• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت نیب ملزمان کوعہدےنہ دے،گرفتاری ٹھوس ثبوت پرکرتےہیں،ثبوت نہیں توملک سے فرارکیوں،تاجر، بیوروکریٹس، خواتین کوطلب نہیں کریں گے،چیئرمین نیب

اسلام آباد (ایجنسیاں) قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے بزنس مین ، بیورو کریٹس اور خواتین کونیب دفاتر نہ بلانے کااعلان کرتے ہوئےکہاہے کہ نیب اور معیشت ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور چلتے رہیں گے ، نیب اور کرپشن ایک ساتھ نہیں چل سکتے‘پاکستان کوگرے لسٹ سے نکلواناہے‘کسی دھمکی ‘ خوف یا اثرورسوخ کی پرواہ نہیں‘ہر وہ قدم اٹھائیں گے جو ملک کے مفاد میں ہوگا‘کرپشن پر عوامی نمائندوں سے پوچھ گچھ ہوتی رہے گی‘اگر فالودے اور ریڑھی والے کے اکاؤنٹ سے اربوں کی ٹرانزیکشن ہوتو کیا نیب کو خاموش رہناچاہئے ‘پانچ لاکھ کی جگہ 50کروڑروپے خرچ کرنے سے پہلے اپنی پگڑیوں کا خیال ہوناچاہئے ‘ جمہوریت احتساب نہیں اپنے اعمال کی وجہ سے خطرے میں آتی ہے ‘نیب ٹھوس ثبوت ہونے کے بعد گرفتاری کرتا ہے‘اگر ہمارے پاس ثبوت نہیں ہوتے تووہ لوگ ملک سےباہرنہ جاتے ‘ عدالتوں کا سامنا کرتے ‘وہ کیوں ملک سے فرار ہوگئے ‘کچھ لوگوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کیلئے حکومت کو بھیجے تھے وہ نہیں ڈالے گئے وہ لوگ آج کہاں ہیں ؟ نیب کی وابستگی ریاست کے ساتھ ہے حکومت کے ساتھ نہیں‘ حکومت یا کسی ادارے سے ڈکٹیشن لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ اگر نیب کے حکومت کے ساتھ اتنے ہی دوستانہ مراسم ہوتے تو حکومت سے بجٹ میں کمی کی شکایت نہ کرتے ‘ارباب اختیار اور حکومت سے اپیل کرتاہوں جن کے کیسز نیب میں چل رہے انہیں عہدے نہ دیئے جائیں‘ آپ یہ سوچ کر کوئی عہدہ نہ دیں کہ عہدے پر آنے کے بعد نیب ان سے پوچھ گچھ نہیں کرے گی‘اگر وہ نیب کے ریڈار پر ہیں یا نیب کے مقدمات ہیں وہ اپنی جگہ چلیں گے اور چلتے رہیں گے‘آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنا حکومت کا کام تھا، ڈالر کی قیمت بڑھنے اور آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے اور اس کے نتائج میں نیب کا کیا قصور ہے؟۔ 90ارب ڈالر قرضہ روپیہ سستا ہونے سے 100ارب ڈالر ہو گیا یہ کس نے ادا کرنا ہے،؟ یہ ہم نے اور آپ نے ادا کرنا ہے ‘نیب کسی قسم کی سیاست میں ملوث نہیں ‘اگر پولیٹیکل انجینئرنگ ثابت ہوجائے تو عہدہ چھوڑدوں گا‘ یہاں عارضی ریلیف پر پھولوں کے ہار پہن کر نیب پر تنقید کی جاتی ہے‘ہمارااحتساب تو عدالتوں میں پہلے دن شروع ہوجاتاہے ‘ایک طرف وہ لوگ جو نیب کے ریڈار پر ہیں، ان کے وکلا کی فیسیں کروڑوں میں ہیں اور ہمارے پراسیکیوٹر لاکھ، دو لاکھ روپے لیتے ہیں۔ اتوار کو یہاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کہاکہ جب سے عہدہ سنبھالا ہے تو کبھی بھی اپنی ذات پر ہونے والی تنقید پر کوئی گلہ نہیں کیا کیونکہ مجھے معلوم ہے اس طرح کے کاموں میں اس طرح تو ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ دو تین دن سے صورتحال ٹھیک نہیں جس پر بحیثیت چیئرمین نیب میرا خاموش رہنا ادارے کیلئے بہتر نہیں تھا۔جسٹس(ر) جاوید اقبال نے کہا کہ میری ذات کامسئلہ نہیں لیکن ادارے کیخلاف بات کی گئی اس لیے مجھے بولنا پڑا ہے۔