• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسرت

نہال کھانے پینے کا بہت شوقین تھا،ہروقت کچھ نہ کچھ کھاتا ہی رہتا تھا۔ اس کا وزن الگ بڑھتا جارہا تھا، جس کی وجہ سے وہ کھیل کود میں بھی حصہ نہیں لیتا تھا۔ بس اس کو بیٹھے بیٹھے نت نئی چیزیں کھانے کو چاہیے تھیں۔ اس کی امی اسے بہت سمجھاتی تھیں، مگر وہ ضد کرکے اپنی بات منوالیتا۔ رمضان شروع ہوئے تو اس دفعہ اس کے چھوٹے بہن بھائیوں نے بھی روزہ رکھا۔ ناچار عزت کا سوال تھا نہال کو بھی رکھنا پڑا۔ سب بہن بھائی نماز و تلاوت کررہے تھے اور اس نے سارا دن سو کر اور ٹی وی دیکھ کر گزارا۔ افطار کا وقت جیسے جیسے قریب آتا جارہا تھا، اس کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوتا جارہا تھا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر چھوٹے بہن بھائی خوب ہنس رہے تھے۔ افطار سے پہلے سب دعا مانگنے میں مشغول تھے اور اس کی نظریں دستر خوان پر سجی افطاری پر تھیں۔ اذان کی آواز سنتے ہی وہ افطاری پر ٹوٹ پڑا۔ امی نے کہا ’’ایک دم اس طرح جلدی جلدی نہیں کھاتے طبیعت خراب ہوجائے گی۔‘‘ اس نے امی سے کہا ’’میں مزید روزے نہیں رکھوں گا، مجھ سے بھوک برداشت نہیں ہوتی۔‘‘ ’’ارے بیٹا بری ! بات، آپ تو بڑے ہو اور دیکھو آپ کے چھوٹے بہن بھائی کتنے شوق سے روزہ رکھ رہے ہیں، نماز اور قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو کتنا اچھا لگتا ہے۔ یہ مہینہ تو بہت برکتوں والا ہے۔ افطار میں اللہ کیسی کیسی نعمتیں عطا کرتا ہے اور تم ہو کہ روزہ رکھنے سے انکار کررہے ہو، جیسے مال کی زکوٰۃ ہوتی ہے اسی طرح روزہ جسم کی زکوٰۃ ہے اور آپ تو اب 13سال کے ہوگئے ہو آپ پر تو نماز روزہ فرض ہے، آپ اس ماہ کے پورے روزے رکھو گے۔‘‘ امی نے اسے سمجھایا۔ ’’اچھا دیکھا جائے گا‘‘ کہہ کر اس نے بات کو ٹالنے کی کوشش کی۔ اگلے روز امی نے اسے سحری میں اٹھانا چاہا،مگر وہ نہ اٹھا۔ تھک ہار کر امی دوسرے بچوں کو اٹھانے چلی گئیں۔ دوپہرکو اسے بھوک لگی تو اس نے سوچا چلو جاکر برگر کھاتا ہوں۔ جب وہ دکان پر پہنچا تو وہ بند تھی۔ دکان کے باہر بیٹھے ایک بزرگ سے پوچھا ’’ارے بابا! یہ دکان آج کیوں بند ہے؟ بزرگ نے حیرت سے اسے دیکھا اور کہا کیا تمہیں نہیں معلوم کے رمضان کا مہینہ شروع ہوگیا ہے اور اس کے احترام میں کھانے پینے کی دکانیں دوپہر میں بند ہوتی ہیں، شام کو کھلیں گی۔ نہال نے پوچھا ’’بابا! کیا آپ کا بھی روزہ ہے‘‘۔ ’’ہاں ! الحمدللہ میں مسلمان ہوں اور روزہ ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘ اتنے میں ایک چھوٹا بچہ برابر کے گھر سے روتا ہوا بزرگ کے پاس آیا اور ان سے لپٹ کر مزید زور زور سے رونے لگا پیچھے پیچھے اس کی ماں آئی ارے بیٹا ! دادا کو کیوں تنگ کررہے ہو یہ لو پانی پی لو۔ نہال نے کہا آنٹی! یہ کیوں رو رہا ہے۔ ارے کچھ نہیں بیٹا ! بس بھوکا ہے نا۔‘‘ انہوں نے بچے کو گود میں لیتے ہوئے کہا اور پانی پلانے لگیں۔ نہال نے حیرت سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا تو ’’آپ اسے کچھ کھانے کو دیں پانی سے پیٹ نہیں بھرے گا۔‘‘ ’’اس کے ابو کام پر گئے ہیں رات کو آئیں گے تو کچھ کھانے کو لائیں گے ۔انٹی نے کہا اور بزرگ سے مخاطب ہو کر کہنے لگیں ’’ابا گھر میں آجائیں لائٹ آگئی ہے۔‘‘ نہال سے رہا نہ گیا پھر سوال کیا ’’تو آپ لوگ روزہ کس چیز سے کھولیں گے، افطاری کیسے کریں گے۔‘‘ آنٹی نے بڑے پرسکون انداز میں جواب دیا ’’پانی سے۔‘‘ ان کے چہرے پر اطمینان دیکھ کر اسے بڑی حیرت ہوئی اور اسی کیفیت میں وہ گھر کی طرف چل پڑا۔ گھر میں داخل ہوا تو اس کے چہرے پر پریشانی دیکھ کر امی نے پوچھا ’’بیٹا کیا بات ہے؟‘‘ نہال نے ساری بات امی کو بتائی اور پھر امی سے لپٹ کر رونے لگا ’’میں کتنا گندا بچہ ہوں اللہ نے مجھے اتنا نوازا ہے پھر بھی روزہ نہیں رکھتا۔‘‘’’بیٹا ! تمہیں دراصل عادت نہیں ہے نہ سختی برداشت کرنے کی، رمضان کا مہینہ ہمیں یہی تو درس دیتا ہے کہ صبروتحمل، برداشت کی عادت ڈالیں، ہر برائی سے دور رہیں زیادہ سے زیادہ نیک کام کریں، عبادت کریں۔‘‘ امی جان نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار سے سمجھایا۔

