• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:زاہد مغل…بریڈفورڈ
پاکستان ہمارا وطن، ہماری ماں دھرتی، پوری دنیا میں رہنے والے مسلمانوں اور پاکستانیوں کی امیدوں کا مرکز، ہماری جہاں پناہ ہے۔ پوری دنیا میں رہنے والے سمندر پار پاکستانیوں کے دل کے رشتے اس مٹی سے جڑے ہیں، وہ پوری دنیا میں جہاں بھی محنت مشقت و کاروبار کرتے ہیں اور اس کے عوض حاصل سرمایہ کو پاکستان کی ترقی وخوش حالی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ معاشی اور سیاسی طور پر پرامن پاکستان ہمارے سروں کو فخر سے بلند کر دیتا ہے۔ پاکستان میں عمران خان کی حکومت آنے کے بعد پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد مہنگائی کا ایک طوفان آگیا ہے، روز مرہ زندگی کی اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور آئی ایم ایف کے ساتھ جو حکومتی مذاکرات جاری ہیں اس کے نتیجے میں عوام پر مزید ٹیکس لگیں گے اور معاشی اصلاحات کے حوالے سے ہونے والے اقدامات کا براہ راست اثر بھی مزدور اور محنت کش طبقے پر ہوگا جس سے عام طبقے کے لئے زندگی مشکل سے مشکل تر ہو جائے گی۔ پاکستان کئی مرتبہ قرض کے حصول کے لئے آئی ایم ایف جا چکا ہے، شروع میں پاکستان کے آئی ایم ایف سے ہونے والے معاہدے قلیل مدتی ہوتے تھے جس کی بنیاد پر لئے جانے والے قرض معاشی اصلاحات کے ساتھ مشروط نہیں ہوتے تھے مگر بعدازاں اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام شروع ہو گئے، قرض کے حصول میں امریکی تعاون پاکستان کو حاصل رہا۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان آئی ایم ایف سے 6ارب سے 8ارب امریکی ڈالر تک قرض کا خواہاں ہے۔ ان قرضوں کے نتیجے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی ہو گی اور معاشی اصلاحات کے نتیجے میں غربت میں مزید اضافہ ہو گا اور یہ معاشی عدم استحکام ملک میں بے چینی افراتفری کا باعث بنے گا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ عمران خان حکومت کی نااہلی، نالائقی اور ناتجربہ کاری واضح ہوتی جا رہی ہے اور یہ بات وزیراعظم عمران خان بھی باخوبی جان گئے ہوں گے کہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر ڈی چوک میں بجلی اور گیس کے بلوں کو جلا کر عوام کو ٹیکس ادائیگی سے روکنا اور اس طرح کی انقلابی تقاریر کرنا انتہائی آسان ہوتا ہے مگر حکومت کے معاملات چلانے کے لئے سیاسی و معاشی ادراک کے ساتھ ایک ماہر ٹیم کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ملکی پالیسی مرتب کی جاتی ہے۔ پاکستان کی بگڑتی معاشی صورتحال کے اثرات مہنگائی میں اضافے کے ساتھ بدامنی کا بھی باعث بن سکتے ہیں جو کسی بھی پاکستانی کے لئے قابل اطمنان نہیں ہو سکتا۔ ایسے حالات میں حکومت کو بہتر پالیسی مرتب کر کے عام آدمی کو ریلیف دینا پڑے گا کیونکہ پاکستان میں80 فیصد سے زائد آبادی مشکلات کا شکار ہے جبکہ20 فیصد اشرافیہ اس معاشی بدحالی کی ذمہ دار ہے، جنہوں نے پاکستان کو نہ سیاسی طور پر اور نہ معاشی طور پر مستحکم ہونے دیا، جس کی ایک بڑی وجہ ملک میں آمریت بھی ہے کیوں کہ جب عوام کی منتخب حکومت کو غیر قانونی طریقے سے ختم کیا جاتا ہے تو اپنے ناجائز قبضے کو عوام کے لئے قابل قبول بنانے کے لئے انہیں مراعات دینے کے لئے قرضے لینے پڑے اور یہ ان حکومتوں پر کوئی چیک اینڈ بیلنس بھی نہیں ہو سکتا اور نہ وہ کسی کے سامنے جواب دہ ہوتی ہیں، ان تمام وجوہات نے مل کر یہ معاشی ابتری پیدا کی، ایسے حالات میں حکومت پاکستان کو بیرون ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں کو اپنا سرمایہ ملک میں لانے کے لئے معاشی مراعات کے ساتھ محفوظ سرمایہ کی ضمانت کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ اس سے عام آدمی کو روزگار ملے اور وہ اپنی روزمرہ کی ضرورت کو پورا کر سکیں۔ اگر حکومت کوئی ایسی پالیسی مرتب کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے کہ وہ اوورسیز کا اعتماد حاصل کر سکے تو پاکستان اس معاشی بحران سے نکل سکتا ہے، ایسے حالات میں پوری دنیا میں رہنے والے سمندر پار پاکستانیوں کو ایک اہم کردار ادا کرنا ہے کے وہ پاکستان کا اس مشکل وقت میں ساتھ دیں۔
تازہ ترین