• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روپیہ پیسہ پیسہ ہو کر قدر کھو رہا ہے۔ لوگوں کی بچتیں 50 فیصد تک کم ہو کر رہ گئیں، اسٹاک مارکیٹ کریش پہ کریش ہوئی جا رہی ہے۔ ڈالر خریدا تو جا رہا ہے لیکن 150 روپے فی ڈالر پہ بھی دستیاب نہیں۔ اب دبئی مارکیٹ جب اتوار کو کھلے گی تو سوموار کو معلوم پڑے گا کہ روپیہ کہاں تک گر کے دم لے گا بھی یا نہیں۔ حکومت بے بسی سےا سٹیٹ بینک کو تک رہی ہے اور اس کے آئی ایم ایف کے مقرر کردہ نئے گورنر نے بینکوں کو آنکھ کے اشارے سے منڈی کی قیاس آرائیوں کے آگے چپ سادھتے ہوئے انٹر بینک ریٹ کو بھی 147 روپے تک بڑھا دیا ہے۔ حالانکہ جن لوگوں نے ڈالر ذخیرہ کر کے رکھا تھا، انہوں نے خوب مال کمانے کے لیے ڈالر کیش کروائے تو ڈالرز کی رسد بڑھنے کے باوجود اس کی قیمت نیچے نہیں آئی، اوپر ہی اوپر محوِ پرواز ہے۔ ایسے میں کرنسی کے کاروباری ڈالر اور سعودی ریال جمع کیے جا رہے ہیں تاکہ منڈی میں ڈالر کی رسد مصنوعی طور پر کم رکھ کر کل کو قیمت اور بڑھنے پر خوب مال کمائیں۔ پاکستان کی زرِمبادلہ کی کھلی منڈی چھوٹی ہے اورا سٹیٹ بینک بہ آسانی ذخیرہ خوروں اور سٹہ بازوں کو لگام دے دیتا تھا۔ اب اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی خفیہ شرائط (جن پر اگلے بجٹ میں عملدرآمد ہونا تھا) پر معاہدہ ہونے سے پہلے ہی عمل پیرا ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ سوا تین سال کے چھ ارب ڈالرز کے پروگرام سے پاکستان کی معیشت کی مشکیں کسنے یا مالیاتی استحکام لانے کا جو معاہدہ ہونے جا رہا ہے، اس کے لاگو ہونے کی بھنک ملتے ہی روپیہ دَم کھو بیٹھا ہے اورا سٹاک مارکیٹ بحران کی لپیٹ میں آ گئی ہے۔ آئی ایم ایف کے فارمولے پہ عمل کا آغاز تو عبوری حکومت کی وزیرِ خزانہ شمشاد اختر (سابق نائب صدر ورلڈ بینک) نے کیا تھا جو عمران حکومت کے 10 ماہ میں پی ٹی آئی کے مفکر اعظم اسد عمر کے ناپختہ ہاتھوں جاری رہا، تاآنکہ کبھی ہاں کبھی ناں کرتے کرتے وزارتِ خزانہ سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے۔ اور غالباً آئی ایم ایف نے پاکستان سے معاہدہ کرنے کے لیے پاکستانی ٹیم کا انتخاب بھی خود ہی کیا۔ جو کام اسد عمر نہ کر پائے وہی کام تین ہفتوں کے اندر اندر نئے مالیاتی مشیر عبدالحفیظ شیخ (سابق عہدیدار ورلڈبینک) اور نئے گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر (آئی ایم ایف کے مصر میں نمائندہ) نے کمال سرعت سے انجام دے ڈالا۔ اور ’’تبدیلی آئی رے‘‘ کی حکومت کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔

نیشنل اکائونٹس کمیٹی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق تحریکِ انصاف کی حکومت کے دس ماہ میں مجموعی قومی پیداوار کی نمو 6.2 فیصد کی بجائے تقریباً آدھی ہو کر 3.3 فیصد رہ گئی (نواز حکومت 5.8 فیصد چھوڑ کر گئی تھی)۔ سرمایہ کاری کم ہو کر 15.4 فیصد اور بچت کی شرح 11 فیصد رہ گئی۔ فی کس آمدنی بھی 8.2 فیصد کم ہو گئی۔ روزگار بڑھنے کی بجائے، بیروزگاروں کی تعداد میں دس لاکھ کا اضافہ اور چالیس لاکھ لوگ غریبی کے خط کے نیچے دھکیل دیئے گئے۔ صنعتی پیداوار بڑھنے کی بجائے 2.93 فیصد کم اور زرعی پیداوار میں اضافہ ایک فیصد سے کم ہوا۔ باوجودیکہ جولائی سے اپریل کے دورانیہ میں روپیہ نے 34 فیصد قدر کھوئی (جو اَب 50 فیصد ہونے کو ہے) برآمدات میں اضافہ پچھلے سال کے دورانیہ سے کم ہی رہا۔ مہنگائی اب دس فیصد سے اُوپر اور شرح سود 11 فیصد سے 13 فیصد کی جانب گامزن۔ جہاں تک کشکول توڑنے کی بات تھی تو آئی ایم ایف نے پیش بینی کی ہے کہ پاکستان کا قرض کُل قومی دولت (GDP) کے 72.1 فیصد (نواز حکومت) سے بڑھ کر عمران حکومت کے اختتام 2023 میں 84.1 فیصد تک چڑھ جائے گا۔ نواز حکومت کے پانچ برس میں 11 کھرب کے اضافی قرض کے مقابلے میں عمران حکومت کے پہلے دس ماہ میں قرض میں 5 کھرب کا اضافہ ہو چکا ہے۔

باوجودیکہ چین، سعودی عرب اور امارات نے 9 ارب ڈالرز کی امداد سستے قرض کی صورت میں دی، ہماری دست نگر معیشت کے کشکول کا پیٹ نہ بھرا۔ اب آئی ایم ایف کے چھ ارب ڈالرز کے علاوہ ورلڈ بینک، ایشین ڈیویلپمنٹ بینک اور پاکستان کے دوستوں سے مزید چھ سے آٹھ ارب ڈالرز کے قرض درکار ہوں گے۔ یوں خیر سے عمران حکومت کے کھاتے میں ریکارڈ قرضوں کے اضافہ کی ابھی ابتدا ہوئی ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کیا گل کھلاتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے جو معاہدہ خفیہ رکھا جا رہا ہے، اُس میں سے پانچ شرائط کی تصدیق ہوئی ہے جن پر معاہدے سے قبل اگلے بجٹ میں عمل درآمد کی شرط پر ہی معاہدے پر باقاعدہ دستخط ہو پائیں گے۔ وہ شرائط یہ ہیں: (1) زرمبادلہ کی قدر منڈی کی رسد و طلب کی بنیاد پر طے ہوگی۔ روپے کی حالیہ گراوٹ150 روپے فی ڈالر سے 20 فیصد بڑھ کر 180 روپے ڈالر یا پھر اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ (2) مالی پالیسی یعنی شرح سود کا تعین ایک خودمختار کمیٹی کرے گی جو 200 پوائنٹ کے ساتھ 13 فیصد تک بڑھ جائے گی، جبکہ اسٹیٹ بینک خودمختار ہوگا اور حکومت کمرشل بینکوں سے قرضے لے گی۔ (3) تمام ٹیکس رعایات اور امدادی (subsidies) قیمتیں ختم کرتے ہوئے 700 ارب روپے کے بالواسطہ ٹیکسوں کا اضافی بوجھ عوام پر ڈالا جائے گا۔ (4) بنیادی مالی خسارے میں جی ڈی پی کا 2.4 فیصد کم کر کے اسے 0.6 فیصد تک لایا جائے گا (قرضوں کی قسط اس خسارے میں شامل نہیں)۔ اس کے لیے دفاع اور دیگر سول اخراجات اور ترقیاتی بجٹ میں بڑی کٹوتی کرنی پڑے گی۔ چونکہ دفاع پہ بجٹ کم کرنے کی کسی میں مجال نہیں، کٹوتی کا کلہاڑا زیادہ تر ترقیاتی بجٹ پر چلے گا۔ (5) بجلی و گیس کی قیمتوں میں اتنا اضافہ کہ سرکلر ڈیٹ ختم ہو جائے اور پبلک سیکٹر کی کارپوریشنز کے خسارے ختم یا پھر اُن کی نجکاری۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی پریس ریلیز کے مطابق پاکستان کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے سرمائے پہ کنٹرول کے لیے انتباہ دیا گیا ہے جو فائنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) ہمیں گرے لسٹ میں ڈال کر کر رہی ہے۔ نئے قومی مالیاتی کمیشن (NFC) ایوارڈ کے حوالے سے بھی آئی ایم ایف نے وفاق اور صوبوں کے مابین مالی ذرائع کی تقسیم پہ جاری چپقلش کو تیز کرتے ہوئے اِک نئے عدم توازن کا اشارہ دیا ہے۔ بس یوں سمجھیں ’’تبدیلی آئی رے‘‘ ایسی تباہی لائی رے کہ لوگ تلملا کر آگ بگولا ہو جائیں گے اور پھر جانے کیا ہو؟

تازہ ترین