• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب پاکستان میں جمہوریت پر شب خون مارنے گیدڑان نیم شب نہیں آتے بلکہ دن دہاڑے دیکھے بھالے صوفی سالک لگتے لوگ آتے ہیں۔ ٹینک ، توپ، بکتر بند کو لیکر نہیں بلکہ ہزاروں کے جلو میں، بلٹ پروف فائیو اسٹار کنٹینر میں سج دھج کر، ڈھول تاشے باجے لیکر۔
یہ بازی گروں کی نئی بازی ہے۔ واہ رے بازی گر تیری بازی۔ ایسا نظر کا دھوکا جس سے ہزاروں کے مجمعے لاکھوں میں لگنے لگتے ہیں۔ شعبدہ بازی انقلاب بتائی جاتی ہے۔ لفظ انقلاب جس کی آس میں کئی اداس نسلیں لڑ کر، کٹ کر مرکھپ گئیں۔
میں تیرے زانو پہ سر رکھ کر ابھی سوتا ہوں
انقلاب آئے تو مجھ کو بھی جگانا ساقی
انقلاب انقلابیوں کے ہاتھوں سے نکل کر رد انقلاب کی قوتوں کی نذر ہوا۔ پچھلے دنوں اسلام آباد میں بھی یہی کچھ ہوا۔اسلام آباد میں چشم فلک نے تو دیدہ و نادیدہ کئی چھوٹے بڑے تماشے دیکھے ہوں گے لیکن پچھلے ہفتے پاکستان کے عوام اور ٹی وی کے ناظرین نے چار روزہ بغیر ٹکٹ تماشہ اس وقت دیکھا جب گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں بسنے والے عوام و خواص کی سانس امپورٹیڈ علامہ نے اپنی مٹھی میں لی ہوئی تھی۔ مجھے ایسا لگا جیسے پاکستان میں لوگ ایک بڑے سرکس میں سانس روکے موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے کا تماشہ دیکھ رہے ہوں۔ مجھے لگا بینظیر جیسی لیڈر شاید اسی تماشہ لگانے کیلئے قتل کی گئی تھی۔ جتنے منہ اتنی باتیں تھیں کسی نے کہا غالباً یہ میلہ نواز شریف اور ان کی پارٹی کو آئندہ انتخابات میں پنجاب سے جیت کر آنے سے روکنے کو لگا تھا۔ ایک دوست نے کہا اس تماشے کا ٹارگٹ آئندہ انتخابات کا التوا تھاجس کے ڈائریکٹر کوئی اور نہیں صدر آصف زرداری خود تھے۔ جب معصوم و مظلوم لوگوں کے خواب بدکار بدعنوان حکمرانوں کے جوتوں یا ٹینکوں کے پہیوں تلے روندے جائیں تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے پھر سادہ لوح لوگ مداری کو مسیحا سمجھ بیٹھتے ہیں جن کو ایسے مداری ایک پیڈ پائیپر کی طرح بند گلی میں لاکر چھوڑتے ہیں۔ جنوبی پنجاب ، خوشاب، بھکر،میانوالی کے لوگ ، کچھ زندہ دلان لاہور۔ہزاروں، مرد، بچے، عورتیں، نوجوان، بوڑھے سب کے خواب یرغمال ہوئے۔ وہ چار روز بے گھری، جنوری کی یخ بستہ سردی میں نامہربان اسلام آباد کے کھلے آسمان تلے اپنے رہبر کے سینٹرلی ہیٹیڈ بلٹ پروف فائیور اسٹار کنٹینر کے چاروں طرف موجود رہے۔ وہ بلیو ایریا کے گرین بیلٹ ، ڈی چوک سے اپنے گھروں کو انقلاب کی نوید نہیں سخت ٹھنڈ اور موسلا دھار بارشوں سے لگنے والی بیماریاں لے کرگئے۔ قائد انقلاب براستہ دبئی کینیڈا سے پدھارے تھے ۔ سندھی میں کہتے ہیں ابا مرگیا بھائی پیدا ہوا ہم وہیں کے وہیں، پاکستان کے لوگوں کے ساتھ بھی یہی ہوتا آیا ہے لیکن صدہا شکر ہے کہ بیچارے معصوم لوگ کسی ریاستی یا غیر ریاستی تشدد یا خون آشام تصادم یاحادثے سے بچ گئے۔ اربوں روپے کا نقصان جو اسلام آباد کے محاصرے سے عوام کو سرکاری اور غیر سرکاری مدوں میں ہوا ہوگا وہ کسی ڈکیتی کے زمرے میں نہیں آئے گا، نہ اس کا حساب کتاب کہ لاکھوں ڈالر جو اس مارچ پر خرچ کئے گئے یا چندہ میں دیئے گئے وہ پاکستان اور شمالی امریکہ میں ٹیکس کے گوشواروں میں آئیں گے کہ نہیں؟
