• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے آئی ایم ایف کے وفد نے حکومت پاکستان کو واضح کردیا ہے کہ پاکستان کا کوئی قرضہ معاف نہیں کیا جائیگا اور نہ ہی ری شیڈول ۔آئی ایم ایف کے وفد کا یہ موقف دراصل روایتی پالیسی بیان ہے، جس کا مقصد کمزور حکومتوں کو ڈرانا یا سیدھے راستے پر لانا ہوتا ہے۔
اس نقطہ نظر سے انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ حکومت پر تو اس دھمکی کا کوئی اثر نہیں ہونے والااور جہاں تک قرضہ کی معافی وغیرہ کا تعلق ہے یہ فیصلہ فنڈ کے حکام نہیں امریکہ اور یورپ کی لابی نے کرنا ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف کی دھمکی پاکستانی حکام کو اس وقت دی گئی ہے جب وہ اسلام آباد میں ڈاکٹر طاہر القادری کے”انوکھے“ دھرنا کے خاتمہ کا غیر اعلانیہ جشن منارہے تھے، جس کے بارے میں مختلف بین الاقوامی اور قومی حلقوں میں یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ دھرنا کا اہتمام کرنے کے پیچھے کچھ اور ہی عناصر تھے جبکہ اسٹیج کسی اور کے پاس تھا۔ کاروباری زبان میں دھرنا کی سرگرمی کو یوں لیا جاسکتا ہے کہ پچھلے دو ہفتے سیاسی سٹاک مارکیٹ میں قادری دھرنا کے ریٹ بڑے اچھے رہے، روز اس کے بھاؤ میں اتار چڑھاؤ آتا رہا اور اس میں پبلک سیکٹر کی سپورٹ بھی شامل رہی لیکن ا ٓخر میں اچانک غیر ملکی انویسٹرز (سپورٹرز کے) بیک آؤٹ کرنے نئی رجسٹرڈ کمپنی کے نرخوں میں نمایاں کمی سے سیاسی مارکیٹ کی صورتحال یکسر بدل گئی تاہم مجموعی طور پر سیاسی حالات کی مارکیٹ میں تیزی بڑھ گئی اور اپوزیشن جماعتوں اور حکومتی حلقوں میں ہلچل مچ گئی جس سے چند دن الیکٹرانکس چینلز دوبارہ عوام کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ جو کچھ عرصہ سے مختلف قومی مسائل کی وجہ سے عوام نے دیکھنا کم کردئیے تھے اور اس کے بدلے میں ترکی اور بھارت کے ڈراموں پر توجہ بڑھادی تھی۔ سیاسی اور قومی حلقوں کے مطابق حالیہ پندرہ دنوں میں ملکی حالات میں یکسر تبدیلی کا کریڈٹ ڈاکٹر قادری کو ضرور جاتا ہے مگر یہ بھی کہا جارہا ہے کہ دھرنا قادری کا اور فائدہ نواز شریف کا،جن کی جماعت مسلم لیگ (ن) ماضی کے چند ماہ کے حالات کے برعکس اچانک بہتر پوزیشن میں آگئی ہے جبکہ عمران خان کی پی ٹی آئی اور الطاف حسین کی ایم کیو ایم کی پوزیشن میں کچھ کمی کے اشارے ملے ہیں۔
اس لئے کہ ان دونوں پارٹیوں کی طرف سے مستقل مزاجی کی پایسی اختیار نہ کرنے پر عوام میں ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے جبکہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے باوجود اسے دھرنا سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا ہے تاہم ان کے اندرونی حلقے اس سے اتفاق نہیں کررہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو قادری دھرنا سے معاشی سرگرمیوں میں بہتری نہیں، ابتری بڑھی ہے۔ اس لئے کہ نہ تو اس سے کوئی انقلاب آسکا ہے اور نہ ہی حکومت اور قادری معاہدہ سے عوام کو براہ راست کچھ فائدہ ہوا ہے۔ صرف ڈاکٹر قادری کو یہ فائدہ ہوا ہے کہ وہ نگران وزیر اعظم کے ا نتخاب میں تیسری پارٹی کے طور پر سامنے آگئے ہیں جبکہ اس سے پہلے پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ ن نے یہ فیصلہ کرنا تھا۔ کاروباری حلقوں کے مطابق اس طرح کے دھرنوں سے کاروباری سرگرمیاں مزید متاثر ہوتی ہیں اور سیاسی حالات بھی خراب ہوتے ہیں تاہم اس بارے میں مسلم لیگ ن سیاسی طور پر بہتر پوزیشن میں آگئی ہے۔ اس میں زیادہ کمال شریف خاندان کی میزبانی کا ہے جس میں ہر ڈش میں زعفران سب مہمانوں کا دل جیت رہا تھا اور لندن کانفرنس کے بعد پہلی بار تمام قومی سیاسی قائدین رائیونڈ میں اکٹھے تھے۔ ان میں اکثر وہ بھی تھے جن کے بارے میں مسلم لیگ ن کی چار سال پہلے پالیسی تھی کہ پارٹی سے غداری کرنے والوں کو دوبارہ اندر نہیں آنے دیا جائیگا۔
سیاسی مقاصد اور مفادات انسان کو کتنی تیزی سے فیصلہ بدلنے پر مجبور کردیتے ہیں بہرحال قادری دھرنا کے خلا ف جب ساری اپوزیشن جماعتیں اکٹھی ہوئی تو کاروباری حلقوں اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں میں اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ چلیں اس سے سیاسی نظام مضبوط ہوگا اور اگر اب منصفانہ انتخابات کے نتیجہ میں نیا سیاسی ا تحاد پاور میں آجاتا ہے تو شاید ملکی معیشت کے حالات بدل جائیں مگر دوسری طرف وہ اس بات پر پریشانی کا اظہار کررہے تھے کہ اس اجلاس میں سی این جی بحران، مہنگائی ، کالا باغ ڈیم، غربت کا خاتمہ، معاشی حالات کی ابتری، دہشتگردی اور قومی سلامتی کے کئی امور پر عوامی جذبات کے عین مطابق کوئی اظہار خیال نہیں کیا گیا۔
اسی حوالے سے عوامی حلقوں کی رائے ہے کہ ملک میں انتخابات سے سیاسی حالات کے ساتھ ساتھ معاشی حالات میں بھی بہتری آسکتی ہے مگر اس کے لئے سیاسی جماعتوں کو عوام کی مشکلات کا احساس کرنا ہوگا۔ صرف سیاسی بیانات سے اب کام نہیں چلے گا اگر میاں مضبوط معاشی نظام قائم ہوجاتا ہے تو پھر آئی ایم ایف ہو یا عالمی بنک کسی ادارے کا ایک جونیئر سطح کا وفد اس طرح دھمکیاں نہیں دے سکتا جیسے چند روز پہلے آئی ایم ایف کے وفد نے پاکستان کے حکام کو دی ہیں۔ ہمارے حکام نے یہ سب کچھ اس لئے سن لیا کہ ان کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ ان کی پرفارمنس شیٹ پر زیادہ کراس لگے ہوئے ہیں اور یہ کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی جارہے ہیں۔
تازہ ترین