انہوںنے کہاکہ نیب نے معیشت کے خلاف آج تک کوئی اقدام نہیں کیا، معیشت کی زبوں حالی میں نیب کا کوئی عمل دخل نہیں، چند دنوں سے باتیں ہورہی تھی کہ اس کا ذمہ دار نیب ہے، اس معاملے کو سیاسی نہ بنائیں، مثبت تنقید کریں ‘موجودہ معاشی بحران حکومتی بحران نہیں بلکہ یہ قومی بحران ہے‘ ڈالر کی قیمت بڑھنے اور آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے اور اس کے نتائج میں نیب کا کیا قصور ہے؟ اس سب میں نیب کہاں سے آتا ہے؟کہ یہ سب نیب کی وجہ سے ہورہا ہے ان کی وجہ سے ہماری کاروباری سرگرمیاں ناکام ہورہی ہیں۔معاشی سرگرمیاں اس وقت کامیاب ہوتی ہیں جب آپ کے پاس جامع پالیسی ہو اور اس پر عملدرآمد کے لیے سنجیدہ افرادی قوت ہو، اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ ہو کہ آپ کے پاس پیسہ ہو۔گیس، بجلی، پانی، امن و امان کی صورتحال ان میں سے کس شعبے میں نیب کہاں سے آتا ہے،ان میں سے کس جگہ پر نیب کا عمل دخل ہے جس وجہ سے ہر صبح شام الزام عائد کیا جاتا ہے کہ بزنس کمیونٹی خائف ہے۔نیب نے آج تک ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھایا جو ملک کی معیشت کیلئے تباہ کن یا اس پر کسی بھی طریقے سے اثر انداز ہوتا۔نیب انسان دوست ادارہ ہے‘ہمارا کام بزنس کمیونٹی کو تحفظ دینا ہے اور دے رہے ہیں ۔چیئرمین نیب نے کہا کہ تمام ریجنل آفسز کو ہدایت کی گئی کہ جب بھی کسی بھی کاروباری شخص کی شکایت آئے ڈائریکٹرجنرل اسے خود دیکھے اور اگر وہ یہ محسوس کرے کہ اس کے مینڈیٹ میں کوئی چیز نہیں آرہی تو وہ مجھ سے رابطہ کریں گے اور 24 سے 48 گھنٹے میں شکایت کا مداوا کیا جائے گا۔ہم نے کبھی کسی بڑے کاروباری شخص کو ہراساں نہیں کیا نہ ہی ہماری ہراساں کرنے کی کوئی پالیسی ہے۔ نیب معیشت کو مکمل تحفظ دیگا ۔چیئرمین نیب نے کہا کہ آج تک کسی ایک بھی بزنس مین کی ٹیلیگراف ٹرانسفر (ٹی ٹی) میں مداخلت نہیں کی، پبلک آفس ہولڈر سے اگر یہ سوال کیا جارہا ہے ان کے کروڑوں روپے کیسے ملک سے باہر جارہے ہیں اور ان کے پاس کروڑوں روپے کیسے آرہے ہیں تو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے نیب ان سے پوچھنے میں حق بجانب ہے۔ انہوں نے کہاکہ نیب قانون کے مطابق کسی بھی ایم پی اے اور سینیٹر سے پوچھ سکتا ہے کہ کروڑروں روپے کہاں سے آئے اور کہاں جارہے ہیں ؟ پبلک آفس ہولڈرز سے قانون کے دائرے میں رہ کر پوچھا جائیگا ۔انہوںنے کہاکہ فالودے اور ریڑھے والے کے اکائونٹ سے کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشن ہو گی تو کیا ان سے نہ پوچھا جائے۔حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، ملک کو ہمیشہ قائم و دائم رہنا ہے، جو ملک کے مفاد میں ہوگا وہ کیا جائے گا‘انہوںنے واضح کیاکہ کسی دھمکی کی پرواہ پہلے کی تھی نہ آئندہ کی جائیگی ۔انہوں نے کہاکہ الزام تراشی کی جارہی ہے کہ نیب پولیٹیکل انجینئرنگ کررہا ہے کچھ الزامات ایسے ہیں جن میں کوئی صداقت نہیں ہے ۔چیئرمین نیب نے کہاکہ پھولوں کے ہار پہن کر نیب پر تنقید کی جاتی ہے کہ بغیر ثبوت گرفتار کرتے ہیں، کہا جاتا ہے پبلک کے نمائندوں کے خلاف صحیح انکوائری نہیں ہوتی، جنہیں پکڑا جاتا ہے ان سے تفتیش کو سبوتاژ کرنے کے لیے ہفتوں کوشش کی جاتی ہے، کبھی اجلاس بلالیا جاتا ہے اور کبھی کمیٹیوں کی میٹنگز ہوتی ہیں،تفتیش میں تاخیر کے لیے یہ ساری باتیں کی جاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ نیب ملکی مفاد کو ترجیح دے گا، گرے لسٹ سے پاکستان کو نکلوانا ہے اور عالمی سطح پر پاکستان کا امیج درست کرنا ہے۔