• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی معیشت تقویت پکڑنے اور اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کی بجائے مزید مشکلات کا شکار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ملکی تاریخ میں قرضہ ہی نہیں مہنگائی بھی اپنی بلند ترین سطح تک پہنچ چکی ہے جس میں مزید اضافہ کا قوی امکان ہے کہ ڈالرمزید 6روپے مہنگا ہو کر 150روپے تک پہنچ گیا ہے۔ سب ذی شعور جانتے ہیں کہ پاکستان کے حالیہ معاشی بحران کی وجہ کیا ہے لیکن یہ وقت ایسی کسی بحث میں الجھنے کا نہیں۔ کوئی شک نہیں کہ حکومت نے مذکورہ بحران سے نبردآزمائی میں اپنے تئیں بھرپور کوشش کی، فوری طور پر آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کی بجائے اپنے دوست ممالک سے روابط بڑھائے لیکن معاملات اس حد تک خراب تھے کہ تمام تر کاوشیں ناکافی ثابت ہوئیں اور پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہی بنی۔ اس پر اپوزیشن کی طرف سے تلخ نوائی بھی جاری ہے اور طعن و تشنیع بھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کے سوا کوئی اور راستہ تھا جس پر چل کر اپنی متزلزل معیشت کو استحکام بخشاجا سکتا؟کیا موجودہ حکومت سے قبل کوئی حکومت آئی ایم ایف کے پاس نہیں گئی؟۔ جہاں تک آئی ایم ایف کے پروگرام کا تعلق ہے اس کے بارے میں قیاس آرائیاں ہیں کہ یہ ملکی تاریخ کا سخت ترین پروگرام ہوگا کہ اس کی شرائط محض معاشی ہی نہیں سیاسی بھی ہوں گی، یہ بھی شنید ہے کہ اس پروگرام کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی کلیئرنس سے مشروط کرنے کی بھی تجویز ہے۔ پچھلی تین دہائیوں سے پاکستان کی ہر حکومت آئی ایم ایف کے اسٹرکچرل پروگرام میں شامل ہوئی لیکن ملک کی معاشی صورتحال بد سے بدتر ہوتی چلی گئی،اس کی وجہ کچھ تو آئی ایم ایف کی شرائط تھیں اور کچھ ہماری اپنی کوتاہیاں۔ پاکستان کی معاشی بدحالی کا اندازہ اس امرسے بھی کیا جاسکتا ہے کہ حکومت نے اپنی اقتصادی ٹیم تبدیل کر دی۔ معاشی معاملات جس حد تک خراب ہو چکے ہیں آئی ایم ایف پروگرام ان کو سنبھالنے میں کچھ دیر تک تو معاون ثابت ہوسکے گا لیکن اگر ہمیں ایسے بحرانوں سے ہمیشہ کے لئے گلو خلاصی اور ترقی و خوشحالی درکار ہے تو اس کے لئے بہت کچھ کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے اپنے سیاسی رویوں کو بدلنا ہوگا، حکومت آئی ایم ایف پروگرام پر مشاورت کے لئے اپوزیشن کے ساتھ مل بیٹھ کر حکمت عملی طے کرے۔ اپوزیشن بھی حب الوطنی کا مظاہرہ کرکے ملک کی بہتری کے لئے مفید مشورے ہی دے گی۔ دنیا میں کہیں بھی سیاسی استحکام کے بغیر اقتصادی استحکام کا حصول ممکن نہیں۔ جب بھی ہم دنیا کے چند ممالک کی ترقی کی مثال دیتے ہیں یہ بھول جاتے ہیں کہ ان ممالک نے جو معاشی پالیسیاں وضع کیں ان پر من و عن عمل کیا ، حکومتوں کی تبدیلیوں سے معاشی پالیسیوں پر کوئی اثر نہ پڑا۔ معاشی پالیسیاں کوئی پھلجھڑی بھی نہیں ہوا کرتیںکہ ادھر چھوڑیں اور ادھر آسمان میں رنگ اور روشنیاں بکھر گئیں۔ معاشی پالیسیوں کے ثمرات سامنے آنے میں برسوں لگتے ہیں۔ 5سال کا عرصہ تو پالیسیاں وضع کرنے اور ان پر عملدرآمد کرانے میں صرف ہو جاتا ہے اور اتنے میں انتخابات سر پر آ ن پہنچتے ہیں۔ یہ حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ حکومت سیاسی انتشار کے خاتمے کے لئے شاہد خاقان عباسی کی ’’میثاق معیشت‘‘ کی تجویز پر بین الجماعتی گفت و شنید کا آغاز کرے۔ یہ وطن عزیز کی اہم ضرورت ہے تاکہ حکومتوں کی تبدیلی معاشی پالیسیوں کو تبدیل یا ختم کرنے کا باعث نہ بنے۔ ضرورت پیش آئے تو اس پر قانون سازی کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں تاکہ بعد میں آنے والی حکومتوں کے پاس کوئی بہانہ نہ ہو۔ یہ کام اگرچہ مشکل دکھائی دیتا ہے تاہم ہمارے سیاستدا ن وطن عزیز کی خاطر اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایسا کوئی کارنامہ سرانجام دے دیں تو ایک ایسا راستہ میسر آ سکتا ہے جو پاکستان کو خودکفالت کی منزل تک پہنچا دے۔ حکومت آل پارٹی کانفرنس بلاکر ایک معاشی ایجنڈا تیار کرے، جو درحقیقت میثاق معیشت ہی ہوگا۔ لازم ہے کہ سبھی سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر ملک کی معیشت کو سنبھالیں، امید ہے اس طرف پیش رفت جلد ہوگی۔

تازہ ترین