• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی زندگی میں نباتات کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، یہ نہ صرف ہمیں سایہ، صاف ہوا اور پھل پھول دیتے ہیں بلکہ ماحول کی خوبصورتی میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں درختوں اور پودوں کی اقسام مختلف کیوں ہیں؟ صحرائوں میں ہمیں کھجور اور چند پھلدار جھاڑیاں کیوں نظر آتی ہیں اور پہاڑوں اور میدانوں میں انواع و اقسام کے درخت کیوں؟ اس کی ایک وجہ ہائیکورٹ میں بیان کرکے لاہور، ملتان موٹر وے پر سفیدے کے درخت لگانے پر پابندی کی منظوری حاصل کی گئی ہے۔ ہائیکورٹ کے سامنے زرعی یونیورسٹی کی نئی تحقیق پیش کی گئی ہے کہ سفیدہ عام درختوں سے زیادہ پانی حاصل کرتا ہے اور زیرِ زمین پانی میں کمی کا باعث بن رہا ہے، یہ ڈینگی مچھر کی افزائش کا بھی باعث بنتا ہے اور اسے آگ بھی جلدی لگتی ہے، سفیدہ اس خطے کے لئے ٹھیک نہیں، اس خطے کے لئے پیپل، نیم اور شیشم جیسے درخت ہی سودمند ہیں۔ لازمی امر ہے کہ کسی کو کسی درخت سے کیا عداوت ہوگی کہ کوئی بھی ذی شعور درختوں کے اضافے کی یہ بات کرے گا ناکہ ان میں کمی کئے جانے یا ان کی کاشت روکنے کی، تاہم جہاں تک سفیدے کی بات ہے یہ اس خطے کا درخت نہیں، اس کا طبعی مسکن آسٹریلیا ہے اور یہ ہمارے خطے میں قریباً سو سال قبل متعارف ہوا۔ اس درخت کی ایک خوبی یہ ہے کہ کلر اور تھور زدہ زمینوں کے لئے کامیاب درخت ہے یعنی جو زمینیں زیادہ پانی کے باعث خراب ہو جائیں یہ وہاں خوب پھلتا پھولتا ہے کہ ایک تحقیق کے مطابق اسے روزانہ 29لٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ محض یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ سے اس درخت کی مخالفت اور حمایت میں تحقیقی مضامین و مقالہ جات لکھے جا رہے ہیں اور تحقیق بھی جاری ہے۔ فطری امر تو یہ ہے کہ جو درخت جہاں کے لئے بہتر ہے، وہیں پھلے پھولے کہ درختوں کا مقصد ماحول کو خوشگوار بنانا ہے۔ پاکستان میں سردست زیرِ زمین پانی کو محفوظ رکھنا ازحد ضروری ہے چنانچہ صرف سفیدے ہی نہیں تمام بدیسی درختوں پر تحقیق کرکے کوئی لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین