• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دوستو!الفاظ کا جادو جگانا اور بات ہے لیکن کردار کا جوت جگانا بالکل مختلف کہانی ہے۔ تقریر کی لذت سے لوگوں کو مدہوش کرلینا وقتی کرامت ہوتی ہے لیکن کردار سے متاثرکرنا مستقل کارنامہ ہوتا ہے۔ الفاظ کی جادوگری اور تپش میں لوگوں کو پگھلانا لمحوں کا کھیل ہوتا ہے اور یہ جادو دنوں میں ختم ہوجاتا ہے جبکہ شخصیت، سچائی اور خلوص کا جادو سر چڑھ کر بولتا اور تاریخ کے صفحات میں اپنے نقوش چھوڑ جاتا ہے۔ پاکستان نے ان گنت ایسے مقررین دیکھے جو الفاظ کی زنجیروں میں سامعین کو جکڑ لیتے تھے ، لوگوں کو رات سے صبح ہونے کا احساس تک نہیں ہوتا تھا، وقت ہوا کی رفتار سے اڑ جاتا تھا لیکن آج تاریخ کے صفحات میں ان کا نام و نشان بھی موجود نہیں کیونکہ تاریخ بھی الفاظ کو اسی وقت اپنے دامن میں سمیٹتی ہے جب الفاظ نے قوم کا مقدر بدلا ہو، لوگوں کی صحیح رہنمائی کی ہو اور انہیں منزل مقصود تک پہنچایا ہو۔ یوں تو ہندوستان کے مسلمانوں نے ان گنت عوامی مقرر اور لوگوں کو جذباتی تقریروں میں بہا لے جانے والے قائدین پیدا کئے لیکن آج اگر تاریخ کی ورق گردانی کریں تو فقط چند ایک نام ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ راجہ محمود آباد کا آغاز اور اٹھان تو مذہبی سکالر کی تھی اور اپنے وقت میں وہ سیرت النبی پر تقریریں کرتے تو سامعین کے قلب و نگاہ کو منور کرتے تھے۔ پھر وہ قائد اعظم کے دوستوں میں شامل ہوئے تو مسلم لیگ کی رونقیں بڑھانے لگے۔ انہوں نے قائد اعظم کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے دلوں میں آزادی کی شمع جلائی اور بالآخر اسی شمع کی روشنی نے قیام پاکستان کی راہ دکھائی۔ راجہ محمد امیر احمر خان آف محمود آباد دل کھول کر مسلم لیگ کو چندے بھی دیتے تھے اور مسلم لیگ کی متحدہ ہندوستان کی آخری ورکنگ کمیٹی (1945-47)کے سرگرم رکن بھی تھے۔ اسی طرح کے ایک اہم مسلم لیگی مقرر نواب بہادر یار جنگ تھے جو اپنی تقریروں سے مسلمان عوام کو گرما تے اور ان میں علیحدہ وطن کے حصول کے لئے جوت جگاتے۔ اس وقت مجھے ان کی ایک تقریر کے چند فقرے یاد آرہے ہیں آپ بھی پڑھ لیجئے۔ نواب بہادر یار جنگ اعلیٰ پائے کے مقرر اور لوگوں کوالفاظ کے جادو سے مسحور کرنے والے مقرر تھے۔ 1943ء میں مسلم لیگ کے کراچی جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا ”میں کمیونسٹ ہوں اگر اس کا مطلب غربت اور طبقاتی امتیاز مٹانا ہے اور اگر اس کا مطلب لوگوں کو روٹی، کپڑا، مکان مہیا کرنا ہے لیکن ظاہر ہے کہ میں خدا سے منکر کمیونزم کا پیرو نہیں ہوسکتا۔ قائد اعظم اجلاس پر صدارت کررہے تھے۔ نواب بہادر یار جنگ نے انہیں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں امید رکھتا ہوں مسلم لیگ کی پلاننگ کمیٹی ایسا معاشی پروگرام پیش کرے گی جس کی بنیاد قرآنی عدل پر ہوگی۔ ہم نے مطالبہ پاکستان کو اسی پس منظر میں سمجھا ہے اور اگر آپ کا پاکستان ایسا نہیں جس طرح ہم نے سمجھا ہے تو پھر ہمیں پاکستان نہیں چاہئے۔ بحوالہ خالد بن سعید(پاکستان فار میٹو نیز صفحہ 208) نواب بہادر یار جنگ نے لاہور کے تاریخی اجلاس منعقدہ مارچ1940ء میں بھی معرکہ آراء تقریر کی تھی جو تاریخ پاکستان کا حصہ بن چکی ہے۔ قوم نے انہیں لسان الامت یعنی امت کی زبان کے خطاب سے نوازا۔ ان کا انتقال قیام پاکستان سے قبل جون1944ء میں ہوگیا لیکن وہ تاریخ پاکستان کے صفحات پر ابدی نقوش چھوڑ گئے۔ ان کا شمار پاکستان کی نظریاتی بنیاد رکھنے والے مقررین میں ہوتا ہے۔
ہندوستان میں تحریک آزادی اور مسلمانوں کی رہنمائی کے حوالے سے ایک اور مقرر جو ہماری تاریخ میں امر ہوگئے اور ان کے نام آج بھی زندہ ہے وہ تھے مولانا محمد علی جوہر، مولانا محمد علی بیک وقت اعلیٰ پائے کے مقرر خطیب اور شاندار لکھاری تھے یعنی وہ زبان اور قلم دونوں میدانوں کے شہسوار تھے۔ یہ خوبیاں کم کم لوگوں میں یکجا ہوتی ہیں۔ تحریک آزادی کے آغاز کے دور میں انہوں نے انگریزوں کا خوف مٹانے اور آزادی کی شمع جلانے میں کلیدی کردار سرانجام دیا اور نتیجے کے طور پر بار بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ایک طرف وہ اپنے رسالے”کامریڈ“ اور”ہمدرد“ کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں پر چھائے رہتے تھے تو دوسری طرف الفاظ کا جادو جگا کر عوام کے دلوں پر حکومت کرتے تھے۔ ہندوستان میں تحریک خلافت اور تحریک ترک حوالات اور عدم تعاون اپنی کامیابی کے لئے مولانا محمد علی جوہر کی مرہون منت ہیں۔ تحریک خلافت میں گاندھی جی نے مسلمانوں کی حمایت جیتنے کے لئے مولانا جوہر کے ساتھ مل کر کام کیا لیکن جلد ہی مولانا جوہر کانگریس اور گاندھی سے بدظن ہوگئے۔1925ء میں تقریر کرتے ہوئے مولانا جوہر نے کہا”میر جیسا گنہگار مسلمان بھی گاندھی سے بہتر ہے“ مولانا محمد علی جوہر کی کوششوں سے قائد اعظم محمد علی جناح مسلم لیگ کی طرف راغب اور مائل ہوئے اور پھر مولانا نے قائد اعظم کے چودہ نکات کی تیاری میں اہم کردار سرانجام دیا۔ بغور پڑھیں تو چودہ نکات کی شکل میں دراصل پاکستان کی بنیاد رکھی جارہی تھی۔ مولانا محمد علی زبان نہیں، کردار کے غازی تھے اور سرپاتا اخلاص کا عملی نمونہ تھے۔ 1930ء میں گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے لندن گئے، وہاں انہوں نے انگریز حکمرانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا”میں ایک غلام ملک میں واپس نہیں جاؤں گا یا تو آپ کو مجھے پروانہ آزادی دینا ہوگا یا پھر مجھے قبر کے لئے جگہ دینا ہوگی“۔ الفاظ سچے ہوں، دل کی گہرائیوں سے نکلے ہوں اور خدا پر پورا یقین ہو تو ا للہ سبحانہ تعالیٰ الفاظ کا بھر م رکھ لیتے ہیں ورنہ تو ہم ہر روز دیکھتے ہیں کہ زبان سے بغیر اخلاص نکلے ہوئے الفاظ ہوا میں گرد کی مانند اڑ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے محمد علی جوہر کی خواہش پوری کردی اور جنوری1931ء میں ان کا لندن ہی میں انتقال ہوگیا۔ انہیں ہندوستان نہیں بیت المقدس میں دفن کیا گیا جہاں محمد علی جوہر کی روح آج بھی بیت المقدس کی آزادی کے لئے بے چین ہے۔ سبحان اللہ کیسی یادگار موت اور کیسی یادگار آرام گاہ۔
