• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کالم لکھتے ہوئے میری ایک آنکھ رو رہی ہے اور ایک ہنس رہی ہے۔ رونے کا سبب 118 میتیں سامنے ہیں اور لوگ جس میں خواتین، بچے بھی شامل ہیں چار روز سے برف گرتی سردی میں زمین پر بیٹھے ہیں۔ ان کی حمایت میں پاکستان کے ہر شہر میں ہزاروں لوگ دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ حکومت کی ساری کوششیں ناکام ہو چکی ہیں تو وزیراعظم کو خود چل کر آنا پڑا، زمین پر ان کے ساتھ بیٹھے اور اس نالائق حکومت کو برطرف کیا کہ جس کا وزیر اعلیٰ کبھی اسلام آباد،کبھی دبئی اور کبھی لندن میں نئی سے نئی دوست کو کبھی موٹر سائیکل پر تو کبھی گاڑی میں سرکاری خرچے پر سیر کراتا نظر آتا تھا۔ معلوم نہیں صدر مملکت کی کیا مجبوری تھی کہ اس کو برطرف نہیں کر رہے تھے۔ ہزارہ برادری کے سارے خاندان روتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ہمارے گھر تو خالی ہو گئے ہیں جن سے رونق تھی، ان کو تو ہم دفن کرنے کے لئے بیٹھے ہیں۔ ہماری گود خالی ہو گئی، ہمارے گھر ویران ہوگئے۔ یہ پہلا موقع تھا پاکستان میں کہ ہر شہر میں ان کی حمایت میں دھرنا دیا گیا۔ کوئی آنکھ نہ تھی جو اشکبار نہ ہو،کوئی شخص نہ تھا جو سوگوار نہ ہو۔ یہ منظر اور یہ دلسوز عالم، چار دن تک چلا۔ آخر حکومت نے مضبوط قدم اٹھایا اور تب یہ خاندان اپنے پیاروں کو دفن کرنے کو تیار ہوئے۔
میری آنکھ کے آنسو مسلسل جاری تھے کیونکہ ساتھ ہی خبر آگئی کہ ہمارے پیارے اور بہت ہی اعلیٰ درجے کے منصف عزیزی محمد علی صدیقی کے لئے پروانہ موت آچکا تھا۔ ترقی پسند تحریک کو دوبارہ زندہ کرنے میں محمد علی صدیقی اور راحت سعید نے بہت واقعی کردار ادا کیا۔ اس وقت جب کہ طاہر القادری کا جلوس ایمبولینس اور جامر کرنے والی گاڑیوں کے بیچ رواں ہے۔ قادری صاحب کی گفتگو ایک مبلغ جیسی ہے اور ان کی حاکمیت کا احساس نمایاں ہے۔ انہوں نے اسلام آباد کا سکون برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ معلوم نہیں وہ کیوں جمہوریت کو فنا کرنے کیلئے، ہر لمحہ تیار رہتے ہیں اور اسلام آباد آئے ہیں۔
اب آپ پوچھیں گے کہ میری دوسری آنکھ ہنس کیوں رہی تھی۔ انہیں دنوں میں ادیبوں کی توقیری بھی ہورہی تھی اور ان کو پریشانیوں میں مبتلا بھی کیا جا رہا تھا۔ ادیب اور وہ جن کی عزت افزائی کے لئے کانفرنس منعقد کی جا رہی تھی ان کی تلاشیاں لی جا رہی تھیں۔ خیر یہ تو ان افسروں کی بے ہودگی تھی جو اس کو اپنی ذمہ داری کہہ کر سر انجام دے رہے تھے۔ یہ سارا ملال اس وقت ختم ہوگیا جب وزیراعظم نے خود کو ادیبوں سے سیکھنے والا طالب علم قرار دیا اور کہا کہ جو بھی مطالبات پیش کئے گئے ہیں وہ سب منظور، حتیٰ کہ فیض آڈیٹوریم کی تعمیر کے لئے 3 کروڑ روپے فوری طور پر منظور کئے جاتے ہیں۔ میری دوسری آنکھ نے پھر رونا شروع کردیا۔