’’امی جان! میں کل سے پورے روزے رکھوں گا نماز پڑھوں گا۔‘‘

’’بہت اچھا فیصلہ ہے لیکن اس کے ساتھ نیک کام بھی کرنا اور وہ تم آج سے ہی شروع کرو گے۔‘‘ امی نے کہا’’وہ کیسے؟‘‘ نہال نے پوچھا ’’وہ ایسے کہ تم اب روزانہ آنٹی کے ہاں افطاری لے کر جایا کرو گے۔‘‘ امی نے کہا’’ارے ہاں یہ تو میں آپ سے کہنے ہی والا تھا، یہ نیک کام تو میں لازمی کروں گا۔‘‘ نہال نے بڑے پرجوش انداز میں کہا۔

شام کو افطار سے کچھ وقت پہلے امی نے افطاری کا سامان اور رات کے کھانے کے لیے سامان باندھ کر نہال کو دیا۔ ساتھ ایک بوتل میں بچے کے لیے دودھ بھی رکھ دیا۔ نہال خوشی خوشی آنٹی کے گھر گیا اور انہیں تمام چیزیں دےکر کہا ’’آنٹی آپ نے مجھے احساس دلایا کہ صبر و برداشت کیا ہوتا ہے، میں تو روزہ نہیں رکھ رہا تھا لیکن کل سے میں سارے روزے رکھوں گا اور اپنے آس پاس رہنے والے ضرورت مندوں کی مدد بھی کروں گا۔‘‘ آنٹی نے پہلے تو سامان لینے سے انکار کیا لیکن جب اس کا جذبہ دیکھا تو رکھ لیا اور اسے ڈھیروں دعائیں دیں۔ اگلے روز سحری میں امی کے جگانے سے پہلے ہی وہ جاگ گیا اور رمضان کے پورے روزے اس نے بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ رکھے اور پابندی سے آنٹی کے ہاں افطار بھی لے کر جاتا، دادا بھی اسے خوب دعائیں دیتے تھے۔

پیارے بچو! زندگی کی اصل خوشی ہی دوسرے کی مدد کرکے ملتی ہے آپ بھی اپنے اطراف پر نظر رکھیں اور ضرورت مندوں کی مدد کریں، اللہ کی رضا اسی میں ہے۔

تازہ ترین