• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جیو ٹی وی کے مقبول پروگرام ”ہم عوام “ میں معروف میزبان اور تجزیہ نگار افتخاراحمد سوال داغ رہے تھے تو جواب میں شاہی سید اپنے شاہانہ انداز میں بے ساختہ جوابات برسا رہے تھے، باوجود اس کے کہ پروگرام کی ریکارڈنگ ایم کیوایم کے ایم پی اے منظرعام کے قتل سے قبل ہوئی تھی‘ حسب سابق شاہی سید کا انداز جارحانہ لیکن گفتگو کا مجموعی پیغام خلاف توقع مصالحانہ تھا۔ وہ افتخاراحمد کے جارحانہ سوالات سے تو لاجواب نہیں ہورہے تھے بلکہ ترکی بہ ترکی جواب دیئے جارہے تھے لیکن اردو بولنے والی ایک معصوم بچی کے ایک معصومانہ تبصرے نے انہیں لاجواب کر دیا۔ اس بچی نے کہا کہ اس کی ایک دوست پشتون اور دوسری سندھی ہے، وہ سب ایک دوسرے کو چاہتی ہیں اور ان کا آپس میں کوئی جھگڑا نہیں، جھگڑا ہے تو بس صرف سیاستدانوں کا ہے جس میں عام لوگ مررہے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں شاہی سید بالکل خاموش ہوگئے اور برملا اعتراف کیا کہ وہ اس سوال کا جواب نہیں دیں گے کیونکہ یہ بچی جو کچھ کہہ رہی ہیں ‘ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ میرے نزدیک اس بچی نے اس معصومانہ تبصرے کے ذریعے کراچی کے پورے مسئلے کو دو فقروں میں بیان کیا اور اگر سیاستدان اپنا رویہ درست کرلیں تو کراچی میں مختلف زبانوں کے بولنے والوں کے درمیان کوئی تنازع نہیں ہوگا۔ اگرچہ یہ لڑائی اردو بولنے والوں‘ پختونوں‘ سندھیوں اور بلوچوں کی لڑائی بنادی گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سیاست ‘ مفادات اور قبضہ گیری کی جنگ ہے جسے لسانی رنگ دیا گیا ہے۔ ”جرگہ“ میں عرصہ دراز سے یہ گزارش کی جارہی تھی کہ اگر صدر آصف زرداری‘ الطاف حسین اور اسفندیار ولی خان ایک گاڑی میں بیٹھ کر اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر کراچی کی سڑکوں پر مارچ کرلیں تو گولیاں چلنی بند ہوجائیں گی جبکہ دانا لوگ کہا کرتے تھے کہ اگر الطاف حسین اور اسفندیارولی خان کی براہ راست بات ہوگئی تو پختونوں اور اردو بولنے والوں کی جنگ ختم ہوجائے گی، وقت نے اس رائے کو درست ثابت کر دیا۔ منظر امام کے قتل سے قبل ایم کیو ایم کے ایک اور ایم پی اے رضا حیدر بھی قتل کئے گئے تھے۔ تب چونکہ اسفندیارولی خان اور الطاف بھائی کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا تو اگلے روز کراچی میدان کارزار بن گیا اور تشدد کے نتیجے میں درجنوں انسان لقمہ اجل بن گئے۔ اب کے بار منظر امام کے قتل پر جب اے این پی نے بھی سوگ کا اعلان کیا اور اسفندیارولی خان نے فون کرکے الطاف حسین سے تعزیت کی تو نہ اردو بولنے والوں نے پختونوں کے خلاف گولیاں چلائیں اور نہ پختونوں نے اردو بولنے والوں کے خلاف بلکہ اے این پی کے رہنما جنازے میں شامل ہوئے اور تعزیتی ریفرنس میں بشیر جان پھول لے کر پہنچ گئے۔ جواب میں ایم کیوایم کی قیادت نے کسی بھی دوسرے مہمان سے بڑھ کر عزت اور پیار سے انہیں نوازا۔ گویا اسفندیار ولی خان اور الطاف بھائی کے ایک ٹیلی فون کال سے درجنوں انسانوں کی زندگیاں بچ گئیں اور کراچی کے کروڑوں باسیوں نے چند روز سکون سے گزارے۔ اس کے برعکس ان رہنماؤں کے ایک تلخ فقرے یا بیان سے درجنوں انسان مرجاتے اور کروڑوں کی زندگیاں اجیرن بن جاتی ہیں۔ وقت نے ثابت کردیا کہ کراچی کے قضیئے کی چابی ان رہنماؤں کے ہاتھوں میں ہے۔ شاید تلخیوں کا آغاز ایم کیوایم کی طرف سے ہوا لیکن اس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ اب ماحول کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کا آغاز بھی ایم کیوایم کی طرف سے ہوا ہے۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ ایم کیوایم کی قیادت پچھلے ایک سال سے اسی طرح کے رابطوں اور مفاہمت کے لئے کوشش کرتی رہی لیکن ماضی اور شک کی وجہ سے اے این پی کی قیادت ہاتھ بڑھانے سے گریز کر رہی تھی۔ حالیہ سلسلے کا آغاز بھی ایم کیوایم کی طرف سے یوں ہوا کہ حاجی بشیر احمد بلور کے قتل کے بعد الطاف بھائی نے اے این پی کی قیادت کے ساتھ تعزیت کی، اپنے نمائندے جنازے میں بھیجے اور اے این پی کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تین روزہ سوگ کا بھی اعلان کیا۔ اب منظر امام کے قتل کے بعد اے این پی کی قیادت نے بھی وہی عمل دہرایا لیکن مجھے خدشہ ہے کہ اگر اس سلسلے کو آگے نہ بڑھایا گیا اور دونوں جماعتوں کی قیادت نے بیٹھ کر مستقبل کے لئے کوئی مناسب میکنزم نہ بنایا تو کسی بھی وقت‘ کوئی بھی واقعہ دوبارہ تلخیوں کو تازہ کرسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اے این پی اور ایم کیو ایم کی کئی چیزیں مشترک ہیں، دونوں سیکولر جماعتیں ہیں، دونوں کے خارجہ پالیسی کی تصورات ایک جیسے ہیں، دونوں صوبائی خودمختاری چاہتی ہیں، نظریات تو کیا ان کے مخالف بھی مشترکہ ہیں۔ طالبان نے سیاسی جماعتوں کی جو درجہ بندی کی ہے اس میں اے این پی اور ایم کیوایم ایک کیٹیگری میں رکھی گئی ہیں۔ ابتدا میں یہ دونوں جماعتیں یک جان دو قالب تھیں پھر چند چھوٹے موٹے واقعات اور مقامی لوگوں کے مفادات کی وجہ سے یہ جماعتیں تصادم کی طرف چلی گئیں۔ تب اے این پی کے قائد خان عبدالولی خان نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نائن زیرو کا دورہ کیا اور جب اخبارات میں الطاف بھائی کے ساتھ ان کی تصویر شائع ہوئی تو یہ جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ شیروشکر ہوگئیں اور کئی سال تک پختون اور اردو بولنے والے بھائی بھائی بنے رہے لیکن تب چونکہ مستقبل کے لئے کوئی میکنزم نہیں بنایا گیا اس لئے چند سال امن سے گزرنے کے بعد ایک ایس ایچ او کی تعیناتی سے متعلق اختلاف کی وجہ سے یہ دونوں جماعتیں ایک بار پھر تصادم کی طرف چلی گئیں۔ جس کی وجہ سے پختون اور اردو بولنے والے بھی ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہوگئے، ہزاروں انسانوں کی زندگیوں کے چراغ گل ہوئے،کروڑوں لوگوں کی زندگیاں اجیرن بن گئیں اور کراچی کو کھربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اب بشیر بلور اور منظرامام کی قربانی وسیلہ بنی ہے لیکن اس کے نتیجے میں ان دونوں جماعتوں کی مصالحت کا امکان پیدا ہوگیا ہے‘ اس لئے قبل اس کے کہ پھر کوئی شرپسند شر پھیلائے یا پھر کوئی معمولی واقعہ آگ بھڑکانے کا ذریعہ بن جائے‘ اس سلسلے کو ہنگامی بنیادوں پر آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ میری گزارش ہے اسفندیارولی خان اور الطاف بھائی اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر فوری طور پر براہ راست ملاقات کا اہتمام کریں۔ جس طرح ان کے ایک اختلافی بیان کے نتیجے میں درجنوں انسانوں کی زندگیوں کے چراغ گل ہوجاتے ہیں‘ اسی طرح ان کے معانقے کی ایک تصویر سے ہزاروں انسانوں کی زندگیاں بچ سکتی ہیں پھر دونوں جماعتوں کی قیادت مل کر ایک مشترکہ مانیٹرنگ کمیٹی بنا دے جو مستقبل میں کسی بھی ابھرنے والے تنازع کی صورت میں مرکز شکایات اور جرگے کا کردار ادا کرے۔ اسی طرح علاقوں اور زمینوں پر قبضے کے تنازعات کے حل کے لئے بھی ایک کمیشن کی ضرورت ہے۔ عموماً اس طرح کے معاملات میں تیسرے فریق کو ثالث بنایا جاتاہے لیکن یہاں میری گزارش ہوگی کہ کسی تیسری پارٹی کو درمیان میں نہ لایا جائے کیونکہ تیسری پارٹی ہی ان دونوں جماعتوں اور ان کے وابستگان کو لڑاتی رہی ہے۔ دونوں جماعتوں کی یا پھر دونوں زبانوں کے بولنے والوں کی صفوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں اس کمیشن کا ممبر بنایا جا سکتا ہے ۔ ہاں البتہ اپنی گزارش ہوگی کہ ان دونوں جماعتوں کی صلح کے بعد پیپلزپارٹی ‘ جماعت اسلامی اور سنی تحریک وغیرہ کے ساتھ بھی اسی طرح کے عمل کا آغاز کردینا چاہئے۔ کراچی میں امن ہوگا تو سب کی سیاست کی دکان بھی چلتی رہے گی لیکن اگر حالات اسی طرح رہے تو باری باری سب کی باری آتی رہے گی۔ قبل اس کے کہ کراچی سب کے ہاتھوں سے نکل جائے‘ سب کو ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دینا ہوگا۔
تازہ ترین