• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایثار کی فصل بہار۔ اپنے شباب پر ہے۔ نیکیوں کے شگوفے دائیں بائیں کھل رہے ہیں۔ انسان دوستی کی خوشبوئیں چاروں طرف پھیل رہی ہیں۔ صاحبان نصاب زکوٰۃ کا حساب لگارہے ہیں۔ زکوٰۃ کے پیسوں سے مستحقین کی تعلیم۔ علاج۔ روزگار کے سلسلے میں مدد کرنے والی تنظیمیں ادارے ایمان لانے والوں کو بتارہے ہیں کہ ان کی زکوٰۃ کسی ایک انسان کی زندگی کا چراغ بجھنے سے بچاسکتی ہے۔ عصر کی نماز ادا ہوتے ہی بڑی شاہراہوں کے دو رویہ مفت افطاری کے لیے چٹائیاں بچھنے لگتی ہیں۔ سرخ شربت۔ کھجوریں۔ سموسے۔ پکوڑے۔ روزے داروں کاانتظا ر کرتے ہیں۔ موبائل افطار کا بھی اہتمام ہے۔ آپ گھر جاکر اپنے اہل خانہ کے ساتھ روزہ کھولنا چاہتے ہیں۔ ٹریفک بہت زیادہ ہے۔ منزل نزدیک آتے آتے دور ہورہی ہے۔ کچھ نو عمر اپنے ہاتھوں میں منرل پانی کی بوتلیں لیے کھڑے ہیں ۔ ان پر دو کھجوریں چپکادی گئی ہیں۔ نہ جانے کس موڑ پر سورج غروب ہوجائے۔ افطار میں دیر نہ ہو۔ آپ چلتے چلتے روزہ کھول لیں۔

یہ ہے رمضان کا مہینہ۔ میں تو کراچی میں یہ حسین مناظر دیکھ رہا ہوں۔ آپ کے شہر میں بھی فرشتے اسی طرح اتر رہے ہوں گے۔ پاکستانیوں کے ضمیر اسی طرح بیدار ہورہے ہوں گے۔ مسجد میں ہمیں پہلے دوسری تیسری صف میں جگہ مل جاتی تھی۔ اب بہت پیچھے چلے گئے ہیں۔ ثواب میں سبقت لے جانے والے بڑی تعداد میں نکل آئے ہیں۔ پہلا عشرہ گزر گیا ہے۔ آپ نے بھی رحمتیں خوب سمیٹ لی ہوں گی۔مسجد کے صحن میں بچوں کو نمازیوں کے درمیان بھاگتے لڑکوں کو ٹولیوں میں بیٹھے دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔رمضان المبارک کی 27ویں شب کو قائم ہونے والا پاکستان رمضان کا استقبال بھی دل سے کرتا ہے۔ ان ایام معدودہ گنے جانے والے ایک ایک دن پر اپنا خلوص نچھاور کردیتا ہے۔

ہم خوش قسمت ہیں ۔ ایسے وطن کے باشندے ہیں جہاں بیک وقت کئی موسم اپنی جولانیاں اور رنگینیاں اُجاگر کرتے ہیں۔ ملتان میں اگر گرمی ہے تو چترال میں برف بھی گر رہی ہوتی ہے۔ لاہور میں حبس ہے تو کراچی میں سمندر کی ہوا آنچل اڑارہی ہوتی ہے۔ کہیں بے موسمی بارشیں بھی رم جھم کررہی ہوتی ہیں۔ ہم ایسی مملکت کے باسی ہیں جہاں اگر غربت انتہائی ہے تو امارت بھی کسی سے کم نہیں ہے۔ یہاں آپ نئی پرانی صدیاں بھی بیک وقت دیکھ سکتے ہیں۔ایک ہی شہر میں ایسی پوش بستیاں جہاں اکیسویں صدی اپنی پوری رعنائیوں سمیت جلوہ گر ہے۔ ایسے ایسے شاپنگ مالز کہ واشنگٹن۔ ٹوکیو میں بھی کیا ہوں گے۔ اور ایسی ایسی کچی بستیاں بھی کہ سولہویں سترہویں صدی کی طرز رہائش دیکھی جاسکتی ہے۔ صرف ہاتھوں میں موبائل فون کا فرق پڑا ہے۔ اپنے ہاں وصال وہجر کے موسم ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ واحد ریاست ہے جہاں سیاسی قیادت بھی ہے۔ فوجی قیادت بھی۔شارع فیصل جو ڈرگ روڈ سے مشرف بہ اسلام کی گئی۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر۔ سب سے اعلیٰ تجارتی و صنعتی مرکز کراچی کی شہ رگ ہے۔ ہمیں تو ویسے اپنی شہ رگ کشمیر کے بغیر زندگی بسر کرتے 72سال گزر رہے ہیں۔ کتنے سخت جان ہیں ہم۔ شارع فیصل پر بہت سی دیواروں پر درج ہے۔ خبردار۔ کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے۔ ممنوعہ علاقہ۔ خلاف ورزی پر گولی ماری جاسکتی ہے۔ان میں سے ایک دیوار رمضان کے مبارک دنوں میں گرادی گئی ہے۔ اس کے ہٹتے ہی ایک بہت پُر شکوہ عمارت تیزی سے رنگوں میں منقش ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ایک اور عظیم شاپنگ مال جنم لے رہا ہے۔ کمائی کے دن بھی تیزی سے گزر رہے ہیں۔ پانچ دس دن کی تراویح پڑھنے والے اپنی تجوریوں پر آبیٹھے ہیں۔ مہنگائی کا شور مچانے والے روزہ کھلنے کھلانے کے بعد مارکیٹوں پر دھاوے بول رہے ہیں۔ ڈالر اونچی پرواز کررہا ہے۔ کرتا رہے۔ کپڑا بھی بک رہا ہے۔ جوتے بھی۔ یہی دکاندار۔ یہی گاہک ٹی وی کیمرہ سامنے آتے ہی مہنگائی پر احتجاج بھی کرتے ہیں۔ اس شاپنگ مال کی اب آخری زیبائش ہورہی ہے۔ شاہراہ سے اس کے دروازوں تک لے جانے والے راستے صاف کیے جارہے ہیں۔ شاپنگ کی شائق اور ماہر بہنیں مائیں ابھی سے ایک دوسرے سے پوچھ رہی ہیں ’یہ فالکن مال‘ کب تک کھلے گا۔ مجھے تو عید کے نئے ڈریس خریدنے ہیں۔‘‘

