• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تکمیل کی ایک ادھوری کہانی کا میرے وطن میں مدتوں سے بسیرا ہے۔ اِس میں سرشاری کے لمحات بھی ہیں اور دکھوں میں ڈوبی ہوئی ساعتیں بھی۔ کبھی کبھی اُمید بندھتی ہے کہ زندگی سہانے خوابوں میں تبدیل ہونے لگی ہے، مگر جلد ہی یہ بھید کھل جاتا ہے کہ جو دیکھا تھا، وہ اک سراب تھا۔ یہ ادھوری کہانی ایک ایسے مقام پر آ کے ایک انتہائی خطرناک موڑ کاٹتی نظر آ رہی ہے جہاں میرِ شہر بےدماغ بھی ہے اور بددماغ بھی۔ اِس ختم نہ ہونے والے ہنگام نے مجھے خوابِ خرگوش سے بیدار کر دیا ہے، جس کا سحر ادھوری کہانی سنتے سنتے مجھ پر طاری ہو گیا تھا۔ غالباً جب درد حد سے بڑھتا ہے تو دوا ہو جاتا ہے۔

جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو میں ساڑھے پندرہ سال کا تھا۔ اُس وقت سے اپنی تکمیل کی جستجو میں ہوں اور عجب عجب ادوار سے گزرتا آیا ہوں۔ اندر سے ٹوٹ جانے والی یہ کیفیت پہلے کبھی نہ تھی اور حرف اور الفاظ کا اعتبار اِس قدر کبھی مجروح نہ ہوا تھا۔ میں نے اپنے عہد میں قائداعظم کے دستِ راست نوابزادہ لیاقت علی خاں بھی دیکھے جو پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے اور بھارت میں بڑی جائیداد چھوڑ کے آئے تھے۔ وہ جب راولپنڈی کے باغ میں شہید کئے گئے، تو شیروانی پہنے ہوئے تھے۔ شیروانی اُتاری گئی تو نیچے سے پھٹا ہوا بنیان برآمد ہوا۔ یہ وہی سیاسی قیادت تھی جس نے قائدِاعظم کی رہنمائی میں پاکستان حاصل کیا تھا اور اُن کے جہانِ فانی سے رخصت ہونے کے بعد اِس نوزائیدہ مملکت کو انتظامی، سیاسی اور معاشی استحکام دیا، جس کے بارے میں بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ مسلمانوں کا یہ ملک چھ ماہ سے زائد قائم نہ رہ سکے گا جبکہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وہ ایک درخشندہ مستقبل کے لئے جاں لیوا حادثات کے باجود کوشاں ہے۔