اب پتہ نہیں یہ صدر زرداری کے کالے بکروں کے صدقوں کا کمال تھا کہ موجودہ حکمرانوں کے پیر امپورٹیڈ علامہ قادری سے بھی زورآور تھے کہ ان کی حکومت دھڑن تختہ ہونے سے بال بال بچ گئی۔ بیڈ گورننس ہی سہی، کرپٹ حکومت ہی سہی لیکن کمزور اور سازشوں میں گھری اب تک نوزائیدہ کچی کلی کچنار کی جیسی جمہوریت کہ جس کے نام پر طوائف الملوکی عروج پر کی گئی ہے اس کے ایک دفعہ بچائے جانے یا ریسکیو کرانے کا کریڈٹ پاکستان میں ان اپوزیشن پارٹیوں کو عام طور اور خاص طور میاں نواز شریف اور محمود خان اچکزئی جیسے لیڈروں کو جاتا ہے کہ جو دائیں،بائیں۔ مرکز یا مرکز گزیر بلوچ، اور پٹھان لیڈروں اور ان کی پارٹیوں سمیت سب کو اپنے ساتھ لے آئے اور انہوں نے پاکستان کو آمریت سے بچا ڈالا۔ اچھا ہوتا کہ اپنی یہ جمہوریت بچاؤ کال کم از کم وہ ان سندھی قوم پرستوں کو بھی دیتے جو پاکستان میں جمہوری عمل پر یقین رکھتے ہیں۔حکومت کرو اور حکومت بچاؤ فلسفے کے بانی صدر زرداری کاش اپنی حزب مخالف سے ہی جمہوریت بچاؤ سبق سیکھ سکیں۔ لگتاہے کہ میاں نواز شریف سمیت پاکستان کے اکثر اہل سیاست اور میڈیا اب جمہوریت کے معاملے میں کافی سنجیدہ اور میچور ہوچکے ہیں۔ اب جمہوریت دشمن اور جمہوریت دوست لوگوں کے درمیان بقول شخصے لکیر کھینچی جا چکی ہے بالکل ساحر کی ان سطروں کے مصداق:
ہمیں حیات کے اس پیرہن سے نفرت ہے
کہو کہ اب کوئی قاتل اگر ادھر آیا
تو ہر قدم پہ زمیں تنگ ہوتی جائے گی
ہر ایک موج ِ ہوا رخ بدل کے جھپٹے گی
ہر ایک شاخ رگِ سنگ ہوتی جائے گی
جمہوریت سب سے بہتر انتقام ہے کا نعرہ لگانے والی حکومت اسلام آباد لانگ مارچ کے ماؤ مولانا سے مک مکا اپنے تئیں خوش اسلوبی سے کرنے کو اپنے جمہوری ہونے سے تعبیر کرتی ہے۔ یہ حکومت بس تب تک جمہوری ہوتی ہے جب اس کے ختم ہونے کا خطرہ پیدا ہوتا ہے وگرنہ اسی گرین بیلٹ پر اسلام آباد پولیس نے بیچاری ان دادو کی خواتین اور بچوں کو بری طرح زد کوب کیا اور مارا پیٹا تھا جو دادو ضلع کے خیرپور ناتھن شاہ میں اپنے گاؤں کے وڈیرے کے ظلموں سے بھاگتے ہوئے اسلام آباد زرداری حکومت سے انصاف لینے آئے تھے۔ اسی اسلام آباد پریس کلب کے سامنے ہاری رہنما غلام رسول سہتو وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے ضلع خیرپور میرس میں حکومتی اتحادی وڈیروں کی طرف سے نہری پانی چوری کر کے نہروں کے چھیڑے پر آباد کسانوں، ہاریوں کی ہزاروں ایکڑ زمینیں ویران کردینے کے خلاف سو دنوں تک تادم مرگ بھوک ہڑتال کرکے موت کی سرحد پر سے بمشکل واپس آکر اب حافظہ کھو بیٹھا لیکن عوامی جمہوری حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ میہڑ ضلع دادو کی لڑکی کائنات سومرو اور اس کے گھر والے اس بچی کے ساتھ ہونے والے مبینہ گینگ ریپ کے خلاف انصاف کو کراچی پریس کلب کے سامنے کئی ماہ و سال سے زائد احتجاج پر بیٹھے رہے لیکن انہیں انصاف نہیں مل سکا حتیٰ کہ کائنات سومرو کیس پر ایک امریکی دستاویزی فلم بھی اب سنڈانس فلم فیسٹول میں آنے کو ہے۔ کائنات کے ساتھ ہونے والی بپتا عالمی فلم فیسٹول کا موضوع بنی لیکن زرداری حکومت اسے انصاف نہیں دے سکی۔ کراچی پریس کلب کے سامنے پُرامن احتجاج کرنے والے مرد و خواتین اساتذہ، پیرا میڈیکل، نرسوں اور کئی اور پروفیشنلز احتجاجیوں پر لاٹھیاں اور پانی کی توپیں اور واٹر کینن برسائی گئیں، سیلاب کے متاثرین احتجاج کرتے مرگئے، سندھ یونیورسٹی کے اساتذہ صدر کے مبینہ پسندیدہ لیکن ریٹائرڈ وائس چانسلر کی مبینہ بدعنوانیوں اور کیمپس میں تشدد کے خلاف سال بھر تک ہڑتالوں اور احتجاج پر بیٹھے رہے لیکن حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔ سیکڑوں بلوچ اپنے بچوں اور عورتوں سمیت ایجنسیوں کے ہاتھوں غائب اور ان کے لواحقین پریس کلبوں کے سامنے برسوں سے احتجاج پر ہیں حکومت گونگی، اندھی اور بہری رہی۔ سندھ کے لوگ لوکل باڈیر آرڈیننس کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، احتجاجی سندھی قوم پرست کارکنوں کی لاشیں حکومتی پارٹی اور پولیس کے ہاتھوں گری ہیں۔ کراچی کے ریڈ ایریا میں ٹھنڈے جوس صرف سندھ کی تقسیم کے نعرے لگانے والے مظاہرین کو پلائے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے بلاول ہاؤس کے سامنے شیعہ مقتولین کے احتجاجی لواحقین کے ہاتھوں سندھ کے وزیر خوب پٹتے ہیں سندھ کے اکثر لوگ خوش ہوتے ہیں کیونکہ ان وزیروں با تدبیروں کو اپنے سے طاقتور پر غیرت آتی نہیں اور کمزور پر غصہ اترتا نہیں تھا۔ لیکن جب سرخ قالین اپنے پیروں سے سرکتے اور فرش پر کان لگائے حکمرانوں نے قادری ڈھول تاشوں، گالیوں نعروں کے پیچھے بھاری بوٹوں کی دھمک صاف سنی اور محسوس کی تو جمہوری ہونے کا عظیم ثبوت دینے لگے۔ اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں لیکن جمہوریت کے ثمرات تو سب کیلئے ہونے چاہئیں۔ جمہوریت تو جمہوریت ہے چاہے حکومت پی پی پی کی ہو کہ مسلم لیگ کی۔ بلوچستان میں گورنر راج کا نفاذ بھی تو جمہوریت سے پیچھے کی طرف قدم ہے۔ ملک ریاض کو بڑی بولی دینے کو بھیجنا کس جمہوری عمل کا حصہ تھا؟ وہ چوہدری صاحبان بھی علامہ قادری کو منانے آئے تھے جنہوں نے دسمبر انیس سو پانچ میں جیل سے چھوٹ کر آنے والے آصف علی زرداری کے پنجاب میں سبزل کوٹ سے لیکر گوجر خان تک جیالوں کے استقبالی جلوسوں پر ہلے بول کر جیلیں بھر ڈالی تھیں۔ مجھے حکومت سے نہیں اس کچی پھیکی جمہوریت سے ہمدردی ہے جس کی بحالی کیا صرف انتخابات کی تاریخ کے انعقاد کے مطالبے میں ملک کے لوگوں نے گولیاں، کوڑے اور پھانسیاں کھائی تھیں۔ اٹک اور لاہور کے شاہی قلعوں کے عقوبت گھروں کو شور سلاسل سے آباد کیاتھا۔ نہ اس میں تب جھنگ سیال کے مولوی طاہر القادری کا حصہ تھا نہ نوابشاہ کے آصف علی زرداری نہ نواز شریف کا جو اس وقت ماڈل ٹاؤن میں ایک ہی دیگ سے طاہر القادری کے ساتھ چاول بانٹ رہے تھے۔ نہ رحمن ملک ، گجرات کے چوہدریوں یا ایم کیو ایم کا۔ وہ جمہوریت کے پروانے بے چہرہ بے نام نامور و گمنام ہزاروں لوگ تھے ،مرد و خواتین جن کی قربانیوں کی مرہون منت علامہ جیسے لوگ بھی ماؤزے تنگ بنے ہوئے ہیں جن کے لانگ مارچ اور خطاب ٹی وی چینلز بھی گھنٹوں گھنٹوں لائیو چلاتے ہیں، یہ سب ان لوگوں کے مرہون منت ہے جو شاہی قلعے جیسے مقاموں سے خود لائیو واپس نہیں گئے۔ بہرحال مبارکباد لوگو! کہ اس جمہوریت پر اس دفعہ پہلا وار روک لیا گیا ہے۔
تماشہ کرنے والوں کو خبر دی جاچکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشہ ختم ہوگا
تازہ ترین