رمضان کے فوراً بعد ہی شادیوں کا موسم بہار شروع ہوجائے گا۔ خالی زمینوں پر بہت ہی شاندار سفید خیمے جدید ترین ایئر کنڈیشننگ کی سہولت کے ساتھ بکنگ کی پیشکش کر رہے ہیں۔ کتنے اکیلے جوڑوں میں بدل جائیں گے۔ مہندی کی رسمیں ہوں گی۔ دلہا دلہن کی کیٹ واک ہوگی۔ کتنے لوگوں کو روزگار مل رہا ہے۔ ہر شادی ہال۔ یا لان کے ساتھ کتنی صنعتیں سرگرم ہوجاتی ہیں۔ پکوان سینٹرز۔ فیشن ساز کمپنیاں۔ نکاح خواں۔ بیوٹی پارلرز۔ ہمارے پلاننگ کمیشن کے تو تصور میں بھی ان زمینوں کا یہ استعمال نہیں آیا ہوگا۔ وہ کارخانے لگانے کی منصوبہ بندی کرتا ہوگا۔ یہاں کارخانے گراکر شاپنگ مال تعمیر کرائے جارہے ہیں۔ پہلے کمائی کے شارٹ کٹ یا آسان راستوں کو بزرگ اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ اب ’ایزی پیسہ‘ باقاعدہ ایک قابل رشک کاروبار ہے۔ امیر غریب سب اس سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔یہ نت نئے کاروباری راستے اس حقیقت کی گواہی دے رہے ہیں کہ اب امن ہی امن ہے۔ اب جنگ و جدل کے دن گئے۔ اسلحے کی ریل پیل نہیں ہوگی۔ دیس دیس سے اتنا مال آئے گاکہ سرحدیں شرمندہ ہونے لگیں گی۔ کسٹم اور ایف بی آر والوں کی اپنی بیگمات یہ دیدہ زیب مصنوعات خریدتی نظر آئیں گی۔ مصر کا بازار لگے گا۔ برادران یوسف۔ بھائی کو بازار میں لے آئیں گے۔

پاکستان بنیادی طور پر اب بھی زرعی ملک ہے۔ ہماری زمین اتنی زرخیز ہے کہ برسوں پہلے صرف 3کروڑ کی اناج کی بھوک مٹاتی تھی۔ اب 22کروڑ پیٹ بھرتی ہے۔ پھر بھی بہت سے رقبے کاشت کو ترستے ہیں۔ شہر پھیل رہے ہیں۔ جہاں گندم کی بالیاں سنہرا پن بکھیرتی تھیں ۔جہاں سرسوں کے پیلے پیلے پھول ایک سماں باندھتے تھے۔ جہاں سورج مکھی کے پھول سورج کو للکارتے تھے۔ اب وہاں بورڈ آویزاں ہیں۔ پلاٹ فروخت ہورہے ہیں۔ بنگلے زیر تعمیر ہیں۔ نئے نئے برانڈ۔ نئی نئی مصنوعات ۔ فوڈ کمپنیاں۔ اپنی دکانیں کھول کر ہمیں اکیسویں صدی میں لے جارہے ہیں۔ مگر ہمارے وفاقی۔ صوبائی و ضلعی حکمراں ہماری ٹانگیں کھینچ کر پھر اٹھارہویں صدی میں واپس لے آتے ہیں۔ ہزاروں ہُنر مندوں کو روزگار دینے والے کارخانے اب تعمیر نہیں ہوتے۔ چند سو کو روزانہ کی اجرت پررکھنے والے شادی ہال اور شاپنگ مال روز سر اٹھارہے ہیں۔ہم کتنے بہادر جفاکش لوگ ہیں۔ کسی ماہر معیشت کے بغیر ہی آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہمیں کوئی نہیں بتاتا۔ حکمراں نہ یونیورسٹیاں نہ دینی مدارس۔ نہ دانشور۔ نہ اینکر پرسن کہ ہماری عافیت صارفین کی منڈی بننے میں ہے۔ زراعت میں نئے تجربات کرنے میں۔ یا جدید ترین صنعتوں کے پھیلائو میں۔

تھوڑے لکھے کو بہت جانیے۔ باقی رہے نام اللہ کا۔

تازہ ترین