• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکتیس مئی 2018کو جب مسلم لیگ(ن) حکومت نے اپنی مدت تمام کی تو ہم نے ایسی معیشت چھوڑی جس کی شرحِ نمو 5.8فیصد تھی اور آنے والے مالی سال اِس شرح میں مزید اضافہ ہونے کی توقع تھی۔ اِس شرحِ نمو کے ساتھ معیشت ہر ماہ 125,000ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرسکتی تھی۔ مہنگائی کی شرح چار فیصد سے کچھ کم اور اسٹیٹ بینک کی طے کردہ شرحِ سود 6.25فیصد تھی۔ حکومت کی آئینی مدت تمام ہونے سے چند ماہ پہلے ہم نے لوڈ شیڈنگ مکمل طور پر ختم کردی تھی۔ ہم نے نجی شعبے میں چلنے والے دو ایل این جی ٹرمینلز قائم کئے اور کراچی سے لے کر باقی ملک تک گیس پائپ لائن بچھائی جو یومیہ 1.2بلین کیوبک فٹ گیس ترسیل کر سکتی تھی۔ ہم اپنی صنعت کو باقاعدگی سے گیس سپلائی کر سکتے تھے۔

یہاں قارئین کو یہ بتانا ضروری ہے کہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ یا تجارتی خسارہ کوئی انہونی چیز نہیں۔ درحقیقت ترقی پزیر ممالک میں تجارتی خسارہ ہوتا ہے۔ ذرا سوچیں کہ پاکستان کو بجلی پیدا کرنے کے لئے پاور پلانٹس اور کاریں، ٹیکسٹائل اور کیمیکلز کے لئےمشینری کی کس قدر ضرورت تھی۔ چنانچہ بہتر ہے کہ عوام کو مستقل پریشان رکھنے کے بجائے یہ مشینری درآمدکر لیں۔ ایسا کرنے سے تجارتی خسارہ ایک یا دوسال کے لئے اوپر چلا جائے گا۔ کرنٹ اکائونٹ خسارے کا مطلب ہے کہ غیر ملکی بچت ملک میں منتقل کر رہے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک، جس میں بچت کی شرح بہت کم ہے اور اُسے معاشی نمو کی ضرورت ہے، کرنٹ اکائونٹ خسارہ غیر متوقع نہیں۔

کرنٹ اکائونٹ خسارے کا سامنا کرنے والا ملک صرف پاکستان ہی نہیں۔ 2017میں ترکی، اردن، انگلینڈ اور ارجنٹائن کو پاکستان سے کہیں بڑے کرنٹ اکائونٹ خسارے کا سامنا تھا۔ تاہم 2018تک ہمارا کرنٹ اکائونٹ خسارہ اور اقتصادی خسارہ بڑھ گئے لیکن چونکہ ہم سی پیک منصوبوں کے لئے بنیادی خریداری کر چکے تھے، اِس لئے اُن دونوں خساروں کو اب کنٹرول میں آنا چاہئے تھا۔ لیکن جب اسد عمر فنانس منسٹر بنے تو ہماری معیشت کے ستارے گردش میں آگئے۔ اگست 2018میں حلف اٹھانے سے چند دن پہلے وزیراعظم نے ہمیں بتایا کہ وہ کسی صورت آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔ پھر ستمبر میں ہمارے فنانس منسٹر نے ہمیں بتایا کہ وہ مذاکرات کرنے آئی ایم ایف کے پاس جارہے ہیں اور ایسا کرنا قوم کے وسیع تر مفاد میں ہے لیکن پھر چند ایک ہفتے بعد ہمیں بتایا کہ قوم کا وسیع تر مفاد آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے میں ہے۔ بدقسمتی سے ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ ہر ہفتے دوہفتے کے بعد بدلتا رہا۔