کہنے کا مطلب یہ تھا کہ انسان کو محض اس کے الفاظ کا جادو، تقریر کی شعبدہ بازی اور شعلہ بیانی زندہ نہیں رکھتی بلکہ تاریخ میں جگہ پانے کے لئے اخلاص، کردار اور قومی مفادات کے لئے بے پناہ ایثار ضروری ہوتا ہے، اگر شعلہ بیانی کسی وقتی مقصد کے حصول اور قومی مفادات کے منافی ہو ،صرف شہرت کی حریص ہو تو اس کا چراغ دنوں میں بجھ جاتا ہے ۔ بے شک آپ ہزاروں لوگوں کو اپنے الفاظ کی کڑیوں میں جکڑ رکھیں لیکن وقت اسے نقش برآب بنادے گا۔ جیسے بہتے پانی پر کوئی نقش نہیں ٹھہرتا اسی طرح ایسے جوشیلے خطابات بھی وقت کے بہتے دریا میں بہہ جاتے ہیں۔ آج کل مجھے نہ جانے کیوں مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری بہت یاد آتے ہیں۔ پٹنہ صوبہ بہار بھارت میں پیدا ہونے والے مولانا عطاء ا للہ شاہ بخاری اپنے دور کے بے مثل خطیب اور مقرر تھے۔ انہوں نے زندگی انگریزوں اور قادیانیت کے خلاف جدوجہد میں گزاردی۔ ہمارے محترم شورش کاشمیری انہی کے سیاسی چیلے تھے اور بخاری صاحب کی مانند اعلیٰ پائے کے خطیب تھے۔ میں نے عطاء اللہ شاہ بخاری کو کبھی نہیں سنا، وہ ہمارے بچپن ہی میں جوہر دکھا کر گردش لیل و نہار میں گم ہوگئے لیکن شورش کاشمیری کو سننے کا موقع کئی بار ملا۔ مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری پیدائشی مقرر تھے۔ قدرت نے انہیں خطابت کے جوہر سے نوازا تھا اور بزرگ بتاتے ہیں کہ ان کے سامنے کسی کا چراغ نہیں جلتا تھا۔ میں نے کئی بزرگوں سے سنا کہ مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری عشاء کے بعد جلسہ عام سے خطاب شروع کرتے ، اشعار، چٹکلوں اور آیات قرآنی سے سامعین کو بہلاتے اور دلوں کے تار چھیڑتے اور فجر کی اذان تک لوگوں کو تقریر کے جادو میں اس طرح جکڑ کر رکھتے کہ کئی گھنٹے گزرجانے کا احساس تک نہ ہوتا۔
لیکن تاریخ بڑی ظالم ہے، تاریخ میں الفاظ نہیں کردار زندہ رہتا ہے۔ الفاظ کا سچا مقصد اور اخلاص کردار کی تشکیل کرتا ہے اور پھر کردار بن جاتا ہے۔ مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کے مقابلے میں قائد اعظم درمیانے درجے کے مقرر تھے۔ ان کی انگریزی تقریر عام طور پر سامعین اور ناظرین کے سروں کے اوپر سے گزر جاتی تھی لیکن سننے والے بغیر سمجھے کہتے تھے”بابا جو کہہ رہا ہے سچ کہہ رہا ہے“ انہیں قائد اعظم کے ا لفاظ پر بغیر سمجھے اندھا یقین تھا جبکہ وہ گھنٹوں مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کی تقریروں سے لطف اندوز ہوتے اور ان کی سیاسی سوچ سے متاثر ہوئے بغیر گھروں کو چلے جاتے۔مولانا بخاری مجلس احرار اسلام کے امیر تھے اور قیام پاکستان کے مخالف تھے جبکہ مسلمان پاکستان کا خواب آنکھوں میں سجائے پھرتے تھے، چنانچہ مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری جیسے بے مثل مقرر اور خطیب کو بھی کہنا پڑا ”لوگ تقریریں میری سنتے ہیں اور ووٹ مسلم لیگ کو دیتے ہیں“ ان کا ملتان میں انتقال 1961ء میں ہوا، آج لوگ ان کا نام بھی بھول چکے ہوں گے مطلب یہ کہ جو تقریر لوگوں کے جذبات کی عکاسی نہ کرے اور جو کردار سواد اعظم کے دلوں میں جگہ نہ بنائے وہ پانی پر ابھرنے والے نقش کی مانند وقت کے دریا میں بہہ جاتا ہے۔ الفاظ عمل اور کردار کے ساتھ مل کر ہی رنگ دکھاتے اور تاریخ میں جگہ پاتے ہیں۔ عمل یعنی کردار کے بغیر منہ سے نکلنے والے الفاظ اس درخت کی مانند ہوتے ہیں جو کبھی پھل نہیں دیتا
کہہ دو ان حسرتوں سے ،کہیں اور جابسیں
کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں
تازہ ترین