چیئرمین نیب نے کہا کہ اگر نیب کے حکومت کے ساتھ اتنے ہی دوستانہ مراسم ہوتے تو حکومت سے بجٹ منظور کرانے میں کیوں مشکل درپیش آتی‘نیب کو ڈکٹیشن کا سوچنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔چیئر مین نیب نے کہا کہ عارف حبیب اورمیاں منشاکے خطوط نیب کے پاس موجود ہیں جس میں انہوں نے نیب کی کارکردگی کوسراہا، کیا عارف حبیب اور میاں منشا بزنس کمیونٹی کی نمائندگی نہیں کرتے؟کیا وہ ملک کے سب سے بڑے بزنس مین نہیں ہیں؟ اگر شکایت ہوتی تو سب سے پہلے انہیں ہوتی۔جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ بزنس کمیوٹی کو کسی قسم کا خوف نہیں ہونا چاہیے، تاجروں کونیب میں طلب نہیں کیا جائیگا، انھیں بلانے کے بجائے سوالنامہ دیا جائیگا۔بزنس کمیونٹی کو تحفظ دیں گے، اطمینان سے بزنس کریں۔ بزنس مین کمیونٹی کو مخاطب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان پرکسی قسم کادباؤ نہیں ہے، انھوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ پالیسی بیان دیتا ہوں کہ آئندہ کسی بزنس مین کونیب میں نہیں بلاؤں گا،ہم انہیں سوالنانہ بھیج دیں گے اور وہ ان کے جوابات دیدیں گے ‘ان چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے محسوس ہوا کہ بادی النظر میں کیس بنتا ہے تو پھر انہیں تکلیف دی جائیگی۔ وہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں لیکن ایک التماس ہے کہ آپ قانون کے مطابق اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔اگر کسی بزنس مین کو کوئی شکایت ہے تو مجھے بتائیں اگر آپ میرے پاس نہیں آسکتے ہیں تو میں آپ کے پاس چل کر آنے کیلئے تیار ہوں ۔ انہوںنے واضح کیا کہ ہم کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی نہ کریں تو کیا کریں؟پاکستان غریب ملک ہے جس کا قرض 100 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جبکہ ہمارا کام کاروباری حضرات کو تحفظ دینا ہے اور وہ ہم دے رہے ہیں لیکن کم بجٹ اور کم وسائل پر یہ کرنا مشکل ہے۔انہوںنے کہاکہ بیورکریٹس اور خواتین کو بھی نیب دفاتر نہیں بلایا جائیگا،گزشتہ چند ماہ سے یہ ہدایات دی ہوئی ہیں کہ کسی کوہتھکڑی نہیں لگے گی۔علیم خان سے متعلق سوال پر چیئرمین نیب نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنما علیم خان کی ضمانت کے خلاف اپیل زیر غور ہے۔ پریس کانفرنس کے دور ان جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کہا کہ خلیجی ممالک کے اہم رکن نے پانی اور سیوریج کے مسائل پر رابطہ کیا اور کہا کہ نیب کے توسط سے مسائل کے حل کیلئے سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں، ہم نے ان سے معذرت کرلی کہ یہ ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں۔جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ مجھے صرف یہ بتائیں کہ جہاں صرف 5 ہزار خرچ ہونے ہیں وہاں اگر 50 لاکھ لگیں تو کیا نیب خاموش تماشائی بنا رہے گا؟ مودبانہ سوال نہیں پوچھے گا کہ یہ کیسے ہوا اور کیا اس سوال سے پگڑیاں اچھل جاتی ہیں۔چیئرمین نیب نے کہا کہ جب 5 ہزار کی جگہ 50 لاکھ اور 5 لاکھ کی جگہ 50 کروڑ خرچ کرتے ہیں اس وقت آپ کو اپنی پگڑیوں کا خیال ہونا چاہیے نا کہ اس وقت جب سوال کیا جائے۔

تازہ ترین