• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تاریخ خود کو دہراتی ہے، یہ محاورہ ہے۔ تاریخ نے خود کو جس قدر پاکستان میں دہرایا ہے، شاید ہی کبھی کسی دوسرے ملک میں دہرایا ہو۔ تاریخ میں پینسٹھ برس کا عرصہ لمحہ کے برابر ہوتا ہے۔ صرف پینسٹھ برس پہلے زمین کا یہ حصہ جس پر ہم نے پاکستان بنایا ہے، ہر لحاظ سے ہندوستان کا حصہ تھا۔ تقسیم ہند کے پینسٹھ برس بعد اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کی تعداد پاکستان میں آباد مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ بٹوارے کے نتیجے میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سیاسی سرحد کھڑی ہو گئی ہے۔ سرحد کے پار ہندوستان ہے اور سرحد کے اس بار پاکستان ہے۔ میں جس پاکستان کا ذکر کر رہا ہوں اس میں مشرقی پاکستان بھی شامل ہے جو 1971ء میں مغربی پاکستان سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد بنگلہ دیش بن کردنیا کے نقشے پر ابھر آیا ہے اور ہر لحاظ سے مغربی پاکستان جس کو ہم پاکستان کہتے ہیں، اس سے ہر شعبے میں آگے نکل گیا ہے۔
مشرقی پاکستان کیوں اور کیسے مغربی پاکستان سے الگ ہوا؟ وجوہات کیا تھیں؟ تاریخ کے صفحے پلٹنے کے بجائے ہم کروٹیں بدلتی ہوئی تاریخ کو دیکھتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کی بے چینی، احتجاج، مطالبات اور حقوق کے تقاضوں کو سمجھنے اور منصفانہ حکمت عملی اپنانے کے بجائے اس وقت کے حکمرانوں نے جو جارحانہ رویہ اختیار کرنے کی فاش غلطی کی تھی وہی غلطی موجودہ حکمران بلوچستان کے مسائل کے حل کے لئے کر رہے ہیں۔ سندھ کے لوگ جنگجو، مہم جو اور لڑاکو نہیں ہیں ورنہ جو حالات سندھ کے ہیں، سندھی کب کے حکومت کے خلاف نبرد آزما ہو چکے ہوتے۔ پرانے سندھیوں کے برعکس نئے سندھی منظم ہیں، لڑ سکتے ہیں، اپنی بات منوا سکتے ہیں۔ حکومتیں ان کو نظر انداز نہیں کر سکتیں۔ ان سے ٹکراؤ سے گریز کرتی ہیں۔ اس کے برعکس حکومتیں پرانے سندھیوں کو محض اس لئے کچل ڈالتی ہیں کہ ان میں پھوٹ ہے، قبیلائی تفریق ہے، ذاتی پرانی چپقلشیں ہیں، ایک دوسرے سے نفرتیں ہیں، صدیوں پرانی عداوتیں ہیں۔ اس قدر تتر بتر اور منتشر لوگوں کو کچلنا حکومتوں کے لئے مشکل نہیں ہوتا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی تاریخ خودکو بلوچستان میں دہرا رہی ہے۔ بلوچ عین بنگالیوں کی طرح ناانصافی اور حقوق کی پامالی قبول نہیں کرتے۔
آج کے قصے میں مدعا سیاست میں تاریخ کا دہرانا نہیں ہے۔ ہم دیکھیں گے غیر سیاسی امور میں تاریخ کا دہرانا۔ پاکستان میں ناقص سیاسی رویوں نے وبا کی صورت اختیار کرلی ہے اس لئے شاید ہی کوئی شعبہ ہو جس میں ہم نے سیاسی جراثیم کی موجودگی محسوس نہ کی ہو۔ پچھلے دنوں ہمارے ٹیلیویژن فنکاروں یعنی آرٹسٹوں نے جلسے جلوس نکالے تھے، ملک کے پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کیا تھا۔ ان کا تقاضا تھا کہ ٹیلیویژن چینلوں سے دکھائے جانے والے اردو میں ڈب کئے گئے غیر ملکی ڈرامے بند کئے جائیں۔ ان کی ٹیلی کاسٹ پر بندش لگائی جائے۔ ان کو اعتراض تھا کہ اردو میں ڈب کئے گئے ڈرامے دکھائے جانے کی وجہ سے پاکستان میں ٹیلی پلیز یعنی ٹیلیویژن ڈرامے بننا کم ہوتے جا رہے ہیں۔ کئی فنکاروں کے لئے ڈرامہ میں کام کرنا ذریعہ معاش ہے، یہ ان کا پروفیشن ہے۔ اردو میں ڈب غیر ملکی ڈراموں کی وجہ سے پاکستانی چینلوں کے لئے بننے والے ڈراموں کی تعداد میں کمی آگئی ہے۔ اس طرح پاکستان کے ٹیلیویژن فنکاروں کا معاشی استحصال ہو رہا ہے۔
