• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بالآخر پاکستان اور آئی ایم ایف نے قرضے کی نئی شرائط پر اتفاق کر لیا ہے جس کی رو سے آئی ایم ایف پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ اور کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی کیلئے 6ارب ڈالر کا 3سالہ پیکیج EFFدینے پر تیار ہوگیا ہے جبکہ آئی ایم ایف کی سفارش پر پاکستان کو ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے بھی 2سے 3ارب ڈالر ملیں گے۔ آئی ایم ایف پیکیج کے تحت حکومت کو آنے والے بجٹ میں 650ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانا ہوں گے۔ اُسکے علاوہ آنیوالے دو سالوں میں 700ارب روپے کی ٹیکس مراعات 350ارب روپے سالانہ کے حساب سے ختم کرنا ہوں گی۔ پاکستانی روپے کی قدر برقرار رکھنے کیلئے حکومت اور اسٹیٹ بینک کوئی مداخلت نہیں کرینگے اور روپے کی قدر فری فلوٹ پالیسی کے تحت ہوگی۔ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کی جائے گی، بجلی کی قیمتوں میں دو مرحلوں میں اضافہ کیا جائے گا، پہلے مرحلے میں یکم جولائی سے بجلی کی قیمتیں بڑھائی جائیں گی جبکہ گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا جائیگا۔ معاہدے کے تحت پاکستان کے ترقیاتی بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں کیا جائیگا۔ حکومت کو اِس وقت 350ارب روپے کے ریونیو کی وصولی کی کمی کا سامنا ہے جس سے اِس سال 7فیصد بجٹ خسارہ متوقع ہے جس میں کمی لانے کیلئے 1400ارب روپے کے گردشی قرضوں کو ختم کر کے پاور سیکٹرز میں اصلاحات اور دی گئی سبسڈیز ختم کرنا ہوں گی اور نیپرا کو بااختیار بنایا جائے گا۔ اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ میں اضافہ کر کے اُسے موجودہ 10.75فیصد سے بڑھا کر 12فیصد تک کیا جائیگا، جس سے بینکوں کے قرضوں کی شرح سود میں مزید اضافہ ہوگا۔ رواں مالی سال 2018-19میں ضمنی جی ڈی پی گروتھ گزشتہ 9سال کی کم ترین سطح 3.29فیصد یعنی 280ارب روپے پر پہنچ گئی ہے جبکہ 2017-18میں یہ 5.35فیصد یعنی 313ارب ڈالر تھی۔ماہر اقتصادیات ڈاکٹر عبدالحفیظ پاشا کے مطابق رواں سال جی ڈی پی گروتھ میں 33ارب ڈالر کی کمی سے 40لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے اور 10لاکھ افراد بے روزگار ہوئے ہیں جس کی بنیادی وجہ پی ٹی آئی حکومت میں صرف 9ماہ میں 20فیصد کمی سے ڈالر کی قدر 123.16روپے سے 149.07پیسے تک پہنچ گئی ہے اور بلومبرگ کے مطابق پاکستانی کرنسی خطے میں سب سے کمزور کرنسی ثابت ہوئی ہے۔ جی ڈی پی گروتھ میں کمی زراعت، بڑے درجے کی صنعتوں اور کنسٹرکشن کے شعبوں میں واضح ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج 53,000انڈیکس کی حد سے گر کر 33166انڈیکس کی نچلی ترین سطح تک آگیا ہے جس سے چھوٹے سرمایہ کاروں کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط ماننے کے بعد آنے والے بجٹ سے کیا امیدیں وابستہ ہیں، کے موضوع پر میں نے ایک نجی چینل کے شو میں اِس بات کا برملا اظہار کیا کہ بزنس کمیونٹی اور ایک عام آدمی کیلئے نہایت مشکل حالات متوقع ہیں۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر آنے والے بجٹ میں عملدرآمد کر کے صنعتکار، تاجر اور ایک عام آدمی بری طرح متاثر ہوگا، بجلی گیس کے نرخوں میں اضافہ، اضافی ٹیکسز سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا اور افراطِ زر ڈبل ڈیجیٹ میں پہنچ جائیگا۔ ڈالر کا 150روپے ہو جانا اسٹیٹ بینک کی عدم مداخلت کا ثبوت ہے جو آئی ایم ایف کی شرائط میں شامل ہے۔ ایف بی آر کے نئے چیئرمین شبر زیدی جن کی تقرری کا مجھ سمیت فیڈریشن اور چیمبرز نے خیر مقدم کیا ہے، ایک پروفیشنل چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہیں، جو نہ صرف بزنس کمیونٹی کے ٹیکس مسائل سے بخوبی واقف ہیں بلکہ حکومت کی ٹیکس وصولی کی مشکلات سے بھی آگاہ ہیں کیونکہ اُنہوں نے حکومتی ٹیکس اصلاحات کی کئی کمیٹیوں میں کام کیا ہے۔ شبر زیدی نے عہدہ سنبھالنے کے بعد 30فیصد بلیک اکانومی کو دستاویزی شکل دیکر اُسے ٹیکس نظام میں لانے، ٹیکس دہندگان کو ہراساں اور بینک اکائونٹس منجمد کرنے پر پابندی کا اعلان کیا ہے۔ اُنہوں نے کم ٹیکس دینے والوں اور نان فائلرز سے ٹیکس وصول کرنا اپنی ترجیحات بتائی ہیں جبکہ ٹیکس ادا کرنیوالوں اور ٹیکس حکام کے درمیان باہمی رابطوں میں خاتمے یا کمی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ بزنس کمیونٹی کے اعتماد اور معاشی سرگرمیوں کی بحالی پر گزشتہ دنوں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر سے ایک ٹی وی پروگرام میں ون ٹو ون بحث میں، میں نے اُنہیں بتایا کہ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس حکومت کی کرپشن کے خلاف مہم کی حمایت کرتی ہے اور معیشت کو دستاویزی شکل دینے کیلئے حکومت کو سپورٹ کرتی ہے۔ فیڈریشن کی پالیسی ہے کہ نئے ٹیکس دہندگان ٹیکس نیٹ میں شامل کئے جائیں، ہم حکومت کے موجودہ چیلنجز میں اُن کے ساتھ ہیں لیکن حکومت کے طریقہ کار سے اختلاف کرتے ہیں۔ بزنس کمیونٹی اور اُن کے اداروں کے خلاف گرفتاریاں، کمپیوٹرز اور ریکارڈ کا ضبط کرنا، اکائونٹس منجمد کرکے ٹیکسوں کی وصولی، 2017کے بے نامی اکائونٹس قانون پر عملدرآمد، اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992کے مطابق نواز شریف حکومت کے لبرل فارن ایکسچینج پالیسی کے تحت کھولے گئے فارن کرنسی اکائونٹس سے آفیشنل چینلز کے ذریعے بھیجی گئی اور آنے والی انکم ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر شدہ رقوم پر نیب، ایف بی آر، اسٹیٹ بینک، ایف آئی اے اور دوسرے اداروں کی انکوائریاں اور نوٹسز نے بزنس کمیونٹی میں خوف و ہراس پیدا کر رکھا ہے جس کی وجہ سے کوئی بزنس مین نئی سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں۔ معاشی عدم استحکام، روپے کی گرتی ہوئی قدر، آئی ایم ایف کی سخت شرائط سے اسٹاک ایکسچینج مسلسل گررہا ہے اور بیرونی سرمایہ کار اپنی سرمایہ کاری نکال رہے ہیں۔ ملکی معیشت پھیلنے کے بجائے سکڑ رہی ہے اور نئی ملازمتوں کے مواقع محدود ہوگئے ہیں۔ کراچی سے پشاور تک رئیل اسٹیٹ کی خرید و فروخت کی ٹرانزیکشن نہیں ہورہی۔ میں نے شہزاد اکبر کو بتایا کہ 70سال سے ملک میں بے نامی اکائونٹس سے ٹرانزیکشن ہورہی ہیں، حکومت کی جانب سے 2017ء کے بے نامی اکائونٹس پر ایک دم عملدرآمد کیلئے بزنس کمیونٹی کو نوٹسز جاری کرنے سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر بری طرح متاثر ہوا ہے جس کیلئے حکومت نے فیڈریشن کی سفارش پر نئی ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا ہے۔ حکومت کو دیگر اہم امور مثلاً بزنس کمیونٹی کے اعتماد کی بحالی، ایکسپورٹس میں اضافہ، صنعتکاری کے فروغ اور نئی ملازمتوں کے مواقعوں کو بھی ترجیح دینا چاہئے کیونکہ صرف کرپشن پر قابو پاکر حکومت معاشی بحالی نہیں کرسکے گی۔

تازہ ترین