• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایمنسٹی اسکیم، بروقت ٹیکس نہ دیا تو 40؍ فیصد تک سرچارج دینا ہوگا

اسلام آباد (مہتاب حیدر) ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں جون 2020ء تک ایسے افراد پر پہلے سے طے شدہ انداز میں 10؍ سے 40؍ فیصد تک سرچارج عائد کیا گیا ہے جو اس اسکیم سے 30؍ جون 2019ء تک استفادہ کریں گے لیکن واجب الادا ٹیکس ادا کرنے کی زحمت نہیں کریں گے۔ اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم 2019ء کا صدارتی آرڈیننس بدھ کو نافذ کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ ٹیکس کی رقم از خود بڑھ جائے گی جس میں سرچارج رقم کے فیصدی حصے کے مطابق ہوگی۔ اگر ٹیکس 30؍ جون 2019ء کے بعد اور یا 30؍ ستمبر 2019ء سے قبل جمع کرایا گیا تو ڈیفالٹ سرچارج کی شرح ٹیکس کی رقم کا 10؍ فیصد ہوگی۔ اگر ٹیکس 30؍ ستمبر 2019ء کے بعد اور یا 31؍ دسمبر 2019ء سے قبل ادا کیا گیا تو ٹیکس کی رقم کا 20؍ فیصد حصہ بصورت سرچارج ادا کرنا پڑے گا۔ اگر ٹیکس 31؍ دسمبر 2019ء کے بعد اور یا 31؍ مارچ 2020ء سے قبل ادا کیا گیا تو ٹیکس کی رقم کا 30؍ فیصد حصہ بصورت سرچارج ادا کرنا ہوگا۔ اگر ٹیکس 31؍ مارچ 2020ء کے بعد اور یا 30؍ جون 2020ء سے قبل ادا کیا گیا تو ٹیکس کی رقم کا 40؍ فیصد حصہ بصورت ڈیفالٹ سرچارج ادا کرنا پڑے گا۔ اس صورتحال کے حوالے سے ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی سے رابطہ کرکے معلوم کیا گیا کہ اگر کسی نے بینک سے قرضہ لیا ہو اور وہ رقم بینک اکائونٹ میں رکھ کر مستقبل میں ٹیکس واجبات کم کرنے کے ارادے سے اس ٹیکس اسکیم سے فائدہ اٹھانا چاہے تو کیا ہوگا۔ اس پر چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ ایف بی آر ایسے شخص کو اسکیم سے فائدہ اٹھانے سے نہیں روک سکتا۔ ایک اور سوال، کہ اسکیم کو فعال بنانے کیلئے کوئی قواعد کیوں جاری نہیں کیے گئے، کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قواعد تیار ہیں اور جمعرات (آج) جاری کیے جائیں گے۔ ایک اور سوال، کہ آیا ایسوسی ایشن آف پرسنز (اے او پیز) یا دیگر مشترکہ کاروبار والے لوگ اس اسکیم سے استفادہ کر سکتے ہیں، کے جواب میں شبر زیدی نے کہا کہ جی ہاں۔ اثاثے ظاہر کرنے کا آرڈیننس (ایسیٹ ڈکلیریشن آرڈیننس) 2019ء کے تحت اسکیم سے فائدہ اٹھانے والے پر لازم ہے کہ وہ ظاہر کردہ غیر ملکی منقولہ اثاثوں کو پاکستانی بینک میں پاکستانی روپوں یا غیر ملکی کرنسی کی صورت میں رکھے یا پاکستان بنائو سرٹیفکیٹس میں سرمایہ کاری کرے یا کسی ایسے بانڈز میں سرمایہ لگائے جو وفاقی حکومت کے جاری کردہ ہوں۔ اثاثوں کی مالیت اس آرڈیننس کے تحت اثاثے ظاہر کرنے کے دن زر مبادلہ کی قدر (ایکسچینج ریٹ) کے حساب سے طے کی جائے گی۔ اس حوالے سے شرائط یہ ہیں کہ ظاہر کیے گئے اثاثے اس صورت میں جائز تصور کیے جائیں گے جب انہیں طے شدہ انداز میں 30؍ جون 2019ء تک بینک اکائونٹ میں رکھا جائے گا، یا پاکستان میں رکھی گئی غیر ملکی کرنسی اثاثے ظاہر کرنے والا شخص اپنے غیر ملکی کرنسی اکائونٹ میں 30؍ جون 2019ء تک رکھے، یا اثاثے ظاہر کرنے والا شخص باہر سے لائے گئے اثاثوں کو اپنے غیر ملکی کرنسی اکائونٹ میں رکھے یا پاکستان بنائو سرٹیفکیٹس یا پھر حکومت پاکستان کے جاری کردہ غیر ملکی بانڈز میں سرمایہ کاری کرے، یا پاکستان لائے گئے منقولہ غیر ملکی اثاثوں کو 30؍ جون 2019ء تک انہیں ظاہر کرنے والا شخص اپنے غیر ملکی کرنسی اکائونٹ میں رکھے۔ ملکی غیر منقولہ اثاثوں کے سوا تمام اثاثوں بشمول غیر اعلانیہ اثاثوں، فروخت اور اخراجات پر ٹیکس کی شرح 4؍ فیصد ہوگی۔ ملکی غیر منقولہ اثاثوں پر ٹیکس کی شرح ڈیڑھ فیصد ہوگی، غیر ملکی منقولہ اثاثے اگر پاکستان نہیں لائے گئے تو ان پر ٹیکس کی شرح 6؍ فیصد ہوگی۔ غیر واضح (Unexplained) اخراجات پر ٹیکس کی شرح 4؍ فیصد ہوگی جبکہ غیر واضح فروخت پر ٹیکس کی شرح 2؍ فیصد ہوگی۔ ملکی غیر منقولہ اثاثوں کی مالیت ایف بی آر کی متعین کردہ 150؍ فیصد سے کم نہیں ہونا چاہئے؛ ڈی سی ویلیو کا 150؍ فیصد، اگر ایف بی آر کی جانب سے قدر کا تعین نہیں کیا گیا یا ایف بی آر کی جانب سے متعین کردہ قدر ڈی سی ویلیو سے کم ہو، یا انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکشن 68؍ کے ذیلی سیکشن 4؍ کے تحت ایف بی آر کا متعین کردہ 150؍ فیصد تعمیر شدہ اثاثوں اور زمین کی قیمت ڈی سی ویلیو کے 150؍ فیصد کے برابر ہو، یا ایف بی آر کی متعین کردہ قیمت تعمیر شدہ پراپرٹی کے حوالے سے جاری نہ کی گئی تو ایسی صورت میں ایسے غیر منقولہ اثاثوں کی مالیت وہی ہوگی جو اس جائیداد کو عمومی طور پر اوپن مارکیٹ میں فروخت کیلئے پیش کرکے حاصل کی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ قیمت کسی بھی صورت وہ اثاثہ اس قیمت میں نہیں ہونا چاہئے جس میں وہ حاصل کیا گیا تھا۔ اس آرڈیننس کے تحت ایسے افراد بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جن کیخلاف کارروائی شروع کر دی گئی ہو یا کارروائی زیر التوا ہو یا جہاں انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے تحت آمدنیوں کا جائزہ لیا گیا ہو جن میں کسی کا تعلق غیر اعلانیہ اثاثوں یا اخراجات سے ہو ماسوائے ایسے معاملات کے جو انجام کو پہنچ چکے ہوں۔ ایسے لوگ بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جن کیخلاف غیر اعلانیہ فروخت یا سپلائی کے معاملے میں کارروائی شروع ہو چکی ہو یا زیر التوا ہو یا سیلز ٹیکس ایکٹ 1990ء یا فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005ء کے تحت ان کے کیس کا فیصلہ سنایا جا چکا ہو ماسوائے ایسے کیسز جو اپنے انجام کو پہنچ چکے ہوں۔ غیر اعلانیہ فروخت اور اخراجات پر بھی ٹیکس اور ڈیفالٹ سرچارج اسی نرخ کے تحت عائد ہوگا جو اس آرڈیننس کے شیڈول میں وضع کیے گئے ہیں۔ آرڈیننس کے تحت ادائیگی کی آخری تاریخ (Due Date) 30؍ جون 2019ء تک یا اس سے قبل ہی رہے گی۔ اس سیکشن کے ذیلی شق کے تحت اس تاریخ کے بعد 30؍ جون 2020ء تک یا اس سے پہلے ادا کیے جانے والے ٹیکس پر ڈیفالٹ سرچارج اسی حساب سے واجب الادا ہوگا جو آرڈیننس کے شیڈول کے دوسری شق میں بتایا گیا ہے۔

تازہ ترین