• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت حکومت اور اپوزیشن کےتعلقات کشیدہ ہیں اور وہ بھی ایسے وقت میں جب ملک کوسیاسی اور معاشی استحکام کی ضرورت ہے۔ حالات کوخراب کرنےکیلئےدونوں ہی لڑائی کی موڈ میں لگتےہیں۔ یقیناًیہ ملک کیلئے اچھا نہیں ہے بالخصوص جب کچھ رہنما تیسری پارٹی کی مداخلت کےبارےمیں باتیں کررہےہیں۔ لہٰذا ہم کہاں جارہےہیں اور حالات کو بہترکرنے کاکیا طریقہ ہے تاکہ الزامات کی جنگ لڑنےکی بجائےبڑھتے ہوئےمعاشی اور سیاسی چیلنجزکےجوابات تلاش کیےجاسکیں۔ اپوزیشن مڈٹرم انتخابات کامطالبہ کرسکتی ہے جیسا کہ کچھ رہنمائوں کی جانب سے کہاجارہاہےجبکہ کچھ حکومت کےساتھ سنجیدہ مذاکرات کی تجویزدےرہےہیں اس کیلئےاگر حکومت شروعات کرگی توہی ایساہوگا۔ جمہوریت میں یہ وزیراعظم ہی ہوتا ہے جو مشکل حالات میں رہنمائی کرتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان دوسری طرح سوچتے ہیں اور موجودہ حالات میں کم از کم وہ اہم معاملات پر اپوزیشن سے بات کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ آج اس پسِ منظرمیں پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی رہائش گاہ پر ’’گرینڈ سیاسی افطاری‘‘ کی بہت زیادہ اہمیت ہے لیکن یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ یہ کسی ’گرینڈ اپوزیشن الائنس‘ یا عید کے بعد حکومت مخالف کسی تحریک کاباعث بنےگی کیونکہ انھیں بھی ایک صفحے پر آنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت بڑی جماعتیں اپنی ہی صفحات پر کام کررہی ہیں۔ سیاسی عدم اعتماد کے پہلونےانھیں دور کیا ہوا ہے۔ پی پی پی اور پی ایم ایل(ن) کی 2007سے اور اب حال ہی میں ایک دوسرے پر سیاسی عدم اعتمادکی تاریخ ہے۔ دونوں نے 2018کےانتخابات کےبعدایک اورموقع گنوادیا جس کے باعث پی ٹی آئی کیلئےسینٹ اور وزیراعظم کے انتخابات میں سفرمزیدآسان ہوگیا۔ لہذا کافی زیادہ بسیں اور مواقع گنوانے کےبعدان کی لیڈرشپ کافی مشکل میں ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف بطور مجرم جیل میں ہیں جبکہ سابق صدر آصف زرداری بھی مشکل میں ہیں اور گرفتارکیےجاسکتے ہیں۔ ان کےخاندان کوبھی کرپشن کی تحقیقات کاسامانہے۔ انھیں ’ایک صفحے‘ پر لانے کیلئےیہ ہی ایک بڑی وجہ ہوسکتی ہے۔ آج کی تقریب یقیناً میڈیا کی توجہ کا باعث بنے گی بالخصوص پی ایم ایل(ن) کی رہنما مریم نواز، جےیوآئی (ف) کے مولانا فضل الرحمٰن، اے این پی کے اسفند یار ولی، جماعتِ اسلامی کے اعلیٰ سطحی وفود اور حتٰی کے بلوچستان سے حکومت کے اتحادی اخترمینگل نے بھی دعوت قبول کی تھی۔ اپوزیشن کے اتحادیوں نے اسے جی ڈے اے کی جانب ایک اہم قدم قراردیاہے اور افطار اور ڈنرکےبعد اپوزیشن نے مشترکہ حکمت عملی پر بات کی ہوگی تاکہ حکومت کو مشکل وقت دیاجائے۔ وزیراعظم عمران خان بظاہر کسی بھی مذاکرات کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں حتیٰ کہ بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال، مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی اور حتیٰ کہ قومی بجٹ کی آسانی سے مںظوری پر بھی مذاکرات کے موڈ میں نہیں ہیں۔ گزشتہ نو ماہ میں موجودہ حکومت اسے موقع کم ہی آئے جب دونوں ایک ہی پیج پر آئے مثلاًپلوامہ حملے کےبعد اور حال ہی میں فاٹا کوکےپی میں شامل کرنےکیلئے26ویں آئینی ترمیم پر اور قومی اسمبلی اور خیبرپختونخواکی اسمبلی میں سیٹیں بڑھانےپر۔ وزیراعظم پہلی بار اپوزیشن کا شکریہ اداکرنےکیلئےانھیں افطاری کی دعوت دے کر ایک آغاز کرسکتے تھےتاکہ وہ اپنی سیاسی بیانیے پر سمجھوتا کیے بغیرکشیدگی کو کم کرسکیں اور معاشی بحران پرقابوپانے کےاقدامات پر بحث کی جاسکے۔ کچھ لوگوں کامانناہے کہ اب بالکل درست وقت ہے کہ عمران خان پاکستان کے کپتان بن کر دکھائیں اور محض پاکستان تحریک انصاف کے کپتان نہ بنیں۔ اس وقت حکومت ایسا کوئی اقدام اٹھانے کے موڈ میں نہیں ہےکیونکہ وہ پُراعتماد ہیں کہ نہ تو اپوزشین گرینڈ الائنس بنائےگی نہ ہی ان میں اتنی صلاحیت ہےکہ وہ حکومت کومڈٹرم انتخابات کیلئے مجبور کرسکیں۔ حکومت اوراس کےکچھ اتحادی سیاسی اورانتظامی دونوں اقدامات کی تجویزدیتےہیں۔ شیخ رشید احمد، شاہ محمود قریشی، گجرات کےچودھریوں جیسے تجربہ کارسیاستدان جانتے ہیں کہ ’لڑائی جھگڑے‘سے اکثر تیری پارٹی کو مداخلت کرنے کا موقع ملتاہے۔ تاہم گزشتہ 40سال میں حکومت مخالف تحریکوں کی سمت گلیوں میں احتجاج سےعلامتی ’ملین مارچ‘، ٹرین مارچ سے 2014کی طرز کے دھرنےتک بدل گئی ہے، جو اتنے اچھے ہوتی ہیں کہ اکثر سیاسی بحران پیدا کردیتے ہیں۔ اپوزیشن کا موڈدیکھنابھی دلچسپ ہوگا۔ کیاوہ مولانا فضل الرحمان کی حکومت مخالف تحریک یعنی قومی اورصوبائی اسمبلیوں سے اجتماعی استعفیٰ دینےکی تجویزقبول کریں گے۔ اس سے قبل پی پی پی اور پی ایم ایل(ن) کی ہچکچاہٹ کے باعث جی ڈی اے نہیں بن سکاتھا۔ کیا بڑی سیاسی جماعتیں اب تیار ہیں؟ بظاہر ایسا مشکل ہی لگتاہے۔ یہ یاد کیاجاسکتاہے کہ پی ٹی آئی کے دھرنےکےدوران عمران خان کوبھی اس مشکل کا سامنا کرناپڑا تھا جب اس وقت کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے کے پی اسمبلی کو تحلیل کرنےسے انکارکردیاتھا اور آخر میں انھوں نے صرف قومی اسمبلی سے ہی استعفیٰ دیاتھا لیکن بعد میں جب 2013کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی پرانھوں نےجوڈیشل کمیشن پرمعاہدہ کیاتواستعفے واپس لےلیےتھے۔ ذرائع کہتے ہیں اپوزیشن جماعتیں مولانا کو منالیں گی کہ یہ آخری آپشن ہوگا اور پہلے‘ملین مارچ‘ کیلئے اسلام آبادکی جانب جاناہوگا۔ جبکہ پی پی پی مکمل طورپر تیار ہے جبکہ پی ایم ایل(ن) کی قیادت منقسم نظرآتی ہے اور وہ پیر کواسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں فیصلہ کریں گے۔دوسری جانب پی ٹی آئی اوراس کےاتحادی پُراعتماد ہیں کہ پی پی پی اور پی ایم ایل(ن) کی قیادت نیب کیسز میں جیل جائیں گے اور حکومت اور پارٹی اپوزیشن کے اقدامات پر قابوپالیں گے۔ لیکن کیا ایسا تصادم کے بغیر ہوگا اور اگر اس کاجواب نہ میں ہے تو حکمران جماعت اور اس کے اتحادیوں کیلئےیہ کیسےبہترہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلے نو ماہ میں حکومت پریشان اوربغیرسمت کےنظرآئی ہےبالخصوص ’معاشی بحران‘ سے نمٹنےمیں جس کےنتیجے میں ملک میں کافی زیادہ مہنگائی آگئی۔ وہ خودسیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے کی بجائےاپوزیشن کےموڈمیں زیادہ نظرآتے ہیں۔ اگر آئندہ چند ماہ میں حکومت معاشی چیلنجز سے نمٹنے اور لوگوں کو ریلیف دینےکے قابل نہیں ہوئی تو معاشی تباہی پی ٹی آئی اور وزیراعظم عمران خان کیلئےسیاسی تباہی بھی ثابت ہوگی، یہ کہنا مشکل ہے کہ کیااس کے باعث کوئی یوٹرن یا کوئی بڑا یوٹرن لینا پڑےگا۔

تازہ ترین