پوچھا اب کیا معاملہ ہے، بولی ان کے تو بس دو ماہ رہ گئے ہیں کیا یہ سارے مالی معاملات ان دو ماہ میں وصول ہو جائیں گے۔ ہنستی ہوئی آنکھ نے فوراً دخل دیا، جو شخص ایک ماہ میں اتنی بڑی کانفرنس منعقد کر سکتا ہے وہ یقینا مالی معاملات پربھی قابو پالے گا۔ ہم نے تو کیا تم نے کئی چیئرمین اکیڈمی دیکھے ہیں۔ ایک بھی تو کانفرنس منعقد نہیں کر سکے۔ ایک چین کا دورہ ہے وہ تو سلامت رہے چینی حکومت کہ وہ اس معاہدہ پر عملدرآمد کرتی ہے مگر چینی نمائندے شانگ کی باتیں بھی یاد رکھیں۔
انہوں نے کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم تو ہر معاہدہ پر عملدرآمد کرتے ہیں مگر حکومت پاکستان اپنے وعدوں کو پورا نہیں کرتی ہے، باتیں کرتے ہوئے مسٹر شانگ پُرملال دکھائی دے رہے تھے۔ اسی طرح فہمیدہ ریاض نے کہا کہ بلوچستان میں شیعوں کو مارے جانے کا حکومت نوٹس لے، حکومت احمدیوں کو مارے جانے کا نوٹس بھی لے۔ کانفرنس کے دوران شریک لوگوں میں نہ صرف فاٹا کے ادیب موجود تھے بلکہ آزاد کشمیر اور مضافات کے ادیب بھی بلائے گئے تھے۔ ان ساڑھے چھ سو ادیبوں کو اکٹھا کرنے کے لئے تعریفی کلمات کہے جانے ضروری ہیں۔
جب نئے نئے اکیڈمی کے چیئرمین اور ڈی جی لگائے گئے تھے تو ہم سب نے اعتراض کیا تھا کہ یہ پوسٹیں تو ادیبوں کے لئے مختص ہونی چاہئیں مگر ہم نے یہ بھی دیکھ لیا ہے کہ آٹھ آٹھ سال تک چیئرمین رہنے والے ادیب، بس خودی کو بلند کرتے رہے۔ ہم نے نان ادیب کے مقرر ہونے پر ناک بھوں چڑھائے تھے مگر اس کانفرنس نے ثابت کیا کہ کام کرنے والے کے لئے ادیبوں کو اور ان کے مسائل کو سمجھنا ضروری ہے ان سے دوستی رکھنا کوئی اتنا ضروری بھی نہیں۔
ابھی میں دعا ہی کر رہی تھی اور حمید صاحب سے کہہ رہی تھی کہ جائیں اور وزیر اعظم کے پاس بیٹھ کر اپنے سارے منصوبوں کے لئے بجٹ منظور کرائیں۔ کیا خبر تھی ایک دن کا بادشاہ دوسرے دن کا فقیر ہوتا ہے ادھر عدالت نے وزیراعظم کی گرفتاری کا حکم جاری کیا ادھر ہمارا ماتھا ٹھنکا کہ اب کہیں پھر اکیڈمی کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے نہ رہ جائیں کہ ہمارے ملک میں تو سارے کام ذاتیات کی سطح پر ہوتے ہیں۔ میرے بہت سے دوستوں نے کہاکہ اگر کہیں انصاف ہونے لگتا ہے تب بھی تم پریشان ہو جاتی ہو۔ میں نے کہا یہ بات نہیں اصل مسئلہ یہ ہے کہ جتنے لوگ قادری صاحب کے جلوس میں ہیں وہ سچ کہہ رہے ہیں کہ نظام بدلنا چاہئے مگر جس رجعت پسندانہ انداز میں کہہ رہے ہیں اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ ہمیں روشن خیال لیڈر شپ چاہئے نہ کہ جو کہیں کہ میں اسلام آباد کے کوفے میں آیا ہو۔
اب میری دونوں آنکھیں خشک ہیں اور حیران ہیں کہ یہ کونسی سیاست ہمارے ملک پر مسلط ہو رہی ہے۔ اب جبکہ انتخابات قریب ہیں یہ نامناسب اقدامات، ہمارے ماتھوں پر شکنیں پڑ رہی ہیں۔ خدا بچائے جمہوریت، آئین اور قانون کو!
تازہ ترین