• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کو درپیش معاشی بحران روز بروز شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستانی روپیہ ملکی تاریخ کی بدترین بے قدری کا شکار ہے۔ معروف امریکی ایجنسی بلوم برگ نے گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران کارکردگی کے لحاظ سے پاکستانی روپے کو ایشیا کی بدترین کرنسی قرار دیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق روپے کی قدر میں یہ انحطاط غیر ملکی زرِ مبادلہ کی طلب و رسد کی عکاسی کرتا ہے۔ مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو بتایا جا رہا ہے۔ صدر فوریکس ایسوسی ایشن ملک بوستان کے بقول ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافے کی بنیادی وجہ روپے کی قدر میں پندرہ سے بیس فیصد کمی کی افواہیں ہیں۔ اس کے باعث بازار حصص میں 100 انڈیکس33000 پوائنٹس کی پست ترین سطح تک گر چکا ہے۔ ڈالر کی مہنگائی سے ملکی قرضوں کا بوجھ بھی روز بروز بڑھ رہا ہے۔ اس صورت حال میں کرنسی ڈیلروں کا یہ مشورہ نہایت صائب نظر آتا ہے کہ حکومت روپے کی قدر میں کمی کا ارادہ رکھتی ہے تو اس کا باقاعدہ اعلان کر دے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ ڈالر کی قیمت ایک متعین حد تک ہی بڑھے گی۔ یوں قیمت میں مسلسل اضافے کی توقع پر ڈالر کی ذخیرہ اندوزی رک جائے گی۔ پیر کو اسٹیٹ بینک کی جانب سے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان متوقع ہے اور عام تاثر ہے کہ شرح سود میں مزید اضافہ کیا جائے گا جبکہ یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ شرح سود میں اضافہ معاشی سرگرمی میں تنزل کا سبب بنتا ہے۔ گیس اور بجلی کے نرخ بڑھنے کی خبروں نے صنعتی اور گھریلو صارفین دونوں کے ہوش اڑا رکھے ہیں کیونکہ اس کا اثر لامحالہ تمام اشیاء کی لاگت اور قیمت میں بے پناہ اضافے کی شکل میں سامنے آئے گا۔ تاہم اطلاعات کے مطابق مشیرِ خزانہ حفیظ شیخ نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے وفد سے ملاقات کے بعد مارکیٹ کو سنبھالنے کے لیے اہم اقدامات کی منظوری دی ہے جن میں 17ارب روپے کے خصوصی فنڈ کا قیام بھی شامل ہے۔ امید ظاہر کی گئی ہے کہ اس فیصلے سے مارکیٹ کو سہارا ملے گا جبکہ ایف آئی اے نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ڈالر کی مصنوعی قلت روکنے کے لیے کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔ یہ اقدامات کتنے مؤثر ثابت ہوتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن یہ بہرحال ایک کھلی حقیقت ہے کہ ملک آج اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ان کی حکومت نے معاشی بحالی کے لیے اگرچہ سخت فیصلے کیے ہیں لیکن آئندہ چند ماہ میں ان کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ تاہم لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ جب دنوں اور ہفتوں میں عوام کے مسائل حل کرنے کی ماضی میں کرائی گئی خوشنما یقین دہانیاں خیالِ خام ثابت ہوئیں تو آج کیے جانے والے دعووں کا کیا اعتبار۔ وزیراعظم اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے موجودہ معاشی ابتری کی ساری ذمہ داری ماضی کی حکومتوں پر ڈالنے کی روش بدستور جاری ہے جبکہ اپوزیشن بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری پر احتجاجی مہم شروع کرنے کے لیے پر تول رہی ہے۔ حالانکہ ملک کو درپیش اس سنگین معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے قومی یکجہتی اولین ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے احتساب کے معاملے کو پوری طرح نیب و دیگر متعلقہ اداروں اور عدلیہ پر چھوڑ دیا جاے، اس شکنجے میں حکمراں اتحاد کے ارکان آئیں یا مخالف سیاسی جماعتوں کے یا دیگر شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ لوگ، ساری کارروائی شفافیت اور غیر جانبداری کے مکمل اہتمام کے ساتھ جاری رہنے دی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی جانب سے اپوزیشن کو مل بیٹھنے کی دعوت دی جائے، پارلیمنٹ کے اندر بھی الزام ترشیوں کا بازار گرم رکھنے کے بجائے سنجیدگی اور دل سوزی کے ساتھ قومی مسائل کے حل کی تلاش کا سلسلہ شروع کیا جائے اور قومی سطح پر بھی وسیع تر مشاورت کے ذریعے معاشی بحران سے نمٹنے کے اقدامات زیر غور لائے جائیں کیونکہ موجودہ معاشی بحران حکومتی ہی نہیں قومی مسئلہ بھی ہے جسے قومی اتحاد و یکجہتی ہی سے حل کیا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین