتا نظر آتا اور ہمیں قرض دینے والے مالیاتی ادارے کی شرائط کے تحت یہ سب کچھ نہ کرنا پڑتا۔ قرض دینے والے اداروں کے پیش نظر سب سے پہلا نکتہ اس بات کویقینی بنانے کا ہوتا ہے کہ جو ملک اپنے روزمرہ اخراجات کیلئے بھی قرض لینے پر مجبور ہے، اس سے ایسے اقدامات کی ضمانت حاصل کی جائے جن کے ذریعے قرض دی ہوئی رقم کی مع سود واپسی یقینی بنائی جاسکے۔ ایسے اقدامات کا نتیجہ عام لوگوں کی معاشی مشکلات بڑھنے اور بعض قومی منصوبے متاثر ہونے کی صورت میں تو ظاہر ہوتے ہی ہیں مگر انکے دیگر سنجیدہ مضمرات سے صرف نظر بھی ممکن نہیں۔ دنیا کے بہت سے ممالک آبادی میں کمی اور قدرتی وسائل سے محرومی کے باوجود نہ صرف وطن عزیز کے مقابلے میں کئی گنا ٹیکس جمع کرکےامیراور فلاحی ریاست کےزمرے میں آتے ہیں تو اس میں انکے طرز حکومت، ٹیکس مینجمنٹ اور مالیاتی ڈسپلن کا بڑا دخل ہے۔ وطن عزیر قدرتی وسائل اور افرادی طاقت سے مالا مال ہونے کے باوجود بیش تر ادوار حکومت میں قرض لینے پر مجبورنظر آرہا ہے تو ہمیں ان نقائص کو دور کرنا ہوگا جو اس کی وجہ بن رہے ہیں۔ زراعت، صنعت، آبی ذخائر شمسی توانائی اور قدرتی محل وقوع ایسی دولتیں ہیں جن سےاستفادے سے ہمیں کسی نے نہیں روکا۔ ہمارا مالیاتی نظم و نسق وسائل پر قابض اشرافیہ کے مفادات کے لئے تباہ کر دیا گیا ہے۔ مناسب منصوبہ بندی، مالیاتی ڈسپلن اور کرپشن کے خاتمے کے ذریعے ایک طرف ملک وطن عزیز کو قرضوںسے بھی بچا جاسکتا ہے تو دوسری جانب خود کفالت اور خوشحالی کی منزلوں سے بھی ہمکنار کیا جاسکتا ہے۔

تازہ ترین