• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران سے مایوس نہیں،انکی نیت میں خلوص اورمحنت ہے،مولانا طارق جمیل

کراچی (ٹی وی رپورٹ)معروف دینی مبلغ مولانا طارق جمیل نے جیو کے پروگرام ”جرگہ“ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہےکہ وزیراعظم عمران خان سے مایوس نہیں ہوں، اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ ملک کی کشتی بھنور سے نکالنے کیلئے اس بندے کو ذریعہ بنائے گا، میں نہ سیاسی ہوں نہ سیاست میں آنے کا میرا ارادہ ہے، میرے ایک تبلیغی بیان کو سیاسی رنگ دیا گیا جس پر مجھے بہت کچھ سننا پڑا، میں نے یہ کہا کہ عمران خان پہلا شخص ہے جس نے مدینے کی ریاست کا نام لیا ہے ہم اس کا ساتھ دیں، میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ ہم پی ٹی آئی میں شریک ہوجائیں، اس کا ساتھ ایسے دینا ہے کہ سچ بولیں، انصاف کریں، صحیح تولیں، رشوت نہ لیں اور بدکاری نہ کریں، عمران خان کی نیت میں خلوص اور محنت ہے میں اب بھی پرامید ہوں، میں ان کی سیاسی پشت پناہی نہیں کررہا ہوں میرے دل میں بس اچھا گمان ہے، نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی نے کبھی نہیں کہا کہ وہ پاکستان کو مدینے کی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔مولانا طارق جمیل کا کہنا تھا کہ اللہ کا قانون ہے جو ملک، قوم اور معاشرہ سچ، دیانتداری اور انصاف پر قائم ہوگا انہیں زوال نہیں آسکتا ،جس قوم میں جھوٹ، دھوکا اور ظلم ہوگا اس پر کبھی عروج نہیں آسکتا، اس وقت دنیا کی قیادت جو ممالک کررہے ہیں وہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے راج نہیں کررہے بلکہ ان کی سچائی، دیانتداری اور انصاف کی وجہ سے اللہ نے انہیں دنیا میں یہ عزت دی ہوئی ہے، پاکستانیوں کی حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت جھوٹی نہیں لیکن ہم ابھی اس سطح پر نہیں جہاں سچائی، دیانتداری اور انصاف آجائے ، ہر آدمی کو قرآن سیکھنا اور سمجھنا چاہئے، چند آیات ہیں جو اہل علم سے متعلق ہیں جس میں عقائد و مسائل ہیں باقی سارا قرآن واضح نصیحت ہے، امت کو قرآن اور سیرت پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جڑنا ہوگا۔مولانا طارق جمیل کا کہنا تھا کہ پاکستان میں منبر سے عام طور پر معاشرت اور اخلاقیات کی بات نہیں ہوتی، خطیب حضرات عام طور پر فرقہ واریت کو ہوا دے رہے ہوتے ہیں باقی علماء عبادات پر فوکس کررہے ہوتے ہیں، اخلاقیات پر بات کرنے والے علماء بہت کم ہیں، نماز کے دو بڑے جز رزق حلال کمانا اور اللہ کا دھیان ہیں مگر یہ دونوں چیزیں ہم میں بہت کم ہیں، حلال کمانے والے تو کچھ ہیں مگر اللہ کے دھیان کے ساتھ نماز پڑھنے والے مشکل سے ملتے ہیں، ہماری نماز اور روزہ اس طاقت کی نہیں جو ہمارے اخلاق پر اثرانداز ہوں، معاشرتی بگاڑ کے ذمہ دار ہم سب ہیں کسی خاص طبقہ کو مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا ہے، اللہ تعالیٰ کو نہ دین میں نہ دنیا میں انتہاپسندی پسند ہے۔ مولانا طارق جمیل کا کہنا تھا کہ تجس، شک، بدگمانی اور غیبت غلط ہیں، جب تک گواہ نہ ہوں فیصلہ نہیں ہوسکتا، سارا میڈیا منفی چل رہا ہے اسے مثبت کردیا جائے تو لوگوں کو بہت نفع ہوتا، ظالم حکمران کے پاس جاکر اسے سمجھانا بجھانا چاہئے کہ وہ غلط کررہا ہے، جلسوں اور ٹی وی پر اس کا ہوا پھیلانا درست نہیں ہے، صحافت میں تنقید کی اجازت ہے لیکن توہین کی نہیں، ہماری تنقید اب توہین میں تبدیل ہوچکی ہے اس کی اسلام اجازت نہیں دیتا ہے، جو سیاستدان دوسرے کو چور ڈاکو کہہ کر پکارتے ہیں یہ توہین ہے، صرف وزیراعظم ہی نہیں سب اس میں شریک ہیں، اگر کسی کے پاس دوسرے کے چور ہونے کا ثبوت ہے تب اسے چور کہہ سکتا ہے، کسی مخالف کو عقیدے کے حساب سے منافق کہنا غلط ہے یہ لفظ کافر سے بھی برا ہے۔ سیاستدانوں کے قوم سے وعدہ کر کے مکر جانے کے سوال سے متعلق مولانا طارق جمیل نے کہا کہ اگر حاکم وقت ملک کے حالات میں اپنی بے بسی کی وجہ سے وعدہ پورا نہ کرسکے تو اسے وعدہ خلافی نہیں کہیں گے، اسباب موجود ہونے کے باوجود وعدہ پورا نہ کرے تو منافق کی نشانی میں آجاتا ہے، اگر کسی غلط چیز سے یوٹرن لیا جائے تو اچھی بات ہے، غلط چیز پر جمنا مردانگی نہیں ہے اگر کوئی مجھے اپنی خطا بتادیتا ہے تو اس سے یوٹرن لینا بالکل ٹھیک ہے۔

تازہ ترین