آج سے پچاس برس پہلے 1962ء میں پاکستان فلم آرٹسٹوں اور پروڈیوسروں نے عین اسی طرح جلسے جلوس نکالے تھے، پریس کانفرنسیں کی تھیں۔ منسٹری آف انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ اور منسٹری آف کلچر کے اعلیٰ افسران کے علاوہ ڈکٹیٹر صدر ایوب خان سے ملے تھے۔ ان کا موقف تھا کہ ہندوستانی فلموں پر بندش کی جائے تاکہ پاکستانی فلم انڈسٹری پھل پھول سکے اور دوسرے یہ کہ ہندوستانی فلمیں دکھانے سے ملک میں فحاشی اور عریانی پھیلتی جا رہی ہے۔ ڈکٹیٹر ایوب خان کی حکومت نے مطالبہ مانتے ہوئے پاکستان کی سینماؤں میں ہندوستانی فلموں کی نمائش پر پابندی لگا دی تھی۔ اس دوران مولوی اور معاشرے کو پاک صاف رکھنے کے داعی میدان عمل میں آگئے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ انگریزی فلموں کی نمائش پر بھی پابندی لگا دی جائے ان کا کہنا تھا کہ ہندوستانی فلموں سے زیادہ فحاشی اور عریانی انگریزی فلموں میں ہوتی ہے۔ حکومت نے انگریزی فلموں کی نمائش پربھی پابندی لگادی۔
جب ہندوستانی فلموں پر پابندی لگادی گئی تھی اس وقت پاکستان فلم انڈسٹری مشکل سے ایک سال میں بیس فلمیں بنا سکتی تھی۔ اس وقت پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق دو ہزار سینما ہوتے تھے۔ حکومت وقت نے ہندوستانی فلموں پر پابندی تو لگادی تھی، لیکن قطعی نہیں سوچا تھا کہ بیس فلموں سے دو ہزار سینما کیسے چلائے جا سکتے ہیں! ایک سینما کم سے کم پچاس گھرانوں کا چولہا جلائے رکھتا تھا۔ ان میں ٹکٹ کلرک، ٹکٹ چیکر، کینٹین چلانے والے، پروجیکٹر آپریٹر، پردہ اٹھانے اور گرانے والے، سینما کی صفائی رکھنے والے، دفتر میں کام کرنے والے شامل تھے۔ اس کے علاوہ سینما کے باہر ٹھیلوں پر مونگ پھلی، چلغوزے، ریوڑیاں اور گنڈیریاں بیچنے والے کھڑے رہتے تھے۔ انٹرویل کے دوران ان کی اچھی خاصی بِکری ہو جاتی تھی۔ حکومت نے ایک لمحے تک نہیں سوچا کہ پاکستان فلم انڈسٹری میں بننے والی بیس فلموں سے دو ہزار سینما گھروں کا کاروبار کیسے چلے گا؟ قلم کی نوک سے حکومت نے ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو بیروزگار کر دیا۔ چلانے کے لئے فلمیں نہ ملنے کی وجہ سے سینما بند ہونے لگے، دیکھتے ہی دیکھتے سینما گھر گرا کر مالکان نے شوروم اور اپارٹمنٹ عمارتیں کھڑی کردیں۔ کراچی صدر کے سینما گھر پیراڈائز کی جگہ آپ کو اب ہوٹل دکھائی دے گا۔ ایک سینما کو گرا کر کلاتھ مارکیٹ میں بدل دیا گیا ہے۔ قائد اعظم کے گھر کے سامنے سینما میں کاروباری دفاتر کھل گئے ہیں قریب ہی کراچی کے پہلے اوپن ایئر سینما کی جگہ ایک ریستوران کھول دیا گیا ہے۔ ان سینماؤں میں انگریزی فلمیں چلا کرتی تھیں۔ مشہور زمانہ فلم بن حر میں نے کیپٹل سینما میں دیکھی تھی اسی طرح بائیبل کے ایک قصے پر بننے والی کلاسیکل فلم سیمسن ڈیلائیلا میں نے پیراڈائز سینما میں دیکھی تھی صدر کا ایک اور خوبصورت سینما ریکس کی جگہ ایک بینکر اور بزنس مین نے کمرشل عمارت بنا ڈالی ہے۔ میرے کہنے کا مقصد ہے کہ حکومت کے ایک غلط فیصلے کی وجہ سے تمام ملک میں سینما کلچر تباہ ہو گیا۔ پاکستان فلم انڈسٹری میں بننے والی فلموں کی تعداد گھٹ کر دس پندرہ فلمیں سالانہ رہ گئیں اور کم ہوتے ہوتے بننے والی فلموں کی تعداد پانچ ہوگئی۔ اب تو شاید ایک دو ہی فلمیں سالانہ بنتی ہیں۔
پچاس برس پہلے1962ء میں فلم ایکٹروں اور پروڈیوسروں نے اور حال ہی میں پاکستان ٹیلیویژن آرٹسٹوں نے اپنے جلسے جلوسوں اور پریس کانفرنسوں میں ہم فلم بینوں اور ٹیلیویژن پروگرام دیکھنے والوں کو قطعی نظر انداز کر دیا تھا۔ انہوں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ہم کس قسم کی فلمیں اور ٹیلیویژن پروگرام دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب تو اچھی سے اچھی فلمیں اور ٹیلیویژن پروگرام ڈی وی ڈی اور انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ آپ انٹرٹینمنٹ کے کس کس ذریعے کو بند کرانے کے لئے دھرنے دیتے رہو گے؟ اپنا معیار بہترکرو بھائی۔
تازہ ترین