جاں لیوا حادثات اور چیلنجز بھی کچھ کم نہیں۔ گزشتہ ہفتے ہی پے در پے بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے ہیں اور بادلوں کی گرج اور کڑک ہر لحظہ بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ مئی کا مہینہ ہے جس میں چوٹی سے ایڑی تک پسینہ بہا کرتا تھا مگر رمضان المبارک میں رحمتوں کی بارش ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اِس بارش میں غیر یقینی کا زہر دھل جائے، جو ہمارے رگ و پے میں اترتا جا رہا ہے۔ دعا کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے معاملات کی انجام دہی میں فرض شناسی، بیدار مغزی اور عمدہ فیصلہ سازی کا ثبوت دینا ہو گا۔ قیادت کو بھی اور عوام کو بھی۔ اب ذرا غور کیجئے کہ ہمارے اربابِ اختیار نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کرتے ہوئے کیا کیا رُخ تبدیل کئے اور کن کن پیچیدگیوں کو جنم دیا۔ اُنہیں دیکھ کر اندازہ ہوا کہ سیاسی قیادت میں کس قدر بصیرت اور بالغ نظری ہونا چاہئے، ورنہ حادثے پیش آ سکتے ہیں۔ اقتدار میں آنے سے پہلے تحریکِ انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان نے سخت موقف اختیار کیا تھا کہ وہ حکومت میں آنے کے بعد خودکشی کر لیں گے مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔ اقتدار میں آ جانے کے بعد اُنہیں معلوم ہو جانا چاہئے تھا کہ ادائیگیوں کا توازن کس حد تک بگڑا ہوا ہے مگر اُن کے وزیرِخزانہ جناب اسدعمر نے یہ تاثر دیا کہ وہ دوستوں کی مدد سے ادائیگیوں کا توازن قائم کر لیں گے چنانچہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیراعظم کی سرگرم سفارت کاری سے پاکستان چین، سعودی عرب اور امارات سے آٹھ دس ارب ڈالر حاصل کرنے میں کامیاب رہا جو چند ماہ کے اندر ہی ادائیگیوں کی نذر ہو گئے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی شرائط بھی سخت ہوتی گئیں اور حکومت کی معاشی کارکردگی کا بھرم بھی کھلتا گیا۔ وزیرِخزانہ معاملات سنبھالنے کی اہلیت سے غالباً محروم ہوتے گئے۔ آخرکار وہ مذاکرات کے لئے واشنگٹن گئے اور واپسی پر اعلان کیا کہ معاہدے کے بنیادی نکات طے پا گئے ہیں مگر متعلقہ اداروں کو احساس ہو گیا تھا کہ حالات ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں، چنانچہ راتوں رات معاشی ٹیم تبدیل کی گئی۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ مشیرِ خزانہ مقرر کئے گئے جو آئی ایم ایف کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے گورنر جناب طارق باجوہ غالباً آئی ایم ایف کی تمام شرائط مان لینے پر آمادہ نہیں تھے، اِس لئے وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔ اُن کی جگہ رضاباقر گورنر اسٹیٹ بینک تعینات ہوئے جو مصر میں آئی ایم ایف کے نمائندے کے طور پر کام کر رہے تھے۔ ایف بی آر کے چیئرمین بھی تبدیل کر دیے گئے اور اُن کی جگہ پرائیویٹ سیکٹر سے شبرزیدی کا تقرر عمل میں آیا جو ٹیکس پالیسیوں کا گہرا اِدراک رکھتے ہیں۔ اِس نئی ٹیم نے چند ہی روز میں آئی ایم ایف کے اسٹاف سے معاہدہ طے کر لیا۔ اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں نے آئی ایم ایف کا معاہدہ مسترد کرتے ہوئے پھبتی کسی ہے کہ ’آئی ایم ایف نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کئے ہیں‘۔

سنجیدہ معاشی ماہرین کی رائے میں آئی ایم ایف سے معاہدے کے نتیجے میں پاکستان کی اقتصادی بہتری کے دروازے کھل گئے ہیں جو منصوبہ سازوں سے تقاضا کرتے ہیں کہ تین سال میں ملنے والے چھ ارب ڈالر نہایت احتیاط، کفایت شعاری اور دانش مندی سے استعمال کئے جائیں۔ جناب شبرزیدی ایف بی آر کو اِس طرح منظم کریں کہ وہ معاہدے کے مطابق سات سو ارب روپے کے اضافی محصولات جمع کر سکے اور جو نئی ایمنسٹی اسکیم آرڈیننس کے ذریعے نافذ کی گئی ہے، اُس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ شہریوں کو ٹیکس نیٹ میں لا سکے۔ اِسی طرح پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اِس طرح بڑھائی جائیں کہ عوام پر کم سے کم منفی اثرات مرتب ہوں۔ اگر ڈیزل کی قیمتیں اعتدال پر رکھی جائیں تو پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے نہیں بڑھیں گے اور عوام پر بوجھ کم پڑے گا۔ خدشات ہیں کہ امریکہ آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان میں سی پیک کے عظیم الشان منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش کرے گا اور پاکستان کو ڈی نیوکلیئر کرنے اور فوجی اخراجات میں کمی لانے اور ایران کے مدِمقابل کھڑا کر دینے کے حربے استعمال کرے گا۔ اِن خطرات کا داخلی استحکام اور مفاہمت کے جذبے سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور ترقی کی راہیں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ حکومت اور پارلیمان پر لازم ہے کہ کوئی بڑا فیصلہ عجلت اور ضدبازی میں نہ کیا جائے۔ فضول خرچی کے کلچر کی حوصلہ شکنی اور برآمدات کے فروغ کے لئے قوم کے اندر جوش و خروش پیدا کرنا ہوگا، تبھی ہم کڑی آزمائش کی سختیوں سے نجات پا سکتے ہیں۔

تازہ ترین