• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

واٹس ایپ ہیکنگ ایران کیخلاف خفیہ معلومات جمع کرنیکی کوشش؟

کراچی (نیوز ڈیسک) امریکا اور ایران کے درمیان جاری زبردست کشیدگی کے تناظر میں، حالیہ دنوں میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ واٹس ایپ کو ہیک کرنے کی کوشش، خلیج فارس میں تیل بردار بحری جہازوں پر حملے، امریکا کی جانب سے اخوان المسلمین کو دہشت گرد گروپ قرار دینے کی کوششیں اور خلیج میں ایک لاکھ سے زائد امریکی فوجیوں کی تعیناتی کی باتیں ایک ہی کہانی کی مختلف کڑیاں ہیں جس کا مرکز اسرائیل، ایک عرب ملک اور ایران کے درمیان جاری رسہ کشی ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیل فوج کی منفرد خاصیت ہے کہ یہ اسرائیل میں کئی صنعتی کمپنیوں کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب فوجی قوم کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں تو ان کے درمیان ایک قریبی تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور جو زندگی بھر قائم رہتا ہے۔ یہ وقت کسی بھی فوجی جوان کی زندگی کا اہم ترین وقت ہوتا ہے اور اس کی اہمیت یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے عرصہ سے بھی زیادہ سمجھی جاتی ہے۔ اسرائیلی فوج ہر بھرتی ہونے والے نوجوان کا جائزہ لیتی ہے، اس کی خصوصیات معلوم کرتی ہے اور انہیں صرف اسی جگہ کھپایا جاتا ہے جہاں وہ بہترین انداز سے قوم کی خدمت کر سکتے ہوں۔ کمپیوٹر ہیکر جو عموماً اپنے گھر کے ایک کونے میں صرف شرارت انگیزیاں کرتے ہیں، انہیں قومی دھارے میں لا کر قوم کی خدمت پر مامور کیا جاتا ہے۔ جب یہ لوگ فوج کی ملازمت مکمل کرتے ہیں تو اپنے ساتھ نہ صرف دوسرے فوجیوں کے ساتھ مضبوط تعلق ساتھ لے کر جاتے ہیں بلکہ دیگر صنعتی گروپس میں بھی جان پہچان حاصل کر لیتے ہیں اور فوج سے ریٹائرمنت پر سائبر وار فیئر (انٹرنیٹ پر لڑی جانے والی جنگیں) این ایس او گروپ جیسی اپنی ذاتی کمپنیاں تشکیل دیتے ہیں۔ این ایس او گروپ ہیکنگ کے سافٹ ویئرز تیار کرتا ہے اور دہشت گردی اور جرائم پر قابو پانے کیلئے یہ سافٹ ویئرز اسرائیلی حکومت کو فروخت کیے جاتے ہیں۔ واٹس ایپ کا ہیک ہونا، خلیج میں چار تیل بردار بحری جہازوں پر حملہ، اخوان المسلمین کو دہشت گرد قرار دینے کی امریکی کوشش اور خلیج فارس میں امریکی طیارہ بردار بحری جہاز کا تعینات ہونا۔ ان سب کا محور ایک ہی ہے۔ این ایس او گروپ اور اس جیسی دیگر کمپنیوں کیلئے اہم بات یہ ہے کہ ان ک تیار کردہ ٹیکنالوجی دیگر ممالک کو فروخت کرنے لائسنس اسرائیلی حکومت سے صرف اس صورت ملتا ہے جب یہ یقین ہو جائے کہ اس فروخت سے قومی مفادات کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ ماضی میں ایران اور عرب ممالک کو یہ ٹیکنالوجی فروخت نہیں کی جاتی تھی کیونکہ یہ سب مل کر فسلطین کا ساتھ دیتے تھے لیکن عرب ممالک میں حکومتوں کیخلاف پیدا ہونے والی تحریک (عرب اسپرنگ) کے بعد قطر کے سوا سب نے فلسطین کا ساتھ چھوڑ دیا اور سب ایران کیخلاف مل کر اسرائیل کا ساتھ دینے لگے۔ اگرچہ یہ سست رفتار تبدیلی تھی لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کے بعد امریکی حکومت میں جنجگو پسند اور قدامت پرست افراد (مائیک پومپیو اور جان بولٹن) کی بھرتی سے اس میں تیزی آ گئی۔ اب اس حوالے سے قیاس آرائیاں ہیں کہ نئے عرب ممالک سے تعلقات بہتر کرنے کیلئے این ایس او گروپ اور دیگر اسرائیلی سائبر کمپنیوں کو اپنی پراڈکٹس عرب ممالک کو فروخت کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ واٹس ایپ کو ہیک کرنے کے بعد صرف اُن وکیلوں (ایک عرب ملک اور دوسرا قطری شہری ہے) کو ٹارگٹ کیا گیا جو عرب ممالک میں حقوق انسانی کے معاملات کی تحقیقات کر رہے تھے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اکثر ایران کو اسرائیل کی سالمیت کیلئے واحد خطرہ قرار دیتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف دیکھیں تو عرب ملک کو ایران کی صورت میں بیرونی جبکہ اخوان المسلمین کی صورت میں اندرونی خطرے کا سامنا ہے۔ بہ عرب ملک ایران کی فوجی طاقت سے خوفزدہ ہیں جبکہ اخوان المسلمین سے خوفزدہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ شاہی خاندان کی حکومت کی بجائے سیاسی اسلام کے ذریعے حکومت کا نظریہ پیش کرتے ہیں۔

تازہ ترین