مزید ستم یہ ڈھایا کہ ہمارے نئے حکمران ملک میں اور بیرونِ ملک پاکستانی معیشت کی جی بھر کے برائیاں اور سرمایہ کار کو خوفزدہ کرتے رہے۔ اسٹاک مارکیٹ مسلسل نیچے جاتی دیکھ کر غیر ملکی سرمایہ کاروں نے پیسہ نکالنا شروع کردیا، شرح سود تیزی سے کم کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ روپے کی قدر میں خوفناک کمی کرنے سے برآمدات میں اضافہ کیا ہونا تھا، درآمدات مہنگی ہو گئیں اور مہنگائی بڑھ گئی۔ گزشتہ نو ماہ میں حکومت نے دوست ممالک سے چند بلین ڈالر ادھار لئے اور خرچ کئے جبکہ اِس دوران ہمارے بجٹ خسارے، ملکی قرضے اور نوٹ چھاپنے کی رفتار نے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ اِن نو ماہ کے دوران فنانس منسٹر آئی ایم ایف کے متعلق فیصلہ کرنے سے قاصر تھے۔ یہاں کچھ چشم کشا حقائق پیشِ خدمت ہیں۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم کرنے کے لئے حکومت نے کرنسی کی قدر بیس فیصد کم کر دی۔ اُس سے مہنگائی میں اضافہ ہوگیا۔ اُس نے شرح سود بڑھا دی۔ اُس سے شرح نمو کم ہوگئی۔ درحقیقت اُس کی وجہ سے ہماری معیشت 313بلین ڈالر سے کم ہوکر 280بلین ڈالر رہ گئی (33بلین ڈالر کا نقصان) لیکن اِس اذیت ناک کمی کی وجہ سے کرنٹ اکائونٹ خسارہ کتنا کم ہوا؟ صرف چار بلین ڈالر۔

ہمارے کرنٹ اکائونٹ خسارے کے بہتر نہ ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ بجٹ کے خسارے سے مربوط ہے۔ اگرچہ حکومت اپنے محصولات کے ہدف سے 450بلین روپے پیچھے ہے لیکن یہ اُس رقم کو کھلے دل سےخرچ کررہی ہے جو اُس کے پاس ہے ہی نہیں۔ اگرچہ اُس نے تمام ترقیاتی اخراجات روک لئے ہیں لیکن اُس سے اخراجات کم نہیں ہوئے چنانچہ رواں سال ہمارا بجٹ کا خسارہ پاکستان کی تاریخ کا بلند ترین خسارہ ہوگا۔

تیزی سے بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کی وجہ سے پریشان ہو کر ہمارے وزیر ِاعظم نے فنانس منسٹر کو فارغ کردیا۔ اُس کے بعد آئے حفیظ شیخ ،اُنہوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کو حتمی شکل دی۔ یقیناً کوئی بھی آئی ایم ایف پروگرام خوشگوار نہیں ہوتا، یہ بھی نہیں ہوگا۔ اس کے لئے کمر کسنے کی ضرورت ہوتی ہے، اُس مرتبہ ماضی کی نسبت کہیں زیادہ۔ تاہم میں مشیر خزانہ اور اُن کے ساتھ آنے والے نئے ٹیکس ماہر کے الفاظ پر یقین کر لیتا ہوں کہ اُس پروگرام کا بوجھ غریب افراد اور درمیانے طبقے پر منتقل نہیں کیا جائے گا۔مجھے یقین ہے کہ موجودہ ٹیم نے معروضی حالا ت کے پیشِ نظر بہترین ڈیل کرنے کی کوشش کی ہو گی چونکہ سب سے آسان کام تنقید کرنا ہی ہوتا ہے، چنانچہ میں اِس ڈیل کے کسی پہلو کو ہدفِ تنقید نہیں بنائوں گا۔ یہ ضرور کہوں کہ آئی ایم ایف کی طرف سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ کے بارے میں استعمال کیا گیا لب ولہجہ افسوس ناک ہے۔ اُس کی وجہ سے ہم ایف اے ٹی ایف کے سامنے مزید کمزور ہو سکتے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ پاکستان کو دھمکانے کے لئے مغرب کے ہاتھ میں ایک اور چھڑی آگئی ہے۔

(صاحبِ مضمون سابق وفاقی وزیر برائے مالیاتی امور ہیں)

